اے نادان۔۔۔
دنیا کے اس ترقی یافتہ چہرے کی چمک نے تمہاری آنکھوں کو چندھیا دیا ہے۔ ان روشنیوں کی چکا چوند چمک نے تمہاری سوچ کو مفلوج کر دیا ہے ۔ تمہارے احساس کوخیرہ کر دیا ہے۔
تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں کیا لکھوں؟
ان رنگینیوں کے متعلق ؟ ان تبدیلیوں کے نام ؟۔۔
سنو ذرا۔۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔۔۔
پانی کے عالمی دن پر سیمینار منائے جاتے ہیں۔ مختلف ادارے برسر پیکار بینرز لیے پُر جوش انداز میں نعرے لگاتے ہوئے ۔ کیمرے کے سامنے فوکس ’’صاف پانی۔۔۔ فلٹر کیا ہوا۔‘‘۔۔۔ جراثیم سے پاک۔۔۔؟؟؟۔۔
تمہیں علم ہے؟ جب میں یہ دیکھتی ہوں تو میری نظروں کے سامنے وہ چہرے ابھرتے ہیں جواب بھی پہاڑوں کے بے آب وگیاہ دامن میں کئی دنوں پہلے ہوئی بارش کازرد پانی پیتے ہیں۔۔۔ جہاں سے جانور بھی اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
کیاتم ایسا تصور کرسکتے ہو؟۔۔
تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں کیا لکھوں؟
ہواؤں کے دوش پر اڑتے ہوئے۔ ۔۔فضاؤں میں مسافتیں طے کرتے ہوئے چند لمحوں میں اپنے منزل تک پہنچنے کے بعد۔۔۔ میں کیسے نہ سوچوں ؟؟؟ کیوں نہ سوچوں؟؟؟کہ میرے بے بس اب بھی چوپاؤں کے ناتواں پیٹھ پر لمبی مسافتیں طے کرتے ہوئے تیز دھوپ۔۔۔ان پہاڑوں ۔۔۔ پتھروں اور خار دار راستوں پر اپنی قسمت سے الجھ رہے ہیں۔۔۔ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں کیا لکھوں؟
میں کیسے لکھوں کہ دنیا ترقی یافتہ دور میں ہے؟؟؟ کیوں کہ میں بھی اس کا حصہ ہوں۔ پر انسانوں کو تڑپتے ہوئے سسکتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔۔۔
انہیں کیسے شفا ملے؟؟؟ ان پہاڑوں سے ؟ اس کرب و اذیت سے ؟ کیا تم نے کبھی سوچا ہے؟
اذیت کیا ہے؟؟؟ درد کی آخری حد کا احساس ؟ بنجر آنکھوں میں خشک آنسوؤں کا دکھ؟؟؟
ہاں میں نے اس عورت کو تڑپتے دیکھا ہے جس کے ذمہ قدرت نے تخلیق کا عمل سونپا ہے۔۔اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں۔۔۔۔ جو موت کے شکنجے سے خود کو بچا نہیں پاتی۔۔۔ کیوں کہ وسائل کی کمی موت ہے صرف موت۔۔۔
تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ؟؟ میں کیا لکھوں؟ میں جذبوں کی سسکیاں سنتی ہوں ۔۔۔اذیت ناک لمحوں کے کرب سے واقف ہوں۔۔۔۔ امیدوں کو دم توڑتے ۔۔تڑپتے دیکھتی ہوں۔۔۔ لہو کی سرخی ۔۔۔ امیدوں کو دم توڑتے ۔۔۔تڑپتے دیکھتی ہوں ۔۔لہو کی سرخی۔۔۔ چھدے ہوئے جسم۔۔ مسخ شدہ روح بے مہر رویئے ۔۔ہر طرف مایوسی کا منظر۔۔۔ہاں یہ سچ ہے اور سچ بہت کڑوا ہوتا ہے۔۔۔ سقراط کا سچ۔۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس زہر کی کڑواہٹ میں اب بھی حلق میں محسوس کر رہی ہوں۔۔میں سقراط کے دور سے اب تک سہہ رہی ہوں۔۔۔ادیب اپنے عہد کا نمائندہ ہے۔۔
تم چاہتے ہو میں جھوٹ لکھوں؟؟؟۔
تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں کیا لکھوں؟تم چاہتے ہو میں جھوٹ لکھوں؟؟؟
میں درد کو درد نہ لکھوں ؟؟؟۔۔۔ آنسوؤں کو آنسو نہ لکھوں؟؟؟۔۔۔صرف کھارا پانی لکھوں؟؟
احساس کا گلہ گھونٹ دوں؟؟؟ جذبوں کو کچل دوں؟؟؟ تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو؟۔۔
میں زخمی روح کے احساس کو احساس نہ لکھوں؟ چھلنی جسموں کے اذیت ناک منظر کو ردّ کردوں۔۔ ہاتھ پھیلا ئے ہوئے ہتھیلی پر مقدر کی الجھی ہوئی لکیروں کو نہ پڑھوں ؟؟؟۔۔
تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟۔۔
میں کیا لکھوں؟؟۔۔۔
دنیا کے بہاروں میں موجود میں اپنے خزاں رسیدہ موسم کے زرد پتوں میں درد کی سر سراہٹ کو کیسے محسوس نہ کروں۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے