مئی 2017ء

سب کچھ اباؤٹ ٹرن؛ سنگت کا اداریہ۔۔۔ مردان یونیورسٹی میں مشعال کا بہیمانہ قتل ۔۔۔ ریاست کے تمام اداروں کی ناکامی بتائی گئی۔ جہاں کلچر ، سماج، تعلیم، عدلیہ یا سیاست کچھ بھی نہ کر سکی اور ایک انسان ، اس ملک کا شہری جو نہ صرف ایک ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا بلکہ اس کی میت کی بھی بے حرمتی کی گئی لیکن ہم یہ کہیں گے کہ ریاست جو اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے لہٰذا وہ مشعال کے قتل کی بھی ذمہ دار ہے۔ یہی ہے مئی کے شونگال کا موضوع جو سب کچھ قاری پر واضح کر دیتا ہے۔
کتاب پچار میں اس دفعہ کُل پانچ تبصرے تھے ،جن میں چار عابدہ رحمان کے تھے اور ان چار میں سے ایک اپریل کے سنگت پر جب کہ ایک بابا عبداللہ جان کی کتاب ’شمعِ فروزاں ‘ پر تھا۔ باقی دو تبصرے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتابوں میر یوسف عزیز مگسی اور ’ ایک چھوٹی سی کتاب کی دیوانی ،فہمیدہ ریاض‘ پر تھا۔
اس وقت جس تبصرے کا ذکر میں خاص طور سے کرنا ضروری سمجھتی ہوں وہ ہے؛ ’ وحید نور۔۔۔چُپہ نہ باں‘ جو کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی خوب صورت تحریر ہے۔ اتنا حسین تبصرہ کہ قاری کے ساتھ ساتھ خود شاعر پر بھی پوری طرح عیاں ہو گیا کہ کہاں کہاں شاعری کے کون کون سے گوشے مضبوط ہیں اورانھوں نے پورا حق ادا کیا شاعری کی صورت میں اپنے طبقے کا، نیز یہ کہ کہاں کہاں مزید موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی جا سکتی ہے۔ایک مکمل اور مزیدار تبصرہ کہ پڑھ کر بندہ کافی وقت تک ایک سحر میں گرفتار رہتا ہے۔
’ پاکستان کی معاشی ترقی۔۔۔ متبادل لائحہ عمل‘ پروفیسر کرامت علی کا صاحب کا مضمون؛ جس میں بتایا گیا کہ کسی بھی ملک کی خوش حالی کا انحصار خوراک اور پانی پر ہے اور ان دونوں کی حالت اپنے ملک میں دگر گوں ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی تفاوت اور نفرت کی بنیادی جڑ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قومی آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس کی منصفانہ تقسیم، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ، معاشی و سیاسی آزادی ، بنیادی ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور وسائل کو بہتر طورپر استعمال کرنے کو مدِ نظر رکھا جائے اور پانی کے بحران کے خاتمے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ اچھا مضمون تھا۔
روبینہ جمیل صاحبہ کا ’ یومِ مئی۲۰۱۷ء ‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ مزدوروں کے حوالے سے مضمون تھا ۔جس میں مزدوروں کی جدوجہد کی داستان ہے ۔ کتنے مزدور رجسٹرڈ ہیں اور کتنوں کو لیبر قوانین کے تحت سہولیات میسر ہیں ۔ اور یہ کہ مزدور انقلاب کے لیے ایک اٹوٹ انگ ہے ۔ ایک بہت اچھا مضمون رہا روبینہ کا۔
اعظم جان زرکون صاحب نے اپنے مضمون ’ ملازمین کے لیے نئے قانون سازی کی ضرورت‘ میں ملا زمین کی مشکلات کا بہت تفصیل سے بتایا ہے ۔ ایک معلوماتی مضمون تھا۔
’ خزاں میں بہار‘ پروفیسر فیض صاحب کا مضمون جس میں انھوں نے بابا عبداللہ جان کے حوالے سے اپنی یادداشتیں لکھیں ، ان کی شخصیت اور ان سے اپنے تعلق اور محبت کا ذکر کیا ۔ ایک مختصر لیکن محبت بھرا مضمون تھا۔
’ شاہ عبداللطیف ‘ اور ’ ڈاکٹر شاہ محمد مری‘ دو شاہ ۔۔۔ ایک کی شاعری اور دوسرے کی اس شاعری پر شاعرانہ گفتگو؛ دونوں مل جائیں تو ایسی ہی تحریر منظرِ عام پر آئے گی کہ فضا بھی مسحور کُن اور طبیعت بھی شاعرانہ ہو جاتی ہے۔ پتہ نہیں بابا جان، آپ اتنا خوب صورت کیسے لکھ لیتے ہیں ۔ قائرین آپ بس صرف یہ فقرے پڑھیں اور میں کچھ نہیں کہوں گی:’ عوام زبان کو غنی بناتے بناتے رہتے ہیں اور افکار زبان کو بلند معیار اور وسعت عطا کرتے رہتے ہیں‘ یا پھر یہ کہ ’ محبت سسی سے بھنبھور کا دودھ چھڑوا لیتی ہے‘ اور پھر یہ ’کہ، جان چلی جائے بس خون بہا میں نگاہِ دوست میسر ہو‘ ۔ شاہ لطیف نے لوک داستانوں کو جس خوب صورتی سے اپنی شاعری میں جگہ دی، اسی قدر خوب صورتی سے ڈاکٹر صاحب نے انھیں اپنے مضمون میں بیان کیاہے۔
اسی حصے میں بلوچی میں، بلوچی کے نام ور شاعر آزات جمالدینی کے بیٹے عبدالقدوس جمالدینی کا انٹرویو شامل ہے،جو لطیف الملک بادینی نے کیا ہے۔ اس مختصر مکالمے میں آزادت جمالدینی کی نجی گھریلو زندگی کی معلومات ملتی ہیں۔ اچھا معلوماتی مگر تشنہ انٹرویو ہے۔
اب چلتے ہیں ’ قصہ‘ کی جانب؛ پہلا ذکر ہم کرتے ہیں ’ بلا عنوان‘ کا جو آمنہ ابڑو کی بہت اہم موضوع پر سادہ سی کہانی ہے ۔ غیرت کے نام پر قتل، جس میں آئے دن ہزاروں لڑکیاں تہہِ خاک چلی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اس موضوع سے متعلق ڈیٹا بھی انھوں نے بہت اچھی طرح سے کہانی میں سمویا ہے۔
انسان اس زمانے میں ارزاں ہوئے تو ہیں؛ جی ہاں آپ جاوید شیخ کا احسان دانش کا ترجمہ کردہ افسانہ پڑھیں گے توجان پائیں گے ۔ سماج پر ایک گہرا طنز لیے ہوئے افسانہ ’ برساتی رات کا المیہ‘ جہاں ایک کتے کی جان ایک اشرف المخلوقات سے بڑھ کر ہے۔
سمیرا کیانی کا اس دفعہ کا افسانہ کچھ کم زور سا تھا ۔ ’ محبت کا افسانہ‘ پڑھ کر کچھ خاص مزہ نہیں آیا۔ بلا وجہ کہانی کو کھینچا گیا۔
’ وہ آنکھیں‘ محمد جمیل اختر صاحب کا فنی لحاظ سے ایک خوب صورت اور مضبوط افسانہ جس میں قیدی کی آنکھوں کو استعارہ بنا کر دراصل آج کل کے استحصالی اور نا انصاف معاشرے کی گھٹن بتائی گئی۔ مزے دار افسانہ تھا۔
ایک اور بہت اچھے افسانے کا ذکر اگر کیا جائے تو وہ ہے ’ بصارت کی سماعت‘ جسے سیمیں کرن نے تحریر کیا۔فوج، عدالت اور بیورو کریسی جو مل کر ریاست کو تشکیل دیتے ہیں ا ور ان تینوں اداروں کا انصاف ہو،اور ظلم و استحصال سے پاک رویہ ہی ایک صحت مند ریاست کی تشکیل ہے۔ ہر قسم کی نا انصافی، استحصال سے نظریں چرانا ہی کم زور ریاست کی نشانی ہے۔ کہانی کا تانابانا اسی حقیقت کے گرد بُنا گیا ہے۔ کرن کا حقیقت سے بھرا افسانہ۔
قصے میں ایک براہوی قصہ بھی شامل ہے۔ یہ براہوی خلقی ادب یعنی لوک ادب سے لیا گیا ہے۔ غمخوار حیات نے اسے لوک ادب سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ بچوں کے لیے لکھے جانے والے ادب کی طرح ہلکے پھلکے لطیف انداز میں لکھا گیا سبق آموز مختصر قصہ۔ مجھے لگتا ہے لوک ادب کا تو باقاعدہ خانہ ہونا چاہیے سنگت میں۔ کتنے آسان ، دلچسپ ، سبق آموزاور حکمت سے بھرے ہوتے ہیںیہ قصے۔
اور اب ہو جائے شاعری کا تڑکا۔۔۔
کشور ناہید صاحبہ کی نظم ’نامعلوم یادیں‘ تو مزیدار تھی ہی لیکن ڈاکٹر منیر صاحب کا قطعہ بھی کہاں کم تھا جناب ۔۔۔
تیری سچائی کی دیتی تھی گواہی ہر دم
میری انگشتِ شہادت، جو شکستہ ہوئی ہے
اور پھر ہم ’کل‘ کی بات کیوں نا کریں جی! حبیب حسین حبیب کی نظم۔
میں دوڑا تھا
کہ سورج کو بچاؤں گا
اگر یہ ڈوب جائے گا
تو میرے کل کا کیا ہوگا!
یوں تو ہم ثروت زہرا کی ’ آج چھٹی ہے‘ کا بھی ذکر کر لیتے ہیں ؛
دیکھو زندگی کا یہ ڈیکورم چھٹی کے دن
مزید منظم ہو گیا ہے نا!
تو پھر کیوں نہ ہم ڈاکٹر منیر صاحب کاایک بار پھر ذکر کر لیں کہ انھوں نے فہمیدہ ریاض صاحبہ کی خوبصورت نظم کا خوبصورت براہوی ترجمہ کیا۔
خواجہ نا پر ذ با دا ماڑی ٹی
زند ہوغانے دادِترتے
دا لاش کہ داخہ در سڑانے
نے اودے ڈکہ!
نورمحمد شیخ صاحب نے ’شفیق شخصیت کی یاد ‘ لکھ کر بابا عبداللہ جان کی یاد ایک بار پھر تازہ کر دی لیکن نور صاحب نے تو خود ہی کہہ دیا کہ؛
قانونِ ازلی و ابدی سے
کسی کو مفر نہیں
جہاں میں جو آیا ہے
اسے آخر کار بچھڑنا ہے!
ثبینہ رفعت صاحبہ کی شاعری کا ذکر تو جناب ہم آخر میں ہی کریں گے کہ میٹھا تو ہمیشہ آخر میں ہی کھایا جاتا ہے؛
تہی دامن
اب دروازہ کھلا ہی رکھنا
پہرے دار کو رخصت کر دو
کھونے کو اس گھر میں اب بھی
کچھ
جو ہو تو
مجھ سے کہنا!
واہ جی زبردست تو ہے ہی لیکن پڑھ کر ایک دکھ سا بھی اپنے اندر اپنے آس پاس بھر جاتا ہے۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین، نور محمد شیخ، وحید زہیر، رمشا اشرف اور کاوش عباسی کی شاعری بھی اچھی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے