دو نازک سے کاندھوں پر تم
کِتنا بوجھ اُٹھاتی ہو
گھر کی چھت کا
کمر توڑ مہنگائی، بھاری ٹیکسوں کا
دفتر کی ذمہ داری کا
تیز کسیلی باتوں، میلی نظروں کا
انگ انگ پر چلتی پھرتی آنکھوں کا
گلی میں بیٹھے وزنی فقروں
آنے والی کل کی بوجھل فکروں کا
کتنے بھاری پتھر ہیں!۔

بیتی یادوں
بیتی محبتوں کے وعدوں کا
گھنی گھنیری زلفوں کا!۔
دو ننھے سے کاندھوں پر تم اِتنا بوجھ اُٹھاتی ہو
صنفِ نازک کہلاتی ہو!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے