انسانوں کادنیا میں آنا اورجانا جاری رہے گا۔ اس کائنات میں چشم فلک نے کچھ ایسی ہستیوں کانظارہ بھی کیا ہے ۔ جن کی پوری زندگی علم وادب کی بے لوث خدمت میں گزری ہے ۔ ایسی شخصیات کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے ۔ ان ہی نامور ہستیوں میں ایک نابغۂ روزگار ہستی ملامحمد حسن براہوئی کی ہے ، جو ریاست قلات کے دور حکومت کے عروج وزوال کی ایک ممتاز شخصیت ، ایک مدبر اور ایک لائق وفائق منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے تمام ریاستی امور کی انجام دہی میں یکتا تھے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک نامور عالم ، مفکر اور قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ جو بیک وقت چار زبانون ، براہوئی ، بلوچی ، اردو اور فارسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہوئے اپنے فکر وفن کے چراغ روشن کیے ہوئے تھے ۔
ملا محمد حسن کاتعلق بلوچوں کے نامور قبیلہ بنگلزئی کے بڑے طائفے ، بدوزئی سے ہے ۔اس کے جد امجد ، علی خان ، خان اعظم میر نصیرخان کے دربار میں ایک اہم عہدے پر متعین تھے ۔
ملا محمد حسن بھی خاندانی طو رپر خوانین قلات کے د ربار سے وابستہ ہونے کے سبب خوانین قلات کے ساتھ انتہائی مخلص اور وفادار رہے ۔ اور یوں اسے والیان ریاست کا قرب حاصل رہا ۔ ملا محمد حسن پروقاراور ہمہ جہت شخصیت کے حامل ایک معاملہ فہم دور اندیش اور قبائلی روایات واقدار کاپاسدار اور ریاستی انتظامیہ امور کا کماحقہ ، ادراک اورغیر معمولی مہارت رکھتے تھے ۔ جس نے امور مملکت چلانے میں خان مہراب خان کے دست راست کی صورت میں کام کیا ۔خان مہراب خان کیخلاف ا فغان نژاد درباریوں کی سازشوں کی بیخ کنی کرتے رہے ۔ اور انہیں ناکام بناتے رہے ۔ اسی زمانے میں والی افغانستان اوربرطانیہ کے فارورڈ پالیسی سازوں کیساتھ مذاکرات اور خط وکتابت جاری رکھا اور بلوچی قومی تحریک کی بنیاد اور ایک خودمختار بلوچستان کی سوچ کو لیکرآگے بڑھتے گئے ۔
اس طرح وہ اپنی ہمت ، فہم اور فراست سیاسی شعور اور تدبر کی بے پناہ انتظامی صلاحیتیوں کی بدولت ایک نامور شخصیت بنا اورخان میر مہراب خان کے وزیر تعینات ہوکر ایک بلند اور ممتاز مقام حاصل کیا اور یوں اس کی قسمت کاستارہ چمکنے لگا اور ایک لائق وفائق منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے تمام ریاستی امور کی انجام دہی کے لئے پر خلوص اور جان فشان انداز میں مستعدی اور جوان مردی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے ۔
ملا محمد حسن حُسن اخلاق اور معاملہ فہمی کے سبب قلات کے دو مقتدرسرداران قبائل کی نظر میں معزز ومحترم گردانے گئے ۔ اور حسب مراتب انہوں نے چیف آف سراوان ملا محمد رئیسانی اور چیف آف جھلاوان سردار تاج محمد زہری کو داماد بنا کرمزید طاقت حاصل کی ۔
اس طرح ریاست کے دونوں قبائلی رہنماؤں کی رشتہ سے انہیں ریاست قلات کے بڑے سرداروں کی قرابت اور حمایت حاصل ہوئی ۔
یار وفادار کالقب:۔
خان مہراب خان کی پرخلوص خدمات او ربااعتبار منتظم ، غیر معمولی مہارتوں اور قابل رشک صلاحتیوں کے سبب میر نصیر خان دوم نے ملا محمد حسن کو’’ یار وفادار ‘‘، کے لقب سے نوازا اور اسے اس کے جد امجد آغا علی اور اس کے والد میر عبدالرحمن کی طرح کچھی کی نائبی (انتظام) پر مامور کیا اور باہمی اعتماد کو پروان چڑھانے اور دوستی کی رشتوں کو مکمل طورپر استوار کرنے کیلئے ۱۵ ذوالحج ۱۲۵۹ ھجری کو خان اورملا محمد حسن کے مابین عہدنامہ کی صورت میں یہ تحریر ہوا ۔
’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ این عہد نامہ است فی مابین بند گان عالیجاہ رفیع پائیگاہ عمدۃ العقیدہ اخلاص کیش ، بے ریا لائق الاعتبار ، یار وفادار ، ملا محمد حسن نائب صاحب اختیار ، کچھی و کوہستانی ، سوگند نمودہ ام بحرم النبی الکریم ؐ ومیثاق کردہ ام بفرت قرآن مجید وفرقان حمید بدین عنوان بندگان عالیجاہ موصوف را، بمراتب ومناسب آبائی واجدائی ، خودش وبرحال فرمود ، نائبی المال بھاگ ، ناڑی حصہ سرکار نائبی وٹوپہ مرحوم نائب ملا عبدالرحمن والد ضابطہ محال دادہ ومحال لہڑی حصہ سرکاری ضابطہ وٹوپہ نائب مرحوم مضر اللہ وغیر الوفات راہداری و رسومات کارکنان وانعام خواران وانعام شہر ، ابراہیم ابڑہ وسائر انعامات ومال کچھی بقرار یکہ میر آغا عالی ونائب ملا عبدالرحمن شدہ آمدہ ہنوز زیادہ ازان جال وہنگام اخصار حمیع سرکردہ گان بلوچ چنان از طرف سرداران بعداز مقام سردار رئیسانی وشاہوانی ، از طرف جھالاوان بعد ا زسردار زہری ومینگل جائے معین است۔۔۔۔۔۔!

لائق تحسین علمی وادبی خدمات:
انہوں نے بلندی کردار اور اصلاح معاشرہ کے بنیاد پر اپنی شاعری میں ایسے مضامین لائے جوکہ اعلیٰ پائے کے فلسفی دماغی کاوشوں کانتیجہ ہیں ۔ فلسفہ خودی کے بارے میں خوبصورت پیرائے اور طرز سخن پر مبنی حسن بیان ان جیسے شعرائے کرام کاخاص وکمال ہوسکتا ہے ملاحظہ ہو ۔
خودی خود ہم گم کردہ نمائی کن
تو خود نمائی خود گم کن ، وفد ائی کن
بہ بین تو منصب ان زاہدرہائی
را گزار وسوسہ نفس وبادشائی کن
بہ پائے دارتنت رامیاں نارفگن
بہ سوز خاک خود ، اکیسر کیمیائی کن
ملا محمدحسن،حسنؔ تخلص اختیار کیے ہوئے تھے، اعلیٰ درجے کاذو ق شعرو ادب رکھتے تھے۔ملا محمد حسن فن شاعری پر عبوررکھتے تھے ۔ غزلیں ۔ نظمیں، رباعیاں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ شعری ہنر مندی سے بہرہ ور تھے ۔ لیکن فنی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں روح شاعری ، جلوہ گر ہے ۔
بے شمار انتظامی مصروفیات کے باوجود ملا محمد حسن نے شعر وسخن گوئی کی حتی الوسع خدمت کی ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کی استعداد بہت وسیع ہے۔ ملا محمد حسن کی ماں بولی برہوائی تھی لیکن ان کویہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے فارسی ، اردو ، بلوچی اور براہوئی شاعری کے ذریعے زبان وادب کے طالب علموں کے لئے گراں قدر علمی سرمایہ چھوڑا ۔ ملا محمد حسن کی ان چا روں زبانوں میں کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ قاری ان کی خداداد صلاحیتوں کامعترف ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ علمی اور ادبی دنیا ان پر جتنا ناز کرے کم ہے ۔
اردو دیوان:
ریاست قلات کی سرکاری ،علمی وادبی زبان فارسی تھی اور مقامی زبانوں یعنی بلوچی اوربراہوئی میں پڑھنے لکھنے کی کوئی روایت موجود نہ تھی اور اس زمانے میں درس وتدریس کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے ۔لیکن ملا محمد حسن اپنی فطری اعلیٰ ذہانت ، محنت اور علمی صلاحیتوں کی بدولت عربی اور فارسی کے علاوہ اردو بولنے ،پڑھنے ،لکھنے اور شاعری پر کماحقہ قدرت رکھتے تھے ۔اردو شاعری میں ملا محمد حسن میں جو صلاحیتیں تھیں اور جو علم انہوں نے حاصل کیاتھا وہ ان سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا ۔ہمیں ملا محمد حسن سے قبل بلوچستان میں کسی اوراردو شاعر کا ثبوت نہیں ملتا اور یوں بلوچستان میں اردو کے پہلے شاعر ہونے کا شرف انہیں حاصل ہوا ۔
ملا محمد حسن کی ا ردو زبان میں تقریباً چھ سو اشعار پرمبنی ایک کلیات موجود ہے جو آج سے 169 سال پہلے 1847 ء میں مرتب ہوا۔ جسے وہ اپنی زندگی میں بسیار خواہش کے باوجود شائع نہ کرسکے ۔ جو پہلی بار1976 میں چھپی اور دوبارہ 1997 ء میں شائع کی گئی۔یہ شعری مجموعہ ایک باصلاحیت اور خوبصورت شاعر کا ایک شاہکار ہے۔
اردو زبان کالہجہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہندی ہے ۔اور ملا محمد حسن اپنی اشعار میں ہندی لہجہ کو استعمال کرتے ہیں۔
انسانی فطرت حسن پرست ہے ۔ ملا محمد حسن کے تصور حسن میں محبوب کا جمال بے مثال ہے ، اداؤں میں بے مثل ، خوبصورتی میںیکتا ولا جواب ہے ، ملا محمد حسن اپنی محبوبہ کے ناز وادا پر فریفتہ ہے ۔
ملاحظہ ہوں ملا محمد حسن کی ا ردو کی ایک غزل کے چند اشعار :
زلف کو پیچ وتاب میں دیکھا
اپنا دل ا ضطراب میں دیکھا
رنگ وبو زلف کاتراجاناں
نافہ مشک ناب میں دیکھا
تیرے چوں لول لب کی شیرینی
شکر وشہد ناب میں دیکھا
خون چکانی چشم سیں بہ چمن
بلبل دل کباب میں دیکھا
یار تیرے دولب کی لذت میں
لب جام شراب میں دیکھا
تیری مژگاں کے تیر کی جلدی
یہ خدنگ تیر ا حسن شہاب میں دیکھا
حسن تیرا حسنؔ نے دیکھا کہاں
ایسا حسن آفتاب میں دیکھا

ملا محمد حسن شناسی
ملا محمد حسن ایک صاحب علم ، پرعزم ، متحرک اور فہم وادراک کی حامل ایک فعال شخصیت تھے ۔ ان ہی خوبیوں کی بدولت وہ خوانین قلات کے منظور نظر ہوئے اور ان کا قرب حاصل کرکے ریاست کے وزیراعظم کے اہم اور اعلیٰ منصب پر متعین ہوئے ۔
ملا محمد حسن شناسی کے سلسلے میں دانشوروں نے اپنے خیالات کااظہار کیا ہے جن میں نامور مورخ میر گل خان نصیر ، ملک محمد سعید دہوار، پروفیسر انعام الحق کوثر ، لالہ ہتورام ، مولانا نور احمد فریدی ، میر رحیم داد مولائی شیدائی ، علامہ عبدالکریم تراب لاڑکانوی، ڈاکٹر پروفیسر آغا ناصر ، نامور صحافی مجید اصغر قابل ذکر ہیں ۔
میر گل خان نصیر ، ملا محمد حسن کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ملا محمد حسن فارسی اور بلوچی کااچھا شاعر تھا ۔ تاریخ خوانین قلات116
ڈاکٹر انعام الحق کوثر
ملا محمد حسن بلوچستان میں اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ۔ انہوں نے اپنا تعارف بحیثیت ایک علاقائی شاعر نہیں بلکہ وہ قومی اور ملی سطح پر اپنے آپ کو تسلیم کرانے میں کامگار ہوئے ہیں ۔
بلوچستان کے نامور مورخ اور بے باک سیاستدان ملک محمد سعید دہوار ، ملا محمد حسن کی شخصیت اور شاعرانہ عظمت کو یوں بے نقاب کرتے ہیں :’’ ملا محمد حسن ابن عبدالرحمن بلوچستان کی ایک معروف شخصیت ہو گزرا ہے ۔ فصاحت اوربلاغت اور فن شعر سخن میں کمال رکھتے ہیں ۔ شاعری میں بلوچستان میں شاید ہی ان کے پائے کا کوئی شاعر پیدا ہوا ہو : جہاں تک ملا محمد حسن کی شاعرانہ صلاحیت کا تعلق ہے ۔ بلامبالغہ ادبیات اور عالمانہ کردار کے بل بوتے پر ان کی شخصیت ایک درخشندہ ستارے کے مانند ہے ۔ اور یہ بات بڑی تعجب خیز ہے کہ انتظامی مصروفیات کے باوجود ایک پرآشوب دور میں انہوں نے شعر وسخن کاایک بہت بڑا گنج گراں مایہ تخلیق کیا ‘‘
تاریخ بلوچستان ۔ ملک محمد سعید ص730
پاکستان کے باصلاحیت صحافی اورروزنامہ جنگ کے ایڈیٹرمحترم مجید اصغر ، ملا محمد حسن براہوئی کی شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ بلوچستان میں ملا محمد حسن براہوئی کو اردو شاعری میں وہ مقام حاصل ہے جو انگریز ی میں ہومر کو ، یاہندوستان میں ولی دکنی کو ‘‘۔
اردو شاعری کاپہلا سوسالہ دور15
آغا محمد ناصر اردو ادبی زندگی کانہایت خوش سلیقگی اور محبت سے جائزہ لیتے ہوئے اور ملا محمد حسن سے اپنے اس تذکرے کاآغاز کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
’’ بلوچستان میں نہ صرف ار دو شاعر ی بلکہ اردو زبان کے حوالے سے اولیت کاشرف ملا محمد حسن کو حاصل ہے اور بلوچستان میں اردو شاعری کاپہلا نمونہ آپ کے کلام کے توسط سے ملتا ہے ۔ وہ اپنا اردو دیوان1842 ء میں مرتب کرچکے تھے ۔ اردو کاوہ پودا جو ملا محمد حسن کے توسط سے آج سے دو سوسال پہلے اس گلزمین میں لگایا گیا تھا ۔ آج ثمردارد رخت کی صورت اختیار کرچکا ہے ‘‘38
ملا محمد حسن کی ایک اورغزل کے چند اشعار:
شیر ین ترے دو لب کے برابر شکر نہیں
مکھ کاترے مساوی یہ شمن وقمر نہیں
مشاط جو کیا تری زلفوں کو تار تار
ہم رنگ بوئے مو ترامنتک ترنہیں
پردہ اٹھایا باد سحر تیرے مکھ سے آج
خوشبو اسی سحر میں پری رو سحر ہیں
پر ہے پیالہ جس کو تم میں اے صنم
اس بے خبرکوں تابہ ابد کُج خبر نہیں
گھنڈ کھول کر چمن میں چلا جس دم اوپری
بلبل کہا کہ باغ میں ایسا شجر نہیں
جب عاشق حزیں کو چلادی حدنگ ناز
ناوک کو اس کاغر تن وجان سپر نہیں
ناصح کہن لگا کر کہ حسن ترک عشق کر
اس کو کہا حسنؔ ، مجھے کار دگر نہیں
کلیات محمد حسن صفحہ46 مرتبہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر

ملا حسن کی فارسی شاعری:
اس دور میں ریاست قلات کی دفتری زبان فارسی تھی اور تمام سرکاری اور نجی خط وخطابت فارسی میں ہوتی تھی ۔ فارسی کی تعلیم مساجد اور ان کے حجروں میں قائم دینی مدارس سے حاصل کی جاتی تھی ۔ملا محمد حسن نے بھی ان ہی مدارس سے فارسی کی تعلیم حاصل کی اورفہم وادراک کا مالک اپنی خداد اد صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر ایک اعلیٰ سخنور بنا اور یوں وہ کئی کتابوں کے مصنف ہوئے ۔
ملامحمد حسن نے فارسی میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب اشعار کہے اور اپنی زندگی میں سنہری حاشیے کے ساتھ کتابت کرائی ۔ جس سے اس کی فا رسی اور علم دوستی اور اعلیٰ ذوق کااندازہ ہوتا ہے ۔

دیوان ملا محمد حسن جلد اول :
ملا محمد حسن کی فارسی کلیات کی پہلی جلد تین ہزار پانچ سو اکتالیس سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ جو 1846 میں مکمل ہوئی اس کامسودہ اختر علی صاحب کے پاس موجود ہے ۔
اس جلد کی ایک غزل نذر قارئین ہے ۔

بیا اے ساقی مہ روئے من در جمع محفلہا
کہ دارند عاشقانت صدر ہزاران داغ برد لہا
بہ شوقت جان خود دادن نہ کار ہر کسے باشد
وصالت کی میسری شود برجان کاہلہا
مکن قتل من اے مہ روپشیمان مے شو ی آخر
زخون ناحق حلا ج نادم گشتہ قاتلہا
دلم روشن زنور معرفت گردان کہ تابینم
چنان کہ موسیٰ عمران بطورت دید مثلہا
مرابر عشق خود توفیق دہ رہم بنما
خدا وند ا نگہدارم زراہ ورسم غافلہا
حسن بربلبل شیراز بین تا اوچہ دُرسفتہ
الایہ ایہا الساقی ادر کاساونا لہا

دیوان ملا محمد حسن جلد دوم
یہ دیوان پانچ ہزار سے زائد فارسی اشعار پر محیط ہے اس کی کتابت قاضی محمد عثمان نے کی اور 1853 میں بستی کاظم شاہ میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
اس دیوان کے چند غزلیہ اشعاریوں ہیں ۔
مرا باعشق خوبان شد سرو کار
عجب کاری ، عجب کاری ، عجب کار
شود در کوچہ جانان قدم زن
خبردار ی، خبرداری، خبردار
بہ بندد تار زلفش رابگر دن

سزاواری ،سزاواری ،سزوار
بلندی یابدآں سرکز برایش
سرداری ، سرداری ، سردار
کمان عشق راآخری کندکش
کمانداری ، کمانداری ، کماندار
بچشم دشمنا نش از کف من
رسدخاری ، رسد خاری ، رسد خار
بخواہد خدا ہر لحظ بنگر
حسن یاری ، حسن یار ، حسن یار

ایک اور غزل کے چند اشعار:
گفتم کہ لبت چست پری گفتہ کہ شکر
گفتم کہ رخت ، گفت رخم لالہ احمر
گفتم خم ابروی تو ، گفتا کہ کمانی
گفتم صفت مژگان تو گفتا سرنشر
گفتم بہ کف دیگر تو،
گفت کہ ساغر
دیوان سوم:
ملامحمد حسن کے اس فارسی دیوان کے ابتدائی اور آخری اوراق ضائع ہوگئے ہیں ۔ اس لئے غیر میسر صفحات کے سبب اس کے دیباچے اور کاتب کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہوسکے ۔ کتاب میں شامل چند اشعار نذر قارئین ہیں :
پر دہ حائل شد میان ماویار نازنین
درپس آں پردہ اخفا نمی دانم کہ چست
اے حسنؔ درمسجد و میخانہا کُن جستجو
ہرچہ باشی باش لاکن طالب دیدار باش
سربر افتاد ند عشاق حزیں برشمع تو
تابکہ سوزی زبے رحمی پر پرور نہ تو
دیوان چہارم:
ملا محمد حسن کی دیوان چہارم فارسی سات ہزار سے زائد اشعار پرمشتمل ہے۔ جو فارسی کے علمی ذخیرے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔
ملاحظہ ہو دیوان چہارم کی ایک غزل کے چند اشعار جس میں لفظوں کے تکرار سے ترنم کی کیفیت پید اہوگئی ہے ۔
جفا ہرگز مکن برمن تو ای یارجفا کار
وفادارم ، وفادارم ، وفادارم وفا دار
دلم راگیر در دستت تو ای دلبرکہ از دستت
دل آزارم، دل آزارم، دل آزارم، دل آزار
نفان د ارم ، نفاں دارم ،نفاں دارم ،نفاں دار
بہای بوسہ لعل لبت گرجان بود جانان
خریدارم ، خریدارم ، خریدارم ، خریدار
حسن خود از لب خوبان شکر نوشیدہ می گوید
شکر بارم ،شکر بارم ،شکر بارم ،شکر بار
دیوان پنجم ملا محمد حسن
یہ دیوان دو حصوں پر مشتمل ہے حصہ اول : یہ حصہ دیوان پنجم جو فارسی میں ہے 41 اوراق اور82صفحات پر محیط ہے جس کا عنوان ’’ مسدسات ملامحمد حسن ‘‘ ہے
مسدسات کی تعداد 234ہے ۔پہلی مسدس یہ ہے ۔
آنخدائی کوست اللہ الصمد
نیتش ہمتا بود ذاتش احد
نام اودر زبان مابود
در صفاتش عقل ما گو یا بود
حمد بے حد وثنائی بے عدد
مر قدلم لایزال را سزد
آخری مسدس یوں ہے
کن حسن ورد زبانت صبح شام
از زبان آن امیر نیک نام
این سخن راگو ی ہر خاص وعام
تاکہ ہستی زندہ میگو این مدام
بروی وانصار واعواانش تمام
رحمت حق بادتا یوم القیام
حصہ دوم : دیوان کا یہ حصہ اردو شاعری پرمبنی ہے جو 31 اوراق اور62 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بعض عنوانات اور مقطع سرخ روشنائی سے تحریر کیے گئے ہیں ۔ دیوان پنجم کے دونوں حصوں کاکاتب ایک ہی ہے جو اپنے متعلق لکھتا ہے ۔
’’ازید ا حقر عباد اللہ الصمد بندہ گل محمد ساکن بلدہ طیبہ تاریخ پانزدہم شہر رجب المرجب ۱۲۶۷ ھجری صانہم اللہ عن البلیہ صورت تحریر یافت ‘‘
چند اشعار پیش خدمت ہیں :
کف مشاط تری زلف کو ں چوشانہ کیا
شانہ تیز سے ویرانی صد خانہ کیا
شام جس جمع میں وہ شمع شبستان آیا
حمع کوں جملہ اُسیس کاپروانہ کیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے