چاند کی کرنوں سے نہلائی گئی ہوں
رات کو میں خواب میں کس سے ملی ہوں
روشنی کی تتلیاں اڑتی ہیں ہر سو
ایک ایسا باغ ہے جس کی کلی ہوں
جس جہاں میں پھول اگتے ہیں فلک پر
اس جہاں کی سیر میں کرتی رہی ہوں
اپنے ہاتھوں میں پہن کے رنگ سارے
اپنی پیشانی پہ سورج ٹانکتی ہوں
تو کہیں کہرے میں مجھ سے کھو گیا ہے
اور میں روتے روتے اندھی ہو گئی ہوں
آسماں پر بننے لگتی ہیں لکیریں
جب ہتھیلی پر میں انگلی پھیرتی ہوں
ہاں جو مریم نے مجھے تحفے میں دی تھی
میں اسی چادر سے خود کو ڈھانپتی ہوں
تو میرے خلیوں کو سانسیں دے رہا ہے
میں تری آنکھوں میں جگنو رکھ رہی ہوں
کچھ دعائیں رکھ کے اک جلتے دیے میں
پھر ہواؤں پر میں گرہیں باندھتی ہوں
رات کس نے جھیل میں قندیل رکھی
اب کنارے سے ستارے چن رہی ہوں
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے