دو شادیوں کے بیچ ،محبت کتنی ہی زندہ و تابندہ کیوں نہ ہو ،بالآخر موت اسے دبوچنے میں دیر نہیں کرتی۔ اس سے محبتوں اور مسکراہٹوں کی سلامتی پر ہر وقت خطرات کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں ۔ بے پناہ محبت کے باوجود ، بے رخی کا بھوت کسی نہ کسی طورفریقین کے سر پر سوار رہتا ہے ۔اگر اِ س سے بچنے کی تدبیر نہ کی جائے تو یہ رشتوں کے درمیان دراڑیں ڈال دیتا ہے۔پھر ہوتا یہ ہے کہ، محبت اور بے رخی کے بیچ جواں سال جذبے کچلے جاتے ہیں۔ یہ جذبے خواہ کتنے ہی جوان کیوں نہ ہوں،رنجشوں کے بیچ مر کر،موت کا قصہ بن جاتے ہیں ۔
نو عمر جذبوں کی موت کتنی بھیانک ہوتی ہے ؟ اس کا ہول ناک منظر میں نے پہلی بار دیکھا ۔یہ بھید بھی مجھ پراس وقت کھلا کہ، فرد سے کہیں زیادہ جذبوں کی موت اذیت ناک ہوتی ہے۔ یہ جذبے ہی تو محبت کو پال پوس کرتوانا کرتے ہیں۔اگر جذبے مر جائیں تو محبت کا انت ہوتا ہے۔اور اگر محبت مر جائے توانسانیت مر جاتی ہے۔دنیا کا نظام تہس نہس ہو جاتا ہے۔سچ پوچھو تو ،اس دن مجھے کائنات کا نظام منہدم ہوتا دکھائی دیا،جب محبت اور بے رخی کے بیچ، موت کا منظر میری آنکھوں میں گھوم گیا۔
قصہ یوں ہے کہ اتوار کا دن تھا،میں دیر سے جاگا ۔چھٹی کا دن ہو تو کبھی کبھی نیند کی عیاشی کرنے کو دل کرتا ہے۔سو‘ یہ عیاشی میں نے کر لی تھی ۔مگر جونہی میری آنکھ کھلی، میں نے بھاشن سننے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیا رکر لیا تھا۔کیا ہے نہ کہ، ہر گھر میں تھوڑی بہت نوک جھونک تو ہوتی رہتی ہے۔ بس معمولی سا فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں،ایسا مستقل مزاجی کے ساتھ ہوتا ہے۔میری بیگم صبح اُٹھتے ہی ،جب تک مجھے اور میرے بچوں کوبھاڑے کے چند بول نہ سنائے،اس کا دن بے کار جاتا ہے۔ہاں ۔۔۔بسا اوقات،اس کے سر میں درد ہو توناغہ ہو جاتا ہے،اور ہم اُتنے ہی خوش ہوتے ہیں، جتنے، بچے ماسٹر صاحب کے بیمار ہونے پر خوش ہوتے ہیں۔
اس سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہماری آپس میں نہیں بنتی،یا میں کوئی بیگم سے ڈرنے والا ،بزدل قسم کا شخص ہوں، ایسا بالکل نہیں ہے۔بات کچھ یوں ہے کہ میری بیگم کی خوبیاں اِتنی ہیں کہ خامیاں اس کی ذات میں پائے جانے والے محاسن کے آگے گہنا جاتی ہیں،اور میں اُس کی خوبیوں کو چوم چاٹ کر بھاشن سننے کا حوصلہ پا لیتا ہوں۔
آج جب میں دیر سے جاگا ، بیگم کا رویہ حیران کُن طور پر بدلا ہوا تھا۔اس کی باتوں میں کافی لچک تھی۔اس کی چال ڈھال میں پہلے جیسی شوخی نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کے چاند سے چہرے کو گرہن لگ چکا ہو۔آج چندا ‘کھری سنائے بغیر،معمول سے ہٹ کر ،میرے پاس چلی آئی تھی۔ اس نے اپنے گالوں پر بِکھری ہوئی زلفوں کو پرے ہٹا یا،ماتھے کی شکنوں پر اشہد انگلی پھیر کرپسینہ پونچھا ،اور بجھی بجھی سی شباہت لیے میرے قریب آئی ۔ اس کی پیشانی پر پانی کی ہلکی ہلکی پھوار دِکھائی دیتی تھی ۔اگرچہ پانی کی بوندیں شبنم کی طرح، اس کے حسن کو نکھارے ہوئے تھیں ،مگر پیشانی اور گالوں پر اس قدر پسینہ کسی بڑی پریشانی کا پتہ دیتا تھا۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ مجھے حیرت تو اس وقت ہوئی ،جب اس نے اپنی پسند کی تعبیر سنی اور اپنا غم رفع دفع کر دیا ؛جب کہ مجھے تنہا موت کے منہ میں جاتا دیکھ کریوں مسکرائی ، جیسے میری موت کا سندیسہ سن کر اس کے وجود کے روئیں روئیں میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہو۔کیسی غضب ناک مسکراہٹ تھی۔جب اس کے تھر تھراتے ،سرخ ہونٹوں کے سختی سے آپس میں جڑے دونوں کنارے الگ ہوئے، اس کے موتی جیسے سفید دانتوں سے چاندی جیسی کرنیں برآمد ہوئیں۔۔۔ میں محظوظ ہونے کے بجائے ایک دم سٹ پٹا گیا۔غضب توتب ہواجب وہ گردن مٹک کر اُٹھی اور ہولے ہولے ہنستی ہوئی چل پڑی ۔تب میں نے محبت اور بے رخی کے بیچ جواں سال جذبوں کوزخمی حالت میں کراہتے دیکھا۔اس کی بے پناہ محبت کو سسک سسک کر مرتاہوا محسوس کیا ۔ اسی موت کے زیرِ اثر میری اس ا لم ناک کہانی نے جنم لیا ہے ۔
یہ کہانی ہی کچھ ایسی ہے ،جس میں دو دلوں کے ملن کے بعد ان کی محبت، اعتماد کے ساحل پر پہنچ کردم توڑ دیتی ہے۔ ہو بہواس خوب صورت بچے جیسی کہانی ،جو دو جسموں کے ملاپ کے بعد،چھوٹے سے گوشت کے لوتھڑے کی مانند ، شکم مادر میں تخلیق پاتا ہے۔یہ بچہ پیدائش کے وقت تو نہایت حسین و جمیل ہوتا ہے،لیکن جلد ہی بد اعتمادی اور بد کلامی کاتیز دھار خنجر اس کے حسین پیکر کو کاٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔اس کہانی نے باہم جڑے ہوئے ،دو ایسے رشتوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے، جن کے خواب ،خزاں کے سوکھے پتوں کی طرح ہمہ جہت بکھر چکے ہیں۔ جی ہاں یہ قصہ ہے اس بے پناہ محبت کے خوب صورت آغاز اور برے انجام کا ۔۔۔اور ان لمحوں کا بھی، جب پہلی بار چندانے ،محبت کے چندبول بولے تھے ، اور آخری بار۔۔۔آخری بار جب ہماری جواں سال محبت قریب المرگ تھی، میری موت کا سن کراس کے چہرے پربے پناہ مسرت پھیل گئی تھی :
’’اُسے مجھ سے بے پناہ محبت ہے۔‘‘پہلی بار ۔۔۔ایسا کہا تھا اس نے۔۔۔ ہاں ایسا بھی کہا تھا اس نے کہ،’’ وہ میرے بغیر نہیں جی سکتی۔‘‘یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میری پہلی شادی ،اس کے ساتھ ہوئی تھی۔اک نئے بندھن میں بندھے تھے ہم دونوں۔سماجی رسوم و رواج نباہتے ہوئے، وہ لمحہ بھی آیا تھا ،جب میری جان پر آ ن پڑی تھی۔ اف اللہ ۔۔۔وہ قیامت کی گھڑی ، جب میں یخ بستہ رات کے پچھلے پہر کھلے آسمان تلے نہایا تھا۔جاڑے کی ٹھٹھر تی ہوئی وہ رات مجھے اب بھی یاد ہے،جب میری ناتوانی کا پول کھلنے لگاتھا۔ایسا لگتا کہ جیسے سردی میری ہڈیوں کے گودے میں اتر جائے گی۔ قریب تھا کہ میرا بدن کانپنے لگتا،ہونٹ تھرکنے لگتے اوردانت آپس میں ٹکرا کرکسی ٹوٹی ہوئی سارنگی جیسی آواز یں پیدا کرتے، بھلا ہوباراتیوں کا جنہوں نے جلد ہی مجھے دلہن کے پاس پہنچا دیا تھا۔ جب مجھے میرے ہم نوا،بڑی شان سے حجلہء عروسی میں لے گئے تھے ۔سہاگ رات کے سرخ جوڑے میں دلہن کا روپ نیا نکھرا لگاتھا۔۔۔جھکی ہوئی گردن۔۔۔گری ہوئی پلکیں۔۔۔ جب میری پہلی نظر اس پر پڑی، وہ دلہن سیج پر سج دھج کے بیٹھی تھی ۔ اس کی سکھیاں بھی دائیں بائیں براجمان تھیں،جو شاید اتالیقی فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔گمان یہ تھا کہ کچھ’ کنوار‘ کوڈرانے اورکچھ دولھے میاں کوچت کرنے کے گُر سکھانے آئی تھیں۔ان میں بعض لڑکیاں سینئر اور الہڑ بھی تھیں،جو ابھی اس مشق سے نہ گزری تھیں۔ ڈری ،سہمی ہوئی دلہن کو دیکھ کر ایسا لگتاتھا کہ جیسے، سکھیاں اسے ڈرا ،ڈرا کر ادھ موا کر چکی ہوں کہ یہ مردکوئی مہذب انسان نہیں،بلکہ جانور نما مخلوق ہوتے ہیں،بالکل اُس بدمست گھوڑے کی مانند ،جسے اگر نئے تانگے میں جوت دیا جائے تو وہ گھوڑاہنہنائے بغیراس نئے تانگے کو یوں کھینچنے لگتا ہے ، جیسے ہچکولے کھاتا ریل کا تیز رفتارانجن اپنے ڈبے کھینچتا ہے۔اور اس کھینچا کھینچی میں مُوئے تانگے کا حشر مرزا کی بائیسکل جیسا ہو جاتا ہے،جس کا نقشہ پطرس نے کس خوب صورتی سے کھینچا ہے۔
مگر سچی بات یہ ہے کہ عملاً معاملہ اس کے برعکس تھا۔ محبت کے اس میلے میں پرانے تعلق کی تجدید کا عزم لیے،جب ہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے توگگھو گھوڑے کی طرح میری زبان لڑکھڑا گئی تھی۔شاید اس لیے کہ اب تک یہ تعلق یک طرفہ تھا،کیوں کہ وہ باہم محبت کا اظہار نہ کر پائی تھی ۔ شاید اس لیے بھی کہ ہماری پرورش میں اتنی بے تکلفی نہ تھی۔پہلے پہل تو وہ بھی مونگ منہ میں ڈال کر بیٹھی رہی۔بالآخر کچھ دیر خاموشی کے بعدکہیں جا کر چپ کے تالے ٹوٹے تھے۔پھر ایسا ہوا تھا کہ سہاگ رات والی اس گھڑی، جب تمام تکلفات توڑ کر، ہم دونوں باہم ایک ہوئے ۔۔۔یہی الفاظ کہہ پائی تھی وہ؛ ’’مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔ ‘‘یہ بھی کہا تھا اس نے کہ ’’ وہ میرے بغیر نہیں جی سکتی۔‘‘ مجھے یاد ہے ایسا اس نے اپنی بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
اگرچہ اس نے پیار کا اظہار برملا طور پرکر دیا تھا ، مگر پھر بھی دل کے پیاسے صحرا میں ریت اڑاتے، چندا کی بے پناہ محبت کے جھکڑ التباسی معلوم ہوتے تھے۔بظاہر اس احتمال کی کوئی معقول وجہ نہ تھی،لیکن اس نے اپنی محبت کا اظہار ایسے وقت میں کیا تھا،جب وصل کی لذت سے آشنائی کا خمار اس کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ابھی پیا ر کا بخار دھونکنی کی طرح اس کے وجود میں عشق کے انگارے دہکا رہا تھا ، جس میں تپ کر وہ بے پناہ محبت کا اظہار کر بیٹھی تھی ۔
اس سے پہلے، میں جب بھی اس کے گھر جاتا تھا۔۔۔کئی گھنٹے بیٹھنے کے باوجود ا س کی جھلک دیکھنے کو ترس جاتا تھا۔تب مجھے بتایا جاتا کہ وہ زیادہ تر وقت ماڑی پر گزارتی ہے۔میں اس کے گھر والوں سے آنکھ بچا کر بالائی منزل پر بنی ماڑی کے برآمدے پر لگی جالی میں دیکھتا تھا ۔ مجھے گمان ہوتا تھا کہ وہ جالیوں کے اس پار کھڑی مجھے دیکھ رہی ہے۔ہاں البتہ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تھا ، وہ نانی اماں کی موٹی تہہ دار رانوں کو اپنے پیروں تلے داب رہی تھی۔اس کے لمبے ،گھنے ،سیاہ بال،اس کے کولہوں سے ایک بالشت نیچے،اس کی ٹانگوں سے ٹکرا کر میرے دل و دماغ کومسحور کر چکے تھے،اور میں اسے دل دے بیٹھا تھا۔
پھر کیا ہوا تھا کہ ،رشتہ طے ہونے سے چند لمحے قبل وہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ میرے لیے کھانا لے کر آئی تھی۔دستر خوان سامنے بچھاتے ہوئے، اس نے مجھے گھور کر دیکھا تھا،پھر زیرِ لب مسکرائی تھی۔شایداشا روں کنایوں میں چھیڑنے سے باز رکھنے کے لیے اس نے ایساکیا تھا۔ لیکن یہ گھورنا ایسا بالکل نہ تھا، جس طرح حقوق مانگنے پر ہوس پر ست حکمران اپنی خود سر رعایا کو گھور کر دیکھتا ہے۔یا خزانے کا کنجوس وزیرعوام دوست بجٹ بنانے کا تقاضہ کرنے پر مطالبہ کرنے والے کی طرف گھورکر دیکھتا ہے کہ جیسے وہ اپنے گھر سے دے رہا ہو۔میری محبوبہ کا گھورنا الگ تھا۔ جب اس نے مجھے گھور کر دیکھا تھا۔ میں نے بھی اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی تھی۔بے پناہ محبت کوجانچنے کا ڈی ،این ،اے ہوتا تو میں ضرور کراوا لیتا ،مگر دل کی بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں گہرا پیار نظر آیا تھا مجھے۔ اس کے بعد ،میرا اس کے گھرجانا اور اس کا بالائی منزل پر وقت گزارنا معمول بن چکاتھا۔
’’بڑی مہذب ہوتی ہیں ہمارے خاندان کی لڑکیاں ۔ ‘‘جب کبھی میں اسے دیکھنے کی خاطر اِدھر ، اُدھر جھانکتا تو اس کی ماں ایسا کہتی تھی ۔
ہاں تو میں بتارہا تھا کہ سہاگ رات،جب بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے،اس نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ مجھے پختہ یقین ہوگیاتھا کہ واقعی اسے مجھ سے بے پناہ محبت ہے۔ایسی محبت جس کا میم چندا کے ساتھ ملن کے بعد ،محبت کی معراج پانے جا رہا ہو۔ اور میں اس معراج کی بلندیوں کو چھو کر ایسے مقام پر پہنچا تھا۔جہاں زندگی، محبت کی ڈور سے جڑجاتی ہے۔ یہ ڈور اگر ٹوٹے تو انسان فنا ہو جاتا ہے۔
شادی کی صورت میں محبت کی معراج پالینااتنا مشکل نہ تھا،لیکن جب فنا اور بقاکے بیچ عملی زندگی کی شروعات ہوئی،تب سے ۔۔۔اب تک ۔۔۔ہر قدم ۔۔۔ ہر گھڑی ،زیست کا نیاسفرپُرسکون ہونے کے ساتھ ساتھ پُر پیچ اور دشوار بھی دکھائی دیتا ہے۔کبھی زندگی جنت کی بہاروں سے آشنا رہتی ہے،کبھی روح جہنم کے خارزاروں میں بھٹکنے لگتی ہے ۔بسااوقات دل و دماغ پیار کی بو باس سے معطر رہتا ہے ،کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے دشتِ دل میں خار دار جھاڑیاں اُگ آئی ہوں،جنھیں کاٹتے اور کانٹوں کے ڈھار سمیٹتے ہوئے ہاتھ ہی نہیں ، پورا وجودزخمی ہو گیا ہو۔
کہتے ہیں کہ دودلوں کے بیچ اتار چڑھاؤسے ،ایک دوسرے کو سہنے، سمجھنے اور در گزر کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ہمارے درمیاں بھی اختلافات ،بعض اوقات سولہ سنگھار کا کام کر جاتے ہیں، اور کبھی لاکھ بناوٹ کے باوجود ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو جاتا ہے ،جیسا میک اپ کرنے اور پھر اتر جانے کے بعد کسی کالی کلوٹی عورت کا ہوتا ہے۔تب ہم دونوں، جیسے مر سے جاتے ہیں۔محبت کو مات دیتے ان اختلافات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ،اگر میرے اور چندا کے بیچ، تعلقات میں کشیدگی کی بڑی توجیہہ تلاش کی جائے توجرم میری کتابوں پر بھی صادر ہوتا ہے۔۔۔میرے ہاتھوں میں کتاب دیکھ کر بیگم صاحبہ کا وہی حال ہوتا ہے ۔۔۔ جیسا پہلو میں’پہاج‘ دیکھ کرکسی بھی عورت کا ہو سکتا ہے ۔۔۔سو،سو سوکنوں والی بات تو اس کا محبوب محاورہ بن چکی ہے کہ اس کے نزدیک سو کتابیں ،سوسوکنوں کے برابر ہیں۔
بہر کیف کتابوں کا مسئلہ ہو یا کوئی اور معاملہ ، جب بھی ہمارے بیچ اکھاڑا لگتا ہے ،نقصان ہر صورت میں میری کتابوں کا ہی ہوتا ہے ۔چنانچہ جب بھی چندا بیگم کا موڈ آف ہوتا ہے یا کسی مسئلے پر نوک جھونک ہو جاتی ہے۔ناراضی خواہ کسی بھی نوع کی ہو، میں اپنی نایاب کتابیں ،گھر کی ڈیوڑھی کے ساتھ لگے کچرہ دان سے ڈھونڈ لاتا ہوں۔تعلقات کچھ مزید بگڑجائیں تو کتابوں کے ساتھ ،اس کی بے پناہ محبت بھی اُسی کچرہ دان میں کراہتی ہوئی مل جاتی ہے،جسے جھاڑ پھونک کراصلی حالت میں لانے کے لیے آگ کے کئی دریا عبور کرنے پڑتے ہیں ۔مگر اس کی بے پایاں خوبیوں کاکیا کیا جائے کہ خامیوں پر دھیان زیادہ دیر نہیں ٹک پاتا۔
یہ زندگی بھی سمندر کی طرح ہوتی ہے۔کبھی اس میں ایسا ٹھہراؤ آتا ہے کہ جیسے سمندر کا سکوت ، کبھی یوں اُچھلتی ،بل کھانے لگتی ہے،جیسے پل بھر میں ڈبو کر رکھ دے گی۔چنانچہ ،ڈوبنے اور بچ نکلنے کی کشمکش کے بعد یوں ہوا کہ ،زیست کے بحرِ بیکراں اور اس کے نشیب و فراز سے جڑی جیون کتھامیں ایک رات ایسی بھی آئی ، اسے نیند نہیں آئی۔۔۔
دراصل ایسا ہوا کہ اس رات چندا نے اک خواب دیکھا ۔بہت برا ۔۔۔بھیانک خواب ،جس نے اسے حواس باختہ کر دیا تھا۔اس خواب کو لے کر پوری رات کروٹیں بدلتے ہوئے ،تارے گنتے ہوئے کاٹی تھی اس نے۔
صبح جونھی وہ اُٹھی ،اس کا رویہ حیران کُن طور پر بدلا ہواتھا۔بھاڑے کے چندبول سنانے کے بجائے،وہ دیوانہ وار، میرے پاس دوڑی چلی آئی اوربے اختیارمجھ سے لپٹ گئی ۔
’’مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔سورج پلیز۔۔۔ میں تمھارے بغیر نہیں جی سکتی۔۔۔‘‘اس نے میری چھاتی سے لگ کر روہانسی شکل بناتے ہوئے کہا ۔اس کا دل زور ،زور سے دھڑک رہا تھا۔
’’ارے یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ ؟تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو ۔۔۔؟‘‘میں نے اس کی بانہوں کے ڈوروں سے پکڑ کراسے الگ کیا اور حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’سورج جانی ! ہوا یہ ہے کہ ،میں نے اک خواب دیکھا ہے۔‘‘اس نے دھیمے لہجے میں یوں جواب دیا،جیسے آواز اس کے حلق میں اٹک گئی ہو۔
کیسا خواب۔۔۔؟؟ اور پھر اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے۔۔۔ ؟‘‘
’’دراصل وہ۔۔۔‘‘
’’دراصل وہ۔۔۔ ‘‘ چندا بار باردراصل وہ ۔۔۔کی تکرار کر رہی تھی،مگر بول نہیں پا رہی تھی۔
’’ارے بول نہ۔۔۔ کیا ہوا ہے تمہیں ؟ کیسا خواب دیکھا ہے تم نے؟‘‘میں نے اسے جھنجھوڑ کر کہا۔
’’آخر کر لی نہ دوسری شادی تم نے۔۔۔اونہوں۔۔۔اونہوں۔۔۔اونہوں۔۔۔ ؟؟‘‘وہ رونے لگی اور سانس ٹھیک کرنے کے بعد پھر گویا ہوئی ’’ کیوں کیا ایسا تم نے،سورج کیوں۔۔۔؟؟‘‘ اب وہ میری چھاتی پر مُکے مارتے ہوئے کہتی جاتی تھی۔
’’ ارے کچھ تو بتا نادان ! کیسی شادی ،آخر ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟‘‘ میں نے ایک بار پھر اسے جھنجھوڑ کر پوچھا۔
’’سورج ،کہا ناں!میں نے خواب دیکھا ہے کہ،رات تمھاری شادی ہو گئی ہے۔سجی ،سنوری دلہن کے ساتھ،سج دھج کے بیٹھا تھا تو۔۔۔ ‘‘ اس نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ،اور ٹھن کے بولی:
’’دیکھو سورج۔۔۔!!میں جان تو دے سکتی ہوں مگر تمھیں سوکن کے ساتھ سہاگ رات مناتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔میرے ہوتے ہوئے تم دوسری شادی نہیں کر سکتے،تم کسی اور کے نہیں ہو سکتے، کبھی نہیں ۔۔۔سورج کبھی نہیں‘‘ اس نے مُٹھیاں بھینچ کر شدید غصے کی حالت میں چلاتے ہوئے کہا۔ وہ جذبوں کی تیز رو میں اِس قدر بہہ نکلی تھی کہ اُس کی آنکھیں اُمڈ پڑی تھیں ۔اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں ۔ یکا یک باؤلی سی ہوگئی تھی وہ۔
میں نے پہلے اسے چارپائی پر بٹھایا،پھر پیارسے سمجھایا کہ ،’’ پگلی اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ اس خواب کی تعبیر یہ نہیں ہے کہ میں دوسری شادی رچانے والا ہوں، بلکہ میری کتابوں میں ایسالکھا ہے کہ جس شخص کی خواب میں شادی ہوجائے یااس کا عقد ،نکاح دیکھا جائے تو، صاحبِ نکاح کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ‘‘ میں نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’واقعی۔۔۔ایسا لکھا ہے تمہاری کتابوں میں۔۔۔؟؟؟ اس نے تجسُس سے پوچھا۔
’’جی۔۔۔ ایسا ہی لکھا ہے۔‘‘میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
’’پکا۔۔۔تم دوسری شادی نہیں کرو گے؟‘‘اس نے اپنی تشفی کے لیے ایک بار پھر کہا۔
’’جی چندا بیگم۔۔۔ !!بالکل پکا ۔۔۔ کیوں کہ میری کتابوں میں لکھی ہوئی تعبیر کے مطابق،خواب میں شادی دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ، میرا کسی اور سے نکاح نہیں بلکہ ایسی صورت میں موت سے بیاہ ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ سچ۔۔۔ ‘‘ اس نے ایک دم اُچھل کر کہا ۔
مجھے گمان تھاکہ وہ میری موت کا سن کر ’ ’خدا نہ کرے ‘‘ کہے گی،اور میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے چپ کرا دے گی۔مگر ایسا نہ ہوا۔اس نے سوتن سے چھٹکارا پانے کی تعبیر سنتے ہی اپنا غم غلط کر دیا ؛اور مجھے تنہا، موت کے منہ میں جاتا دیکھ کریوں مسکرائی ، جیسے میری موت سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔اِس کے برعکس، اُس نے چارپائی کے سرہانے رکھی ہوئی میری کتاب کوپہلی بار التفات بھری نظروں سے دیکھا،بے کلی سے اُسے اُٹھایا،اور بڑے پیار سے اُس کا بوسہ لیا۔ پھر ہولے ہولے ہنستی اورکندھے مٹکاتی ہوئی ،باہر کی جانب چل پڑی ۔باہرجاتے ہوئے ،وہ جب بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی تو یوں مسکرا دیتی تھی،جیسے وہ میری ’جان کی بازی‘ ہارنے کے باوجود،میرا نیم مردہ وجود جیت کر، بِلا شرکت غیرے اپنے نام کر چکی ہو۔
اور میں۔۔۔میں اپنی موت کی تعبیر لیے،بت کی مانندبیٹھا اسے باہر کی جانب جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔اس کی بے پناہ محبت کو،اور اپنے جواں سال جذبوں کو مرتاہوا دیکھتا رہا ،اسی موت کے زیرِ اثرمیں ،اور میری کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔
یوں دو شادیوں کے بیچ ،بے پناہ محبت اورموت کا قصہ تمام ہوا۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے