اتنی شدت تھی کچھ وعیدوں کی
قبر کھولی گئی شہیدوں کی
آستاں زاد آستاں تک ہیں
یہ وراثت ہے زر خریدوں کی
قفل ہاتھوں میں آ گئے سارے
جب ضرورت پڑی کلیدوں کی
کس بنا پر سوال کیجیے دل…
دھجیاں اڑ چکیں رسیدوں کی
شور اندر کا تھم سکے شاید
چپ نہ ٹوٹے گی خود گزیدوں کی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے