اپنی سوچ کی غلاظتوں کی
کڑی سے کڑی کو جوڑے
تم جو اک زنجیر میں
مجھ کو مقیدکئے ہوئے ہو
تو یہ سن لو!۔
پدرسری کے سفیرو
میں آزاد تخلیق ہوں
سانس لیتی ہوئی
اک زندہ جان ہوں
تم جو یہ بساط بچھائے ہوئے ہو
رسموں، رواجوں کے
میں یہ سب سمیٹ لوں گی
مجسمِ حیرت ہوں میں
ہر لمحہ، ہر ایک پَل
اے خوش گماں
کہ وقت ابھی وہ نہیں رہا
کہاں تک سوچوں کو قید کروگے!۔
کہ میری ہستی کا ہر ایک خلیہ
میری سانسوں کی ہراک دھمَک
میری روح کا ہر ایک جوڑ
دل کی ہراک دھڑک
یہ گنگنارہے ہیں
میں آزاد ہوں!۔
پدرسری کے سفیرو
تم جو خود اپنی سوچ کے غلام ہو
غلام سوچ کی یہ زنجیریں
مجھے کیا اسیر کریں گی
تم
مجھے کیا غلام کروگے!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے