عورتوں کے حقوق ، ان کی جدوجہد ، تعلیم اور آزادی کو ہمارے معاشرے کے ساتھ ساتھ کئی اور ممالک میں بھی سلب کیا گیاہے۔انسانوں کے لیے زندگی کہیں بھی ایک جیسی نہیں ہے ۔ ایک طرف بے تحاشا وسائل ہیں تو دوسری طرف اندھیراہے ۔ ان حالات میں عالمی حوالے سے عورتوں کا کردار اور یہ دیکھنا کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں کہاں کھڑی ہیں ۔ نیز یہ کہ ہم سماج اور معاشرے کے سمجھ دار وذمہ دار فرد کے بہ طور اس کے کردار کو کتنا سراہتے ہیں اور اس ضمن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ ہم عورتوں کا عالمی دن کے موقع پر پروگرام منعقد کر کے ان کو سراہتے ہیں لیکن عملی طور پر اسے کتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں بخوبی اپنا کرادار ادا کر سکے ۔ہم لفاظی کی حد تک عورتوں کے حقوق ، آزادی اور کردار کی بات کرتے ہیں۔ ہم نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر قبائلیت کا شکار ہیں۔ سرداری اور نوابی نے دیمک کی طرح ہمیں چاٹا ہے ۔ اور اس سے زیادہ عورتوں کے کردار کو معاشرے میں ملیا میٹ کرڈالا ہے ۔ میں جتنا بڑا دانش ور ہوں اتنا ہی بڑا قبائلیت پسند بن کر عورتوں کی تحریک کو معاشرے کے اندراجاگر کرنے کی بجائے اندھیرے میں دھکیل رہا ہوں۔
عورتوں نے جہاں دنیا بھر میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ، وہیں اس کردار کو ہمارے معاشرے میں مسخ کرنے کی حوصلہ افزائی قبائلی سوچ اور قبائلیت نے خوب خوب کی ہے۔ آج بھی بیٹا پیدا ہوتا ہے تو جشن منایا جاتا ہے اور بیٹی کے پیدا ہونے پر ماتم کیا جاتا ہے۔ صنف کے اس فرق نے عورتوں کی عالمی تحریکوں کو ہمارے ہاں ابھرنے نہیں دیا۔ یہ فرق پیدائش کے وقت ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک طرف گڑیا اور ایک طرف بندوق ۔ ایک کو تعلیم اور تمام وسائل ، دوسرے کو محض بھائی ، شوہر کی خدمت ہی نصیب ہوتی ہے ، جو آگے چل کر معاشرے کی پسماندگی اور عورتوں کے حقوق سلب کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
سماج کے ان مسائل کے گرد ، یہ داستان الم میں کہاں سے شروع کروں جب عورت ایک کلی ، پھول اور نازک اندام سے ہٹ کر سماجی تخلیق کاری میں اپنا حصہ ادا کرنا شروع کرے ۔ آج یہ جنگ وہ لڑرہی ہیں ، ان کو ہی لڑنا چاہیے ، کیوں کہ ظلم ان پر ہورہا ہے ، اس لیے اس ظلم کو ہم سے زیادہ وہی محسوس کرسکتی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ ایسے جعلی دانش وروں ، سیاست دانوں اور تخلیق کاروں کے خلاف گھر سے ہی عَلم بلند کریں۔ عورتوں کا یہ کردار ہی ہمارے معاشرے کے اندرانہیں مزید بلندی تک لے جائے گا۔ یوں ہی شاید کوئی بات بنے ، ورنہ سبین محمود جیسے انسان یوں ہی قتل ہوتے رہیں گے ، اور یوں ہی خواب دیکھتے رہیں گے ، ساحر کے بقول:
آؤ کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات ، آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان ودل کو کچھ ایسے کہ جان ودل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بُن سکیں
ہانی ہو کہ گراں ناز ، ماہ رنگ ہوکہ ماہ گنج ، اسے اپنی لڑائی خود لڑنا ہوگی۔ دشمن کوئی بھی ہو، اسے خود ہی آشکار کرنا ہوگا ، اور آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قبائلی اور روایتی زنجیروں کو توڑ کر اپنی محافظ خود بنیں۔ پوری دنیا میں عورتوں نے جو تحریکیں چلائی ہیں اور جو کردار ادا کیا ہے ، اسی جدو جہد کی بدولت آج عالمی سطح پر ان کا دن منایا جاتا ہے ۔ اسی کردار کے ساتھ ہم قدم ہونے کے لیے ہمیں گودی گوہر ملک بن کر ، سبین محمود بن کر اس جدو جہد کو جِلا بخشنا ہوگی۔
یہ سلسلہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے شروع ہوتا ہے ۔ جب نیویارک کی گارمنٹ فیکٹری میں مزدور عورتوں کی تحریک کو کچلا گیا اور پھر اس جدو جہد کے نتیجے میں1911میں پہلی بار اسی دن عورتوں کا عالمی دن منایا گیا۔ یہیں سے ایک نہ رکنے والی جدو جہد کے سفر کا آغاز ہوا۔ 1920ء میں امریکی عورتوں کوووٹ کا حق ملا ، جو اس سے پہلے انہیں حاصل نہ تھا۔ پھر ایک طویل قطار ہے اُن ناموں کی جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صنف کا نام منوایا ۔ فلسطین کی لیلٰی خالد مزاحمت کا عالمی نشان بنی۔ جینی مارکس اور امرتا پریتم سے لے کر آن سان سوچی ، رابعہ خضداری سے لے کر، سیمک بلوچ، بانڑی بلوچ، ملالہ یوسف زئی، مہلب بلوچ، ہانی بلوچ، فرزانہ مجید،شازیہ لانگو، نورین لہڑی ،عابدہ رحمن ،نوربانو، امبر ین مینگل ، نوشین قمبرانی اور افشین قمبرانی تک ایک طویل کہکشاں ہے ، جن کا کردار اس جدو جہد میں قابلِ تحسین ہے۔ ان کا یہ کردار ثابت کرتا ہے کہ ان کی زبانیں گنگ نہیں ، وہ خاموش نہیں، اور مسلسل جدو جہد میں ہیں۔ان کا یہ عمل اس بات کا اعلان کر رہا ہے ،
زباں پہ مہر لگانا تو کوئی بات نہیں
بدل سکوتوبدل دو میرے خیالوں کو
عورتوں کے حقوق اُن کی جدو جہد اُن کا کردار ، کومزید اجاگرکرنے اور اس جدوجہد کو مل کر مزید فعال بنایا جاسکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین تیسرے درجے کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ تعلیمی اداروں کی کمی ، شرائع خواندگی میں کمی، خواتیں کے لیے تعلیمی اداروں کا فقدان سے لیکر صحت تک۔۔ کے لاوازمات موثر طریقے سے موجود نہیں ہیں۔
زچکی کے دوراں مائیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ، زندگی کی بازی کو مارجاتی ہیں حالا نکہ انہیں بچایا جاسکتا ہے نیوٹریشن کی کمی کے بحث مائیں کم وزن اور وقت سے پہلے بچوں کی پیدائش ہمارے معاشرے میں صحت مند بچوں کے بجائے معزور جنم لیتے ہیں، جو معاشرے اور اُس خاندان کے لیے کسی المیہ دکھ اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں ، صحت مند مائیں صحت مند انسان کی تشکیل کا باعث بنتی ہیں او رصحت مند انسانو ں سے ہی معاشرہ صحت مند ہوتا ہے ، لیکن ہمارا معاشرے خود ہی معذور ومفلوج ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے