بیکراں شب مہیب سناٹا
ناچتے ہیں ڈراؤنے سائے
دُور ۔ پربت کے دامنوں کے تلے
کوئی بیٹھا ہے آگ سلگائے
جیسے افسردہ خواب زاروں میں
ایک موہوم حُسن اُبھر آئے
ذہن دول کے سیہ خلاؤں میں
مُسکرا مُسکرا کے چھپ جائے
ایک بچہ بُخار میں مدہوش
’’ماں ۔ ماں‘‘ کہہ کے بُڑ بڑاتا ہے
پاس کے جھونپڑے میں بُوڑھا کساں
حُقہ رہ رہ کے گُڑ گُڑاتا ہے
گاہے گاہے کہیں کوئی کُتا
سکتہِ شب میں بھونک اُٹھتاہے
اک جواں دیکھ کر ڈراؤنا خواب
سوتے سوتے سے چونک اُٹھتا ہے
سوچتا ہوں کہ یہ غریب کساں
جن کے جینے پہ ہے گمانِ حیات
کب یہ سمجھیں گے ، کب یہ جانیں گے
’’اپنے ہاتھوں میں ہے عنانِ حیات‘‘
معلم۔ فروری1951

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے