پچاس کی دہائی میں میر عبداللہ جان زندگی کی30بہاریں دیکھ چکے تھے ۔ پاکستان معرضِ وجود میں آچکا تھا۔ اس سے پہلے میر گل خان قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی بنانے کا تجربہ آزما چکے تھے ۔ ریاست قلات کے پاکستان میں ضم ہونے کی بات ایک نا رساکی آہ کی طرح بے گواہ ہورہی تھی ۔ ایسے میں کوئٹہ شہر میں چندایک ’’لٹ‘‘ لوگ سرکاری ملازمتیں چھوڑ کر Hutنماء ایک کمرے کے گھر میں قیام پذیر تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے وقت سے صدیوں آگے کی بات سوچتے تھے ۔ کسی نہ کسی طور فکری بالید گی اور کردار کی پختگی کے سبب اس خطے کے لوگوں کو متاثر کر رہے تھے ۔ سائیں کمال خان اور عبداللہ جان جمالدینی نے نائب تحصیلداری کی سرکاری ملازمت کو ٹھکر ا کر ، شعوری جدوجہدکاراستہ اختیار کیا۔ ایسے میں اس غربت وافلاس زدہ علاقے کے باسی چشمِ حیرت سے ان اڑبھنگ لوگوں کو دیکھتے تھے اور حیران رہ جاتے تھے کہ ’’عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی‘‘۔دراصل پشاور میں اسلامیہ کالج کے زمانے میں ان دونوں دوستوں کو صاحب زادہ ادریس جیسے استاد نصیب ہوئے ۔ اس عظیم استاد نے پہلی بار عبداللہ اور کمال خان کو معاشی او ر معاشرتی نابرابری، بھوک جہالت اور رغلامی کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی ۔
صاحب زادہ ادریس نے معیشت اور انسان کارشتہ، یا پھر شیخ تیمور نے اس عہد کے عظیم دانشور رسل کی کتاب Religion and scienceپڑھائی اور صنوبر حسین کا کا کی تعلیمات سے جاگیرداری کے خلاف نقرتوں نے اپنا اثر دکھایا‘‘۔
عبداللہ جان نے عملی زندگی آغاز بطور نائب تحصیلدار مال کیا اور ضلع نصیر آباد میں تعینات ہوئے ۔بلوچستان واحد نہری علاقے پٹ فیڈر کنال سے سیراب ہونے کے سبب زرخیزی میں مثال نہیں رکھتا۔ ۔۔لیکن وہاں بھی کام کرنے والے کسان اور کاشتکاروں کے لیے صرف بھوک ہی اگتی تھی ، وہی جاگیرداروں کے مدقوق چہرے ، وہی ظلمت اور محکومی۔۔۔۔۔۔یہاں انہوں نے بے ترس جاگیردار اور تباہ حال خلق خدا کو دیکھا جو غلامی سے بھی بدتر زندگی گزار رہی تھی ۔ بلکہ زندگی انہیں گزار رہی تھی ۔ بے چاروں کے مال واسباب میں چند ڈھورڈنگر اور خستہ حال بہن بیٹیاں ہی تو تھیں۔ ۔۔ ووٹ ،حق رائے دہی، عقیدہ وایمان تک سب کچھ جاگیردار کے اختیار میں تھا ۔ سرکاری آفیسر اے ۔ سی ۔ ڈی۔ سی اور تھانیدار وغیرہ بھی اسی آقا کے خدمت گار تھے ۔
عبداللہ جان اس کیفیت او رصورت حال کے بابت لکھتا ہے:
’’یہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جاگیر دار ہماری آنکھوں کے سامنے ، ان کسانوں کو آپس میں لڑاتا تھا ۔ پھروہ دونوں فریقین کو اپنے پالتو تھانیدار سے اس قدر اذیتیں دلاتا کہ وہ جاگیر دار کی خباثتوں کو اپنے لیے رحمت سمجھنے لگتے تھے ۔ یہاں ہر طرح کی سازشیں ، جبر واستبداد،اطاعت وبغاوت غم واندوہ ، غیرت اور سیاہ کاری ، جرگہ ممبری اور نمائندگی کا ووٹ ۔۔ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں مدد گار نہ جماعت۔ بس آدم کی اولاد تھی اور ننگا ظلم ‘‘۔
ماما نے فیوڈل ازم کو قریب سے دیکھا اور ایک مستقل نفرت لیے واپس کوئٹہ آگیا۔ اور ملازمت کو خیرباد کہا۔ لیکن فیوڈل ازم سے عداوت آخری سانسوں تک برقرار رہی ۔
اس نے جب نظریاتی اور علمی جدو جہد آغاز کیا تو سب سے پہلی بات وہ یہی کرتا تھا کہ ایک انسانی ، فلاحی مملکت کے قیام کے لیے لازم ہے کہ فیوڈل ازم کا خاتمہ ہو۔ اسے یقین تھا کہ رجعت پسندی خواہ مذہبی ہویا قبائلی یاقومی ، انسان اور انسانیت کی بدترین دشمن ہے ۔یوسف عزیز مگسی کے بعد ماما پہلے سردارزادے تھے جو سرداری نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کئے ہوئے تھے ۔ اسے یقین تھا کہ ان عفریتوں سے نجات کا واحد راستہ حصول علم میں ہے اور علم بھی سائنسی علم ۔۔ ۔وہ سمجھتے تھے اور یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ تمام سردار، تمام نواب دراصل جاگیرداری نظم کے محافظ ہیں۔۔۔ وہ ایک متبادل پلیٹ فارم بنانے کی خواہش رکھتے تھے ۔ لیکن یہ کام جوئے شیر لانے سے بھی مشکل تھا۔
خواتین کے حقوق کے بارے میں بھی ماما اپنے پیش رولیڈر یوسف عزیز مگسی کی طرح نہایت سنجیدہ تھا ۔ وہ اپنے استاد صاحب زادہ ادریس کا یہ قول ہمیشہ دھراتے تھے کہ اچھے اخلاقی نظام کے لیے عورتوں کا پردہ کرنا ضروری چیز نہیں ہے بلکہ پردہ تو اُلٹا ایک اچھے اخلاقی نظام کے قیام میں ایک رکاوٹ ہے ۔
ماما اور اس کے تمام ساتھی جن میں سندھ کے سوبھوگیان چندانی ، کمال خان شیرانی اور ڈاکٹر خدائیداد جیسے عظیم سپوت شامل تھے ،اس بات پر یقین کامل رکھتے تھے کہ انسانوں میں زبان اور قوم کی بنیاد پر جغرافیہ اور علاقے کو بنیاد بنا کر ، رنگ ونسل کے حوالے دیکر، یا پھر عقائد اور دین کے حوالے سے دور یاں نہیں ہونی چاہییں۔انہیں لسانی بنیادوں پر پشتون ، بلوچ تفرقات پھیلانے والوں سے سخت نفرت تھی۔ اس خطے میں یوں بھی گھر گھر ایک دوسرے کے ساتھ انمٹ رشتوں میں جُڑے ہوئے پشتون اور بلوچ ، جدا کرنے پر بھی جدا نہیں ہوسکتے ۔ لیکن نفرتوں کے سوداگر تو ہر عہد میں سرگرم رہے کہ قبائلیت کی بقاہی Clashمیں ہے۔ ان نفرت کے دیوتاؤں کو پہلے یوسف عزیز مگسی اور شہید صمد خان کی لازوال دوستی نے کاری ضرب لگائی اور پھر ماما عبدللہ جان سائیں کمال خان اور ڈاکٹر خدائیداد کی جدوجہد نے ۔ ۔۔جو سمجھتے تھے کہ ہم سب یکساں طور پر سرکار، سردار اور ملاومیری کے کشتہ ہیں ۔ اس لیے ۔
’’درد یکیں تہ سنگتی بوں‘‘
لٹ خانے میں یک جا ہونے والے یہ حضرات اپنے وقت کے قلندر تھے ۔ ملازمتوں پر سہ حرفی بھیج چکے تھے، معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے فی الحال سٹیشنری کا سہارا لیا۔جہاں زیادہ تر کتابیں اُن کے اپنے نظریات سے متعلق تھیں ۔ ماہوار ایک رسالہ بھی نکالنے لگے ۔۔ اورملک کے باقی ترقی پسند حضرات سے رابطہ بھی رکھتے تھے۔ یہ وہ دانا وبینا حضرات تھے جو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی خبر رکھتے تھے ۔ جب یہاں عام پڑھا لکھا آدمی، روس، کیوبا، کمیوڈیا،ہنگری نکارا گوا، جرمنی اور دیگر ترقی پسند ملکوں کے نام سے واقف نہ تھا۔ یہ لوگ وہاں کے معاشی اور معاشرتی نظام پر نہ صرف دستر س رکھتے تھے بلکہ یورپ میں میگنا کارٹا کے بعد کے حالات کا بیان بھی کرتے رہتے تھے ۔ کہ شمالی یورپ اور USSRمیں لینن اور مارکس کی جدوجہد سے جو فلاحی ریاستیں قائم ہوئی ہیں وہاں انسان کس قدر با توقیر زندگی گزار رہے ہیں۔
یہاں کا دانش ور طبقہ جب فی الحال سٹیشنری میں آکر ان نئے نام کی کتب دیکھتا تو چونک اٹھتا تھا۔ کہ آخریہ لینن کون ہے ، سٹالن کاتعلق کس قبیلے سے ہے ،مارکس کہیں مکران کا تو نہیں وغیرہ ۔ ۔۔اور اینگلز تو ضرور قلات سے ہوگا۔یہاں پہلی بار فیروز الدین منصور کا پاکستان میں قومیتوں کا مسئلہ ، روز نامہ امروز اور سب سے بڑھ کر روشنی کی مینارہ سبط حسن کے ہفت روزہ لیل ونہار باقاعدگی سے دستیاب ہونے لگے ۔یہیں اقبال پس منظر میں چلے گئے اور شاعر انقلاب فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، ساحر لدھیانوی اور ظہیر کاشمیری کی شاعری پر بحثیں اور تشریات ہونے لگیں ۔
1951 – 1952میں ماما اور غلام محمد شاہوانی نے ’’بلوچی زبان وادبئے دیوان‘‘بنا کر گل خان نصیر کا پہلا شعری مجموعہ’’ گل بانگ‘‘ شائع کرایا۔
پھر میر غوث بخش بزنجو جو کمیونسٹ پارٹی میں رہے تھے ، شورش بابو اور دیگر احباب کی صحبت سے ماما کو کمیونسٹ نظریات کے قریب تر کردیا۔وہ اپنے فکری ارتقا کے بارے میں ماما لکھتے ہیں ۔
’’اس زمانے میں دنیا کی مختلف تحقیقی کتب پڑھنے اور سمجھنے کے بعد مجھے یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ عقائد ، زبانیں اور مختلف طبقات کس طرح تشکیل پاتے ہیں ۔ یہی کہ بابل کے اس عظیم معبدکا علم ہوا ۔ جہاں 90%معبد کے آمدن اور اخراجات کے بابت تھے اور 10%دیوتا کے لیے مناجات کے لوح تھے ۔
ان کاتصورِ حیات اس قدر تبدیل ہوا کہ وہ اپنے معاشرے میں غربت کا خاتمہ ، تعلیم وتحقیق کا فروغ اور جاگیرداری اور سرداری نظام کاخاتمہ چاہتے تھے ۔ اور اُن کا یہ رومانس آخری عمر تک ساتھ رہا کہ :
میر وسردار بنت مئے مزدور و شوانک
نئے کھے نیم شفاں لجاں گوبندی رومرکائی ،
دروغیں واژہے لوغا پہ انصافئے
یہاں مئی کے اس پہلے ہفتے میں پیدا ہونے والے سوبھوگیان چندانی کاذکر بھی ضروری ہے جو ماما کے ہم خیال دوست تھے ۔ یہاں تک کہ ماما اُن کے الیکشن مہم کے سلسلے میں مہینہ بھرسندھ میں رہے اور لوگوں کو قائل کرتے رہے ۔
ایک مرحلے پر میر گل خان نصیر سے صرف اس بات پر اختلاف ہوئے کہ میر صاحب قلات کی ریاستی شکل میں ایک فیوڈل بادشاہت khanateکی بحالی کی طرف دار تھے جبکہ ماما اور اس کے رفقا فرسودہ قبائلی نظام سے ناداں تھے اور ایک حقیقی ، خوشحال اور انسان دوست جمہوریت کے حق میں تھے ۔
شاید تمہیں نصیب ہواے کشتگانِ شب
روئے ازل سے صبح کادیدار دیکھنا
صحافت کے میدان میں نوائے بلوچستان ، ہمارا بلوچستان ، دیماروکیں اولس ، آزات صاحب کا بلوچی ، سوویت انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کراچی میں پروف ریڈر۔ 1970-65 تک ’’طلوع ‘‘ جوائنٹ ایڈیٹر رہے ۔
1972میں بلوچی زبان وادب کی خدمت کے لیے یونیورسٹی آف بلوچستان میں استاد اور پھر چیرمین بنے اور 1993تک جب ان پر فالج کا حملہ ہوا وہ اس عہدے پر کام کرتے۔

یونیورسٹی میں خدمات انجام دیتے ہوئے اس نے برطانیہ اٹلی، ناروے، سویڈن ، متحدہ عرب امارات ایران اور افغانستان کے تعلیمی اور تدریسی دور کیے۔۔۔ پانچ زبانوں میں مہارت کے سبب وہ ایک نفرد مقام رکھتے تھے۔ اس نے دیہات کے غریب ، بلوچستان میں سرداری اور قبائلی نظام ،مرگ مینا، لٹ خانہ ،شمع فروزاں ، انقلاب ایران، کردگال نامک نامی کتابیں تحریر وترجمہ کیں۔
جناب جمالدینی صاحب نے اگر چہ کا لونیل عہد میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم بھی اسی عہد میں حاصل کی ۔ لیکن اس نے تحریک آزادی،تقسیم ہند ،قلات پر لشکر کشی ، پہلے وزیراعظم کا سازشوں کے ہاتھوں قتل ، جنرل سکندر مرزا جنرل ایوب خان ، جنرل یحیٰ خان ، جنرل ضیا کی ظلمت اور مشرف کی آمریتوں کو دیکھا۔ وہ ون یونٹ کے جبریہ مسلط کرنے سے بنگلہ دیش کے قیام تک ، سب کچھ دیکھ چکے ۔۔بلوچستان میں جاری تمام تحاریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے ۔ کبھی Hard lineکاساتھ دیا تو کبھی قلم اورقرطاس سے محبت رکھنے والوں کو نوازتے رہے۔ تاہم سنگت کے حصے میں سب سے زیادہ محبتیں آئیں کہ1990کے بعد ان کے وفات ہونے تک وہ سنگت کے سنگتوں کو شفقتیں بانٹتے رہے۔ ماما کو سب سے زیادہ دل گرفتہ اور رنجیدہ 1991میں اس شام دیکھا گیا جب عالمو چوک پر دو سیاسی لسانی جماعتوں کی تصادم کے نتیجے میں معصوم بچے شہید ہوئے اور پھر رات کو ایک دفتر پر حملے میں ۔ ۔۔۔ ایسے میں ماما نے بے ساختہ کہا تھا ۔
اغدچوش مواموت ئے
گروں بیرا تہ بیراں بوں
پھر جب کوئٹہ کے ایک امام باڑہ پر خود کش حملہ ہوا تو ماما کومعصوم بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا گیا۔۔۔اور کہتے تھے کہ ہم اچھے انسان ، امن کے پجاری ناکام ہوئے ہیں۔
ماما کے عہد میں اور کئی دُکھ اور محرومیاں تھیں لیکن آج جن عفریتوں سے عہد نو کا سامنا ہے اس کا تصور تک نہ تھا۔ نہ فروعی اختلافات تھے اور بات بات پر قتل کے فتوے۔ نہ ڈالروں کا جہاد تھا اورنہ تکفیری عفریتیں تھیں، لسانی بنیادوں پر تصادم کا تصور تک محال تھا۔ ۔۔اس وقت کے لوگوں کو شکایت تھی تو متحدہ ہندوستان میں دور دراز علاقوں سے آکر یہاں آباد ہونے والوں سے تھی کہ سرکاری ملازمتوں پر اُن کی حق تلفی ہوجاتی تھی۔
اس نے آج کی عفریت کو شکرہے کہ نہیں دیکھا ۔ نہ صرف بے گناہوں قتل عام اورمستقل گمشدگی؟۔
’’غدار‘‘کا لفظ جس قدر بے محابہ آج استعمال ہورہا ہے اور تباہی پھیلا رہا ہے شکر ہے وہ نیک اور پاکیزہ روح اس اذیت ناک ماحول میں زندہ نہیں جہاں آدھے لوگ کسی نادید وہ قوت کے ہاتھوں غداری کی سزا بھگت رہے ہیں اور نیست بن رہے باقی آدھے اپنوں کے ہاتھوں ۔۔چند ایک پڑھے لکھے سر پھرے جو قلم کی حرمت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں سوال کرنا چاہتے ہیں، خواب دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور پر امن سماج کا ایک عدل پر قائم معاشرے کا ۔۔۔اُن کے بابت بھی اورحمد ندیم قاسمی نے کیا درست فرمایا ہے ۔ یہ نظم ماما اور اس کے رفقا ، سوبھوگیان چندانی، کمال خان شیرانی ،ڈاکٹر خدائیداد اور دیگر احباب کے ارواح کی نذر ۔
زندگی کے جنے درواز ساہیں
مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ،حدِنظر سے آگے کر دیکھنا بھی جرم ہے
سونیا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر خوب بھی جرم ہے
آسماں درآسماں اسرار کی ساری حدوں کو پھاند کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کن جرم کیسے بھی کنا زم ہے
سانس نے کی آزادی تو میہ ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکا رہے
اور اس کچھ اور بھی تذکرہ بھی جرم ہے
اے ضمیر مزاں آئین واحباب
اے خداوندان عقائد
زندگی ئے نام پر بس اک غایت
مجھ کو اِن سارے جرائم کی اجازت چاہیے
وہ جب بھی لسانی بنیادوں میں تفرقے کی بات سنتے یا عقائد اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر انسانی خون کی ارزانی دیکھتے تو پہروں سوگوار رہتے ۔
اعز کس مڑ تو چکے ۔ شذاے بے علاجی آ ۔ ماموگاں نتنفوں سال ئے کے مصداق یہ عظیم دانشور اندر سے دُکھی ہوتے تھے۔
چلو کام آگئی دیوانگی اپنی ۔۔ معذوری اور بیماری آخری 10سالوں میں کسی حد تک رحمت بن گئی ۔ کہ انہیں تکفیری نعرے ، اور خود کش حملوں کا علم نہیں ہوا ۔ اُن کے عہد میں کوئٹہ میں جو مذہبی ہم آہنگی تھی انہوں نے اسے یوں پامال ہوتے نہیں دیکھا ۔ یہ بھی شکر ہے کہ پروفیسر عزیز مینگل کے بقول انہوں نے دائش کی عفریت کو دیکھا۔ وہ بلوچوں سمیت تمام مظلوم انسانوں کا دُکھ رکھتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ تعلیم اور انسانی معاشی معاشرتی ارتقا ئی ان مسائل کا حل ہے۔ انہیں کامل یقین تھا کہ تمام قسم کے Clashاور تصادم کی فضا کوقابو کر کے قابلیت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کی روشنی میں فرمایا کرتے تھے کہ رواجوں پر مبنی اور نفرتوں کے پرچارک عقائد کی جڑیں غربت اور جہالت میں پیوست ہیں۔ معاشرے سے غربت اور جہالت ختم کر کے یورپ کی طرح چرچ کو بے بس کیا جاسکتا ہے۔ وہ حقیقی حمہوری اقدار پر یقین رکھتے تھے اور لسانی ، ہم آہنگی پر کامل یقین تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے