(1912 — 15 April 1988)

’’شاعروں اور ادیبوں نے قدیم زمانوں سے انسانی روح کو گرفتار کرنے کے لئے ایک جال بچھا رکھا ہے۔ اگر ہم انسانی روح کو اس جال میں پھانس نہ سکیں تو ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کہ یاتو ہمارا جال پھٹا ہوا ہے یا پھر ہم جال بچھانا ہی نہیں جانتے‘‘۔۔۔۔۔۔۔ گورکی
جن لوگوں کو فطر ت نے کچھ بنانا ہوتا ہے ان کے لیے وہ رفیق واتا لیق چُن چُن کے مقر رکر تا ہے ۔ اورعبداللہ جان جمالدینی اور خیر بخش مری کااستاد کون بنتا ہے ؟، علّامہ میر مٹھا خان مری ۔ ہماری دھر تی کا بہت بڑا دانشور ۔ پُر خلوص مٹھا خان، نیک نیت مٹھا خان، محبتِ علم و دانش میں سرشار مٹھا خان۔وہ شاعری بھی کرتا تھا اور ’’خضرؔ ‘‘ تخلص رکھتا تھا۔وہ حافظؔ کا حا فظؔ تھا، اقبالؔ کا ، مستؔ کا ،سعد یؔ کا، فردوسی وخیام کا ، اور غالب وعطار کا حافظ تھا ۔ ایسے مہر بان وشفیق مفکر اورہمہ وقتی استاد کے پاس تو ابلہے کوبھی لے جائیں تووہ بھی ایک ہی ہشت پہر میں گانے لگے :
از ما بجز حکا یتِ مہر ووفامہ پرس
میر مٹھا خان 1912 میں کاہان میں پیدا ہوا جب ابھی ابھی اُس کا قبیلہ نفسک و ساڑتاف کی انگریز دشمن لڑائی سے باہر آیا تھا ۔مگر ہڑب و گمبد کی جنگیں ابھی چھ سال بعد جمنی تھیں۔ مست کے وصال کو چودہ برس گزر چکے تھے۔ سرداری مہر اللہ خان کی تھی۔
میر مٹھا خان کے والد کا نام میر گلو خان تھا۔ وہ مری میں باولہاں زئی شاخ سے تعلق رکھتا تھا جو کہ دستار یعنی سرداری خاندان ہے۔ مقامی مدرسہ میں گلستانِ سعدی اوربوستان پڑھے اور وہیں پہ مولانا روم پڑھا۔ ابتدائی سکولی تعلیم وہیں اپنے کاہان میں حاصل کی۔ بعد میں حالات کی مجبوری کی بنا پر اس نے بقیہ تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی ۔ 1936میں منشی فاضل پشاور یونیورسٹی سے کیا۔
میر مٹھا خان نے 1928 سے لے کر 1936 تک سکول ٹیچری کی ۔ اسی زمانے میں وہ میر عبداللہ جان کا استاد بنا۔ اسی طرح سردار خیر بخش مری اُس کا ذکر اپنے ’’محترم استاد‘‘ کے بطور بہت عزت سے کرتا تھا۔
میرمٹھاخان مری میر عبداللہ جان کو پرائمری میں اردو اورحساب پڑھا تا تھا ۔عبداللہ جان 1934میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ۔صرف مٹھا خان ہی نہیں بلکہ اسی سکول کا ہیڈ ماسٹر بلوچستان کا ایک اور بلند علمی شخصیت جناب محمد ہاشم غلزئی تھا ۔یہیں اسی سکول میں عبداللہ جان اور اس کے عم زادبھائی بلال خان صبح سکول کی اسمبلی میں دعا پڑھتے تھے ۔ اس لئے کہ ان دونوں کی آواز اچھی تھی۔ پھر جب سکول کی سالانہ تقریبات کی تیاریاں شروع ہوئیں تویہ دونوں لڑکے میر مٹھا خان کے حوالے کردیے گئے ۔
مٹھا خان نے علامہ اقبالؔ کی کتاب ’’ زبورِعجم‘‘ انھیں تھما دی اورایک غزل یاد کرنے کوکہا۔وہ غزل یوں ہے :
گشادہ روز خوش وناخوشِ زمانہ گزر
زگلشن وقفس ودام وآشیانہ گزر

گرفتم این کہ غریبی ورہ شناس نہ ای
بکوئے دوست بہ انداز محرمانہ گزر

بہر نفس کہ برآری جہاں دگرگوں کن
دریں رباط کہن صورتِ زمانہ گزر

اگر عنا نِ توجبر یل وحورمی گیر ند
کرشمہ بر دِلشان ریز ودلبرانہ گزر

اس قدر خوبصورت اورسبق آموز باتیں بتانے والے استادہوں توتقریب میں تو دادپانی ہی ہوتی ہے ،اور مستقبل میں بچے کی زندگی‘ سمت یافتہ بن ہی جاتی ہے ۔ میرمٹھاخان نے ایک لحاظ سے عبداللہ جان بشمول اپنے دیگر تمام شاگردوں کی زندگی انسان دوست راہ پہ متعین کردی۔ مٹھا خان زندہ ہوتا تواُس سے پوچھا جاسکتا تھا کہ:
اے بزرگ ،اے حکیم ، ذرا مو لا ناروم کے شعر میں بتا یئے کہ آج آپ کے شاگر دوں کو بلوچستان کا چہرہ قرار دے کر دراصل ہم کس کی تعر یف کر رہے ہیں؟۔ آپ کی ناں!!۔تواورہم تعر یف کریں بھی کس کی ؟۔ کسی ایسے کی جوخان جہانوں کے بیٹوں پر علم کے دروازے بند کردے ؟۔ان پہ خوف وبھو ک ، بے حرمتی ، جبرو استحصال مسلط رکھے ؟، سماج کی ار تقاء پذ یر گردن کو دبوچنے کیلئے منا سب حالات پیدا کرے؟یاکسی ایسے طالع آزماکی جو کہتا ہو: ’’ جمہوریت ، پاکستان کے عوام کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ؟‘‘۔ ان کی تعریف وہی کریں جن کے مقد ر میں یہ منحوس فریضہ لکھاگیاہے ۔ ہم توآپ کے توکلی کی تعر یفیں کریں گے ، ہم توآپ کی تدریس والے پیشے کے دھیمے پن اور استقلال کی تو صیف کر یں گے ، ہم توبلوچستان اور اس کے چہر ے کے گیت گائیں گے ………..ہم تو آپ کے شاگردوں کی تعر یف کریں گے ۔
میرمٹھا خان کاسب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اپنے شاگردوں کی علامہ اقبالؔ سے دوستی کرادی ۔ اقبالؔ جواُس کے سارے شاگردوں کے انسپر یشن کاسر چشمہ ہے ۔ اقبالؔ ہی نے انہیں عوا م دوست بنایا، انہیں تفکر کی عادت بخشی۔
میر مٹھا خان اقبال کا عاشق تھا۔ اس نے بلوچی میں اس پر کتاب لکھی:’’ دُرگالِ اقبال‘‘۔ یہ کتاب اقبال پر کسی بھی زبان میں لکھی گئی اب تک کی بہترین کتابوں میں تصور کی جاتی ہے۔ توکلی مست اور رحم علی مری کو دنیا کے سامنے سب سے پہلے میر مٹھا خان نے روشناس کرایا۔اسی نے پہلے ’’توکلی مست‘‘نامی کتاب بلوچی میں لکھی‘ پھر ’’ سمو بیلی مست‘‘ اردو میں تحریر کی ۔ میر مٹھا خان کی تحریر بہت رواں اور رنگین تھی۔ اس کے علاوہ جام ورک، رحم علی مری، درگال اقبال، بلوچی لغات ، بلوچی اردو ڈکشنری اور سیرت النبیؐ(بلوچی) لکھی۔میر مٹھا خان بلوچی کی دو ڈکشنریوں کا مصنف بھی تھا۔میر صاحب نے ملّا فاضل پر بھی کام کیا۔میر عبداللہ جان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ’’ میر مٹھا خان مری بلوچی کاسب سے بڑے نثر نگار تھا‘‘۔
میر مٹھا خان ایک نہایت شستہ ‘شائستہ اور دل موہ لینے والا شخص تھا۔وہ دھیمی انداز میں گفتگو کرتا تھا‘ خوش گفتار شخص جو فہم و شعور سے مخاطب کو سیراب کرتا جاتا۔ وہ چو نکہ حافظ و رومی و عطار و اقبال و سعدی و خیام و ثنائی وغالب و جام درک کا حافظ تھا لہٰذا شعر کی شعریت اور موسیقی کی موسیقیت کا زبردست جانکار تھا۔ خضرؔ خود بہت اچھا ھارمونیم بجاتاتھا۔
منشی فاضل کی سند کا مالک میر صاحب کچھ زیادہ عرصہ نوشکی میں نہ رہا۔جلد ہی اس کا تبادلہ ہوگیا ۔ اور بعد میں تو اس نے درس و تدریس کا پیشہ ترک ہی کردیا۔
میر صاحب ٹیچری کے بعد منسٹری آف اسٹیبلشمنٹ میں رہا۔(1)۔ مگر اس کے خیالات اس کو زیادہ عرصہ نوکری کرنے نہ دیتے تھے۔ وہ بلوچ قوم کا ہمدرد اور نظریاتی استاد تھا:
رسی داں مزلا مئے نرم گا میں کارواں روشے
سرہ بیث ماہ و استاراں، وث گندی جہاں روشے
منی رنجاں دِہ نز آڑ تو برغاں گوں وثی گنجاں
ہمے سوذا نواں کہ گراں کفی سوذاگراں روشے
تہار شونیں جڑاں سر ساکثہ تیغی جہاں مرشی
اناگاہ درکفی روش اژہمے دنزومژاں روشے
مروشی اے ڈغار تئی ایں پصل تئی ایں کشار تئی ایں
اغر ہیری دمے بیثہ کنوں ما لیکواں روشے
پچے چم حانلانی گلگل انت دانی دِہ گوں انڑساں
مناں یکّو، دل اَیں، پولا گراں ژہ چاکراں روشے
منی ماہیں اُمل ہر ہیل آخر کئے منی پولا
مناں پکیں کہ کئے روشے، خذا سئی ایں کہ تاں روشے
زہیر سا سارغا نیلاں رواں گنداں وثی دوستا
روانو،ہازغیں ٹپاں وثی درماں کناں روشے
منی امبل مروشی چے آ پُڑسئے تہ منی حالا
وثی ڈکھانی سرحالاں کناں گوں تو بیاں روشے
اُس کی بلوچی شاعری کا ایک اور ٹکڑا ملاحظہ ہو:
تہار شومیں جُڑاں سر ساکثہ تیغی جہاں مرشی
اناغہ درکفی روش اژہمے دہندو مژاں روشے
مروشی اے ڈغار تئی ایل پھل تئی ایں کشار تئی ایں
اغر ہیری دمے بیثہ کنوں ما لیکواں روشے(2)
میر مٹھا خان نے ایوب خان کے دور میں سیاسی وجوہ کی بنا پر ریٹائرمنٹ لے لی(2)۔ وہ بہت ہی خوددار ، مرنجان شخص تھا، سیاسی بصیرت سے پُر، مگر بہت ہی سادہ انسان ۔ ہم بچوں کو اتنی عزت دیتا تھا کہ ہم اُس کے سامنے خود کو وی آئی پی سمجھتے تھے ۔ میر مٹھا خان انتہائی ایماندار شخص تھا ۔ بہت ہمدرد ، شفیق اور خاموش طبع انسان۔ وہ داد، توصیف اور مرتبہ کی خواہشات سے بے نیاز تھا۔(3)
میر مٹھا خان سے میری نیاز مندی 1973 سے شروع ہوئی۔ پہلی ملاقات ہی سے میں اُس کی عزت کرنے لگا۔ وہ اپنی عزت خود کرواتا تھا۔ جب آپ کسی جونیئرکو عزت بخشیں گے، اس کی حوصلہ افزائی کریں گے، اس کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھائیں گے ، اُس کے ساتھ اپنائیت سے پیش آئیں گے تو وہ آپ کی عزت کیسے نہیں کرے گا۔ میر صاحب میں یہ ساری خوبیاں موجود تھیں۔ وہ کوئی دکھاوا نہیں کرتا تھا۔ مصنوعیت والی عزت نہیں کرتا تھا بلکہ ایمانداری سے سمجھتا تھا کہ ہر انسان میں ٹیلنٹ اور جوہر موجود ہوتے ہیں۔ اس نے میری بہت ہی حوصلہ افزائی کی۔ میری نوجوانی کے دن تھے اور میں پرجوش انقلابی تھا۔ اس نے کبھی بھی میری حوصلہ شکنی نہ کی ۔ وہ بہت ہی دھیرج کے ساتھ مجھ سے سعدی و حافظ کی باتیں کرتا تھا۔ وہ میری اُن کمیوں کو دور کرتا رہا جو جذباتی انداز میں سوشلزم میں بھرتی ہوکر ایک انسان میں رہ جاتی ہیں۔
بقول صمد خان اچکزئی ’’ میر مٹھا خان مری بہت دانا اور تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ بلوچستان کانفرنس کے ممبر اور ہمارے ساتھی ہیں‘‘ (4)دسمبر1932میں جیکب آباد میں جو آل انڈیا بلوچ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں وہ اس کانفرنس کی ایگزیکٹو بورڈ کا ممبر منتخب ہوا تھا۔
وہ بلوچی اکیڈمی کے بانی ارکان میں سے تھا۔ اور عرصہ دراز تک اس کا اہم عہدیداررہا ۔ وہ دوبار تین تین برس تک کے لئے اس کا جنرل سیکرٹری رہا۔
میر صاحب کے پاس علم کا ایک خزانہ تھا۔ وہ عام سی گفتگو میں بھی بڑے مصنفین کے بے ساختہ انداز میں حوالے دیتاتھا۔ اسے بلوچی، فارسی،انگلش ،اردو، براہوئی اور سندھی پہ عبور حاصل تھا۔ اس نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم دی اور نامور شاگرد پیدا کیے جن میں نواب خیر بخش مری، آزاد جمالدینی،میر عبداللہ جان جمالدینی، میر گل خان نصیر، اور میر نوشیروان مینگل شامل ہیں۔
میر مٹھا خان اپنے رویوں، طرز زندگی اور علمی کا وشوں میں قبائلی نظام سے بہت آگے کے دور کا نمائندہ تھا۔
پتہ نہیں پاکستان کے سرکاری اعزازات کی ناجائز بندربانٹ کے بعد اُن کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ مگر یہ ذکر کر ہی لینا چاہیے کہ میر صاحب کو حسنِ کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ ، آدم جی ایوارڈ ، علامہ اقبال ایوارڈ ‘پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کا بہترین تصنیف کا ایوارڈ ملا ۔ میر مٹھا خان مری 76 برس کی عمر میں 15اپریل1988 میں فوت ہوا۔
میر مٹھا خان مری نے ’’ شاعر اور قوم ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو 3 دسمبر1933 کے ہفت روزہ البلوچ میں چھپی۔ اُس میں میر صاحب نے بتایا کہ شاعر تو عوام کے احساسات اور جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ شاعر وہ ہے جو عوام کو آزادی کی طرف راہنمائی کرسکے:
پھر آگئی فصلِ بہاری پھر طوطیِ دراج و سار
ہیں خوش کہ وہ دن آگئے جن کے لئے تھے بے قرار
گل ہے محو خواب، سرگرم ترنم ہے ہزار
سنبل نے ہے کھولی ہوئی یاں اپنی زلف مشکبار
ہے محوِ آئینہ وہاں سرو، کنار جوئبار
ہنستے ہیں وقت سحر گل بے سبب بے اختیار
رکھتی ہے جنت کا اثر یہ صبح کی بادِ بہار
نرگس کی آنکھیں کیوں نہ ہوں نشہ سے مے کے پُر خمار
ہر شاخ یوں جھومتی جس طرح رند بادہ خوار
لوٹیں نہ کیوں اہل چمن اِس موسمِ گل کی بہار
مل سکتے ہیں کس کو بھلا یہ عیش کے لیل و نہار
طاری گلشن پر ہوا اک عالمِ کیف و خمار
انجمن میں الغرض کوئی نہیں اب ہوشیار
ہاں ایک شبنم ہے جسے معلوم ہے پایانِ کار
مجھے اِسی ٹکڑے سے ملتی جلتی اُس کی شاعری کے چند اور مصرعے ملے ہیں۔
معلوم ہے اسکو کہ ہیں دفن فصل گل کے تین چار
ہونے کو پامال خزاں ہے دو دن میں ہے فصل بہار
اہل چمن کے غم میں کیوں روتی ہے ہر دم سوگوار
غفلت پہ اہل باغ کے روتی ہے شبنم بار بار
رہتا ہے غم میں قوم کے شاعر بھی یونہی سوگوار
کرتی ہے غفلت قوم اگر ہوتا ہے دل اس کا فگار (6)
میرمحمد حسین عنقا نے میر مٹھا خان کے بارے میں یوں کہا تھا:
ہوا کس درجہ خوش پاکر خضر ؔ کو
کوئی گم گشتہ آئے جیسے گھر کو
بلوچستانیو!تم کو مبارک
یہ دیکھ اپنے میں اپنے راہ برکو
استاد مٹھا خان اپنے شاگرد عبداللہ جان کے بارے میں کہتا رہتا تھا:
’’ مجھے عبداللہ جان جیسے شاگر دپرفخرہے ‘‘(15)

حوالہ جات
۔(4) اچکزئی، او دل سمد خان’’ زما ژوند او ژوندون‘‘ جلد نمبر2۔ صفحہ523
۔(1) ماہتاک بلوچی دستمبر1987
۔(2) زینہ کوئٹہ اپریل1988
۔(3) مری، دین محمد۔ میر مٹھا خان مری۔ ماہنامہ بلوچی دنیا ملتان۔ اپریل1989
۔ کوثر‘ انعام الحق۔ بلوچستان میں اردو۔ صفحہ 370.x
مری‘ محمد خان میر مٹھا خان خضر مری نوکیں دور ستمبر93 صفحہ12.z

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے