میں بنک میں لاکر زر روم کی جانب
بہت سی امیرعورتوں کو جاتے ہوئے
دیکھتی رہی ہوں
آج میں نے سوچا
چلو میں بھی ذرا اندر جاکر دیکھوں
اس وقت لا کر زروم میں کوئی بھی نہ تھا
بہت سے صندوق نما بکسے
الماری ہی لگے تھے
جن میں تالے لگے ہوئے تھے
ایک بکسے پہ رنگ اترا ہوا تھا
تالے والی جگہ پر زنگ لگا ہوا تھا
مکڑی کا جالا تو لگتا ہے
کئی بار ، تنا تھا
میں نے سوچا
شاید اس کے لا کرمیں
محبتوں میں لکھے گئے خطوط
محفوظ کیے گئے ہونگے
جن کو پھاڑ دینے کی جرات
نہیں ہوئی ہوگی
یا پھر محبت کی وہ تصویریں
جنہیں سب سے چھپایا ہوگا
یا وہ انگوٹھیاں
جو ہر سالگرہ پہ ملتی تھیں
مگر وہ خود کہاں تھی
زنگ آلود تالے کو
کھولنے کی بھی کبھی کوشش
نہیں کی تھی
ورنہ تالے پہ لگا زنگ
تھوڑا سا تو اتر جاتا
وہ کون تھی ، کسی عمر کی تھی
تعلق کی دہلیز پہ کوئی
تو اس تالے میں چابی گھماتا
ارد گرد کے تالوں پر
شاید مٹھاس بھی لگی تھی
کہ وہاں چیونٹیاں
آجارہی تھیں
کیا یہ خالی لا کر تھا
تو پھر تالا کیوں لگا تھا
مجھے حیران خالی آنکھوں
کھڑی دیکھ کر
اندر آنے والی عورتیں
ہنس رہی تھیں
اور تالے کھول رہی تھیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے