تیرے چہرے کے کِھلے رنگ میں گھل جانے کو
شال کی مست و خنک باز ہوائیں ترسیں
مہرباں قامتِ زیباتیرے سائے کے لیے
میرے کوہساروں کی مغموم پناہیں ترسیں
تیری آہٹ پہ مٹے چلتنِ جاں تھم تھم کے
تجھ سے ملنے کو مہردار کی بانہیں ترسیں
اے مِرے حاصلِ جوہر تیری خوشبو کے لیے
بوئے سنجدکی طلسماتی فضائیں ترسیں
تیری آغوشِ ہمیشہ میں سکوں آئے مجھے
ساتھ چلنے کو ترے عمر کی راہیں ترسیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے