اندھیرا بالکونی سے اُس کے کمرے میں جھانک رہا تھا، ایک عجیب کیفیت اُسے اندر جانے سے روک رہی تھی، تبھی ایک بُو امڈ کر باہر نکلی۔۔۔۔۔۔ اُس نے دیکھا اتنے سارے لوگ اُس کے جنازے میں شریک ہیں لیکن وہ نہیں ہے جس کے لیے اُس نے جان دی ہے ۔اُس نے اپنے بدن کو دیکھا، اُس کے جسم پر لپٹی سفید چادر بالکل سیاہ نظر آرہی تھی۔ پھر اُس نے سوچ کر کہا ! شاید رات ہے اِسی وجہ سے میرا کفن سیاہ نظر آرہا ہے ۔ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو اُس نے باہر پھینکا، گردن خم کرکے پھر وہ کمرے میں داخل ہوا۔
دو چار دنوں کے بعد آہستہ آہستہ تاریکی کا حصار ٹوٹا ، تب جا کے سورج نے اُس کے کمرے کو روشنی سے صاف کیا۔
جناب جنازے کا وقت قریب آیا۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کے سارے مہربان دوست صف اول میں اُس کے سامنے کھڑے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو ہیں جو قطار کی صورت میں مسلسل بہہ رہے ہیں۔
وہ اپنی اِس کامیابی پر بہت خوش تھا۔ اُس نے امام سے کہا، مجھے جلدی دفن کردو۔ وہ میرا انتظار کررہی ہے ۔ کون ! امام صاحب نے پوچھا۔۔۔۔۔۔؟ اُس نے کہا وہی جس کے لیے میں نے جان دی ہے۔
کہنے لگا کون ہے وہ۔۔۔۔۔۔؟
اُس نے کہا ۔۔۔۔۔۔ ایک گڑیا، جو خواب بانٹتی ہے۔
خواب بانٹتی ہے۔۔۔۔۔۔؟ پر کیسے ؟ امام صاحب نے پوچھا۔
اُس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ ملا اور مٹھی بھر خواب امام صاحب کو پیش کیے ،کہا۔ دیکھو اِن خوابوں میں۔۔۔۔۔۔ تمہیں ایک شخص نظر آئے گا۔ جو تاریکی میں رہتا تھا جس کے ہاتھ زمین والوں کی گناہوں سے بالکل پاک تھے، اُس سے ایک عظیم گناہ سرزد ہوا۔ پھر وہ خاموش ہوگیا۔۔۔ اُس کی سفید آنکھیں اِدھر اُدھر حرکت کرتی ہوئی اچانک رک سی گئیں۔۔۔۔۔۔!
گناہ۔۔۔ کیسا گناہ امام صاحب نے پوچھا۔۔۔؟
اُس نے کہا۔۔۔۔۔۔ اُس سے یہ گناہ سرزد ہوا کہ اُس نے ایک اَن دیکھی لڑکی کو دل دے دیا۔
اَن دیکھی، لڑکی کو۔۔۔۔۔۔ پر کیسے؟ امام صاحب نے پھر پوچھا۔
پچھلے دنوں جب وہ عبادت گاہ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، تبھی اُس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی ۔ جس نے سیاہ رنگ کا لباس پہن رکھاتھا۔ اُس کے چہرے کا ایک حصہ چمک رہا تھا، جبکہ دوسرا حصہ بالکل کالا نظر آرہا تھا۔ وہ تیزی سے عبادت گاہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بڑھتے بڑھتے وہ عبادت گاہ کی سیڑھیوں کے قریب آکر رک گئی۔ اُس نے اپنے چہرے کے روشن حصے کو اپنے ہاتھوں سے چُھپایا اور انگلیوں کے درمیان سے اُس کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا جہاں وہ لڑکا بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا۔
لڑکے کے جی میں یہ خواہش ابھری کہ وہ چہرے سے اپنے ہاتھ ہٹائے۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لڑکی چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کرسکی۔ اُس نے اپنی پشت کو عبادت گاہ کی طرف موڑ دیا۔ چاند کے سائے میں اُس کا بدن ایک ٹوٹے ہوئے مکان کی مانند نظر آرہا تھا۔ مکان کے طاق سے نکلتی روشنی میں ایک عورت اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کررہی تھی۔
وہ زندگی کو سیاہ چادر میں لپیٹے ، اُس مقام تک لانا چاہتی تھی ۔ جہاں انصاف کا ترازو، گڑھا ہوا تھا۔
لیکن وہ آتے آتے رک کیوں گئی۔۔۔۔۔۔؟ امام صاحب نے پوچھا۔
اس نے کہا۔۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ بقائے دوام چاہتی تھی۔ پورے راستے میں وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وہ جو کرنے جارہی ہے صحیح ہے۔۔۔۔۔۔؟
پر کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔۔۔۔۔ ! اس کا فیصلہ کرنے والی وہ کون ہوتی ہے!
پھر اچانک آنسو کی دو بوندیں، آنکھوں کے بالوں میں سے راستہ بناتے ہوئے اُس کے کانوں کی لوؤں تک آتی ہیں۔
اُس نے اپنے مردہ ہاتھوں سے آنسوؤں کو صاف کیا اور کہا۔
جب لڑکے نے لڑکی کی مفصل کہانی کو سمجھا۔ تب اُس لڑکی نے پھر سے اپنا رُخ عبادت گاہ کی طرف کردیا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکا تخیل کی دُھند میں پوری طرح لپٹ چکا تھا۔ وہ مقدس لفظوں میں کچھ تلاش کررہا تھا۔ اُس کے ہاتھ بوڑھے ہوچکے تھے۔
عبادت گاہ کی متفرق آوازوں نے اُسے بہرا بنا دیا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
تب اچانک اُس نے عبادت گاہ کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو وہ جارہی تھی۔
لڑکے نے جلدی سے عبادت گاہ کی نشست کو چھوڑا اور باہر کی طرف بھاگنے لگا ، بھاگتے ہوئے عبادت گاہ کی سیڑھیوں سے اُس کا پاؤں پھسلا اور وہ گرتا پڑتا نیچے جا گرا۔۔۔۔۔۔ اُس کے سر سے خون کی دھاریں، عبادت گاہ کی مقدس سیڑھیوں پر محبت کے حروف کندہ کررہی تھی۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر گاڑ کر اُٹھنے کی کوشش کی۔ تبھی اُسے محسوس ہوا کے اُس کے ہاتھ میں کچھ ہے۔۔۔۔۔۔ اُس نے چاند کی روشنی میں دیکھا تو وہ عبادت گاہ کے مقدس صحیفے کاایک ورق تھا، جس پر لکھا ہوا تھا۔
’’ میں تمہارا انتظار کروں گی‘‘۔
اُس نے چار پائی سے اٹھنے کی کوشش کی تو اُسے محسوس ہوا کہ وہ تو مر چکا ہے ۔ اس نے امام صاحب کی طرف دیکھا ۔ تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
وہ ذرا سنجیدہ ہوکر بولنے لگا۔ ( میں اگرچہ فتح حاصل نہیں کرسکا لیکن فاتح تو ہوں)۔
جلدی کرو وہ اندھیرے میں میرا انتظار کررہی ہے۔
امام صاحب صفیں درست کرنے کے لیے پیچھے مڑا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اُس نے جلدی سے چار پائی پر رکھی میت کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔لیکن دور ۔۔۔۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔۔۔ ایک خواب مقدس یادوں میں ڈوب رہا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے