"خالہ آپ کبھی اپنی بھی فکر کر لیا کریں آپ کے چشمے کا نمبر بدل گیا ہے جبھی چندھوں کی طرح گھور گھور کر ٹی وی دیکھ رہی ہیں” اوہو تو تمہیں کیا تکلیف ہے ۔۔۔ آنکھیں میری ہیں جما کر دیکھوں یا سر سری ، تم اپنی کمپیوٹر کی دنیا میں لگے رہو ۔
میرے بھانجے طلحہ سے میری بالکل نہیں بنتی اگرچہ اس بھری دنیا میں ہم ایک دوسرے کا واحد سہارا ہیں … ایک جیسے مزاجوں کے سبب نوک جھونک ہی نہیں باقاعدہ لڑتے بھڑتے بھی ہیں… مگر ایک دوسرے کے کام بھی ہم ہی نے آنا ۔۔۔۔
طلحہ کی ماں میری دور پرے کی چچا زاد تھی جو بدقسمتی سے ایک ٹریفک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھی اس وقت طلحہ کوئی دو ماہ کا ہو گا فاخرہ کے سوئم والے دن ہی غلغلہ اٹھا … ہے کوئی جو اس بن ماں کے بچے کو اپنا لے، جس نے سنا دانتوں میں انگلیاں دے لیں اس بات پر نہیں کہ چار شادی شدہ چچاؤں اور ہٹے کٹے باپ کے ہوتے دو ماہ کا ننھا طلحہ اس بھری دنیا میں تنہا رہ گیا تھا بلکہ اس بات پر کہ میں کنواری ہوتے ہوئے طلحہ کی ماں بننے پر راضی ہو گئی تھی اور اسے گھر لے آئی تھی، میرے مرحوم والدین کے چھوڑے ہوئے دو مکانات سے اتنا کرایہ آ جاتا جو ہم خالہ بھانجے کی روز مرہ کی ضروریات کے لئے عارضی طور پر کافی تھا ۔۔۔. یہاں پر ہی بات ختم نہ ہوئی بلکہ یتیم بچوں سے محبت میری زندگی بن گئی اور ایک چھوٹے سے فوسٹر ہوم کی تشکیل کا سبب بن گئی۔
ماضی کے دھندلکوں میں کھوئی اس گھر کے ابتدائی دنوں کو یاد کر رہی تھی ۔۔۔.طلحہ کی تیز آواز نے چونکا دیا جو اپنی موٹر سائیکل کو ریس دیتے ہوئے مجھے ہدایات دے رہا تھا۔
” اچھا بس شام کو تیار رہئے ۔۔۔ آئی ہسپتال جانا ہے ، اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا "۔
ایک درمیانی درجے کے استقبالیہ کاؤنٹر کے سامنے اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ادھر ادھر کی باتیں کرتی عورتوں کو کن انکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔ لمبی قطار چھٹنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی ، میں نے دل میں سوچا۔۔۔ کس قدر کاہل اسٹاف ہے ۔۔۔۔ تھوڑی گردن اونچی کر کے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی خواتین پر نظر ڈالی تو مارے کوفت کے تن بدن جھلس کر رہ گیا۔
دونوں کلرک گھنٹوں سے قطار میں کھڑے پسینے میں بھیگے پریشان حال لوگوں کی پرواہ کئے بغیر فون پر باتوں میں مصروف تھیں ۔۔۔ خدا خدا کر کے میرا نمبر پکارا گیا تو جان میں جان آئی ۔۔۔ میں نے لپک کراستقبالیہ کھڑکی میں سرگھسیڑ لیا ۔ ان میں سے ایک تھوڑا جھنجلا کر بولی ۔” آنٹی اپنا نام بتائیں ” سطوت خانم ” میں نے دھیرے سے جواب دیا ۔
” آنٹی کیا پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ نام بتائیں” وہ پھر چلا کر بولی۔
میں نے بھی زور دے کر کہا” بتا تو رہی ہوں ۔۔۔۔ آپ فون پر سے توجہ ہٹائیں گی تو سنائی دے گا نا ۔۔۔۔۔۔۔
” کیا”۔۔۔۔۔ اب وہ بالکل ہی چڑ گئی تھی ۔۔۔۔ بدتمیزی سے بولی ” تم کچھ زیادہ ہی بد دماغ لگتی ہو ۔۔۔۔۔ آنٹی ” اس کا سارا زور آنٹی لفظ پر آ گیا تھا۔
” شوہر کا نام بتاؤ ” اس نے دوسرا سوال داغا۔
میں نے تڑ خ کر جواب دیا ” شوہر کا نام کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔ آنکھیں ٹیسٹ کرانے آئی ہوں ۔۔۔ کوئی گائنی وارڈ میں نہیں ہوں "۔
وہ جھلا گئی ” ارے ۔۔۔۔ اچھا والد کا نام بتا دو۔۔۔ شوہر نہیں ہے تو "۔
” کیوں بتاؤں۔۔۔ باپ کا نام ۔۔ میں کوئی بچی ہوں” میں نے تنک کر جواب دیا اور پھر گویا ہوئی ۔۔۔
"ایک ذمہ دار خاتون ہوں ۔۔۔۔کئی بچوں کی سر پرست ہوں۔۔۔ میری اپنی کوئی حیثیت نہیں کیا ۔۔ شوہر اور باپ کا دم چھلا لگنا ضروری ہے اس عمر میں "۔
” ارے بابا۔۔۔۔ آنٹی ” دوسری فون چھوڑ کر مجھ سے مخاطب ہوئی۔
"لیکچر نئیں جھاڑو ۔۔۔ ہمیں تمہارے نام سے کیا لینا دینا ۔۔۔۔ سسٹم پوچھ رہا ہے تو ہم کیا کریں ۔۔۔
"تو اپنا سسٹم بدل کیوں نہیں دیتیں” ۔۔۔۔۔میں نے بھی اسی لہجے میں ترکی با ترکی جواب دیا۔
آس پاس کھڑے لوگوں کو جیسے مشغلہ ہاتھ آ گیا وہ سب یوں گھیرا تنگ کرنے لگے گویا میں مداری کی کوئی بندریا ہوں جو اپنے مالک کا کہنا ماننے سے انکاری ہو گئی ہو۔
کلرک عورتیں بھی تپ گئی تھیں ” پہلے ہی اتنا رش ہے آنٹی ! اگر تمہاری شادی نہیں ہوئی تو اس میں ہمارا کیا قصور۔۔۔۔ نام نہیں بتانا تو یہاں آئی کیوں ہو ۔۔۔ سسٹم کو تو ماننا پڑے گا "۔
"چلو پیچھے ہٹو ۔۔ دوسری کو آگے آنے دو ” کلرک نے حقارت سے منہ بنایا۔
پیچھے کھڑی ہوئی بھاری بھرکم ادھیڑ عمر خاتون نے مجھے دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی ،مگر میں تو پیچھے ہٹنے کو ہرگز تیار نہ تھی ، با رعب لہجے میں بولی ” ہممم لگتا ہے آصفہ رضا سے کہنا ہی پڑے گا ۔۔ میری قریبی عزیز ہ ہیں تمہاری بگ باس ۔۔۔ سمجھ لو آج ہی تمہاری چھٹی ” میں نے چٹکی بجائی اور انگلیوں کو دھمکی آمیز انداز میں جھاڑتی ہوئی بولی دراصل یہ نام انتظار کے ابتدائی وقفے میں چپکے سے مینجمنٹ بورڈ پر پڑھ لیا تھا۔
اتنا کہنا تھا کہ کلف لگے رویے ملائم پڑ گئے ۔سارا کلف بہہ کر میری گردن میں جو آ چکا تھا دبی دبی ہنسی کی آوازیں پیچھے سے اب بھی آ رہی تھیں ” بڈھی آنٹی کے نخرے تو دیکھو۔۔۔۔ شوہر نہیں ملا تو اس میں سسٹم کا کا قصور ” میں نے مڑ کر ایک بار پھر گھور کرانہیں دیکھا ۔۔۔۔۔ دونوں کلرک جو مجھے ہی دیکھ رہی تھیں ۔کھسیا کر ادھر ادھر بغلیں جھانکنے لگیں ، ” میرا نام سطوت خانم ہے بس یہی کافی ہے ” کہتے ہوئے اپنے نام کی پرچی ہاتھ میں لئے معائینہ کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے