زندگی بدلی، فضا کا ذائقہ بدلا
مگر چہرہ نہیں بدلا
یہ عورت میرا چہرہ ہے۔
یہ عورت، دھوپ سے جلتے ہوئے
آنگن میں میرے ساتھ کھیلی ہے۔
یہ عورت، غم کی بارش میں نہائی
عمر کی ساری لکیریں پہن کے بھی مسکراتی
اور اپنے دکھ ہواؤں کو سناتی
سب میں خوشیاں بانٹتی
شبنم سی لگتی ہے۔

مجھے معلوم ہے اس کی سہیلی
اس کے گھر کی ایک کھڑکی ہے
جہاں وہ اپنی گزری عمر کی
ساری مہک، ساری ملاقاتیں سنبھالے ہے۔
وہ ساری سلوٹیں جو عمر نے چہرے پہ لکھی ہیں
وہ اس کھڑکی میں جاکے، سب کے سب تحلیل ہوتی ہیں
نکھر آتی ہے وہ لڑکی
کہ جس نے آرزو کے موتیوں کا ہار پہنا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے