میں آئنہ ہوں
جہانِ دانش ! مرے تکلم پہ غور کیجیے
اک آئنہ گر ،کہ کتنے شفاف پانیوں سے تھا اس نے میرا خمیر اٹھایا
پھر اس میں نورانی ریت بھر دی
کہ سحر گر نے تھے چاک۔سیماب پر گھما کر
مرے نقوش و نگار کھینچے
کچھ اس ادا سے
کہ کوئی نقشہ کوئی نگارش
مرے مداروں پہ جم نہ پائے
پھر اس نے سوچا کہ رنگ بھر دے
سمندروں کے تغارچوں سے وہ سچے موتی کے سیپ لایا
وصال موسم کی پہلی بارش سے چند بوندیں خرید لایا
پھر اس میں یاقوت کے ، زمرّد کے ، سنگِ مر مر کے رنگ ڈالے
پھر اس نے کچی سی عمر کی اک حسین لڑکی سے اسکے رخسار پر اترتے دھنک کے رنگوں کی بھیک مانگی
پھر اس میں رنگِ دعا ملایا
اور آخرِکار میرے ماتھے پہ آئینوں کا سا رنگ آیا
جب اس نے حجت تمام کر دی
تو اپنی آنکھیں مجھے لگا دیں
دہن سے میرے زباں لگائی
اور اک مقدس شجر کے پنچھی نے بات کرنا سکھایا مجھ کو
پھر اس نے آخر میں اپنے دستِ ہنر کی مجھ کو قسم دلائی
"کہ جو کہوں گا میں سچ کہوں گا ، میں سچ سے ہٹ کر نہ کچھ کہوں گا ”
میں آئنہ ہوں
اے میرے چہرے پہ عکس در عکس ابھرتے لوگو!۔
میں آئنہ گر کے دستِ چابک کا شاہکارِعظیم تر ہوں
مری جبیں پہ تم اپنے نقش و نگار دیکھو تو ظرف رکھو
میں سچ کہوں گا
اے سنگ باری پہ اترے لوگو
جو میری آنکھوں میں بال آیا
تو چاہے جتنے وبال اٹھاؤ
مری مرمت نہ کر سکو گے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے