مری اُجڑی لمبی رات سئیں
کب بدلیں گے حالات سئیں

مرا عشق ہی مذہب مسلک ہے
اور عشق ہے تیری ذات سئیں

مجھے اپنا پتہ درکار ہے
اب بس اتنی سی خیرات سئیں

مرشد مَیں تیری منگتی ہوں
مری تجھ سے ہی بس بات سئیں

میں تیرے در پر حاضر ہوں
لئے آنکھوں میں برسات سئیں

ہر بات تری مَیں مانتی ہوں
لیکن میری اک بات سئیں

مجھے اپنی خطائیں یاد آئیں
مجھے خود سے ہوئی ہے مات سئیں

کبھی گیتوں میں تبدیل تو ہوں
مرے درد بھرے نغمات سئیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے