جھٹکا
کیوں یار، تم تو چکن چلی کی ایک پلیٹ کی قیمت زیادہ بتارہے ہو۔ جبکہ بازووالا تمہاری قیمت سے آدھی قیمت پر دے رہاہے۔
صاحب وہ مرغوں کو حلال کرتاہے۔ جبکہ ہم جھٹکے والے ہیں۔
یارتب توتمہارا زیادہ پیسہ لینا جائز ہے۔

مستقبل
اس جمہوری ملک میں بہت سی فوج تھی۔ ہندوؤں نے بھگوان کے نام سے بہت ساری فوجیں بنارکھی تھی۔ مسلمانوں کی بھی ایک فوج تھی۔ تو عیسائیوں نے بھی مسیحی فوج بنارکھی تھی۔ ادھر سکھوں نے بھی نانک سینا بنارکھی تھی۔
اس ملک پرجتنے بھی حملے ہوئے اس میں وہ ملک ہارتاچلاگیا۔ کیونکہ اس ملک میں فوجیں توکئی تھیں لیکن فوجی ایک بھی نہیں تھا۔

پنڈت
پاپاپنڈت کامطلب کیاہوتاہے؟
بیٹا جوبہت پڑھالکھا جانکار آدمی ہوتاہے اسے پنڈت کہتے ہیں۔
پاپا آپ توایڈیٹر ہیں اور دوبے جی آپ کے چپراسی ہے۔توبھی لوگ اسے پنڈت جی پائے لاگی کہتے ہوئے پیرچھوتے ہیں۔جبکہ آپ کا پیر تو کوئی نہیں چھوتا۔ کیاوہ آپ سے زیادہ پڑھالکھا ہے۔
بیٹا دنیا اس کا پیرچھوتی ہے اور وہ میرا سمجھے۔

دھواں
اس نے کچھ ادھ جلی مچھر مارنے کی ٹکیااکٹھی اور انھیں ناریل کے چھلکوں پر رکھ کردھواں کیا۔ زیادہ سے زیادہ مچھر مرے یہ سوچ کر اس نے گھر کی سبھی کھڑکیاں بندکردیں اور ایک کھاٹ باہر نکال کر اس نے گھرکے دروازے کی کنڈی بھی لگادی۔ اور گھرکے سامنے پیپل کے درخت کے نیچے کھاٹ بچھاکر لیٹ گیا۔کھپریل سے اٹھتے ہوئے دھوئیں دیکھتے دیکھتے اسے جھپکی سی لگ آئی۔
یکایک شورسن کر اس کی نیند کھل گئی اس نے دیکھاکہ اس کا گھر ویمن کمیشن کے لوگوں ،انوائرل منٹ لسٹوں اور اخبار نویسوں سے گھراہوا ہے۔ خواتین کی تنظیمیں نعرہ لگارہی تھی کہ بہوجلانے والوں کوپھانسی دو۔ وہیں دوسری طرف انوائرل منٹ لسٹ اس اٹھتے ہوئے دھوئیں کودیکھ کر اوزون پرت پر فکر ظاہرکرتے ہوئے اس دھوئیں کے کیمیاوی تجربے کی مانگ کررہے تھے۔ اخبارنویس اپنے ڈھنگ سے واقعے کی رپورٹنگ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس نے چلاکر لوگوں کو سچائی بتائی چاہی۔ پر سب نے اسے یہ کہہ کر خاموش کردیا کیاتمہیں اتنابھی نہیں پتا کہ دھواں وہیں سے اٹھتاہے جہاں پر آگ ہو۔ اتنے میں پولیس بھی آگئی۔
اگلے دن اخباروں کی سرخیاں تھیں افواہ پھیلانے کے جرم میں اس گھرکامالک حوالات میں۔

دانشور
اس شخص نے پامیریل نسل کی دوکتیاں پال رکھی تھی۔ وہ اکثردیکھتاکہ جب بھی کوئی آوارہ کتا ادھر سے گزرتا تووہ دونوں ہی اس کا منھ چاٹتی اور دم ہلاتی اس کتے کے آس پاس ہی چکرلگاتی رہتیں۔
اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ تواس شخص نے اس آوارہ کتے کو مارکر بھگاناچاہا۔ تبھی اس نے غورکیاکہ کل تک آوارہ کتوں کا منھ چاٹنے والی دونوں کتیاں اس کتے پر بھونک رہی ہے۔

دیوالیے
بچپن میں میں ایک پاگل کو سڑکوں پر اکثربھٹکتے ہوئے دیکھاکرتا۔ وہ لوگوں سے مانگ مانگ کرکھاتا۔ ایک دن وہ بیچ بازار کی ایک دوکان کے چبوترے پربیٹھے لوگوں کے سامنے گیا اور لوگوں کو گالیاں دینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ خاموش ہوگیا۔ لوگ بھیڑلگاکر اسے حیرت سے دیکھتے۔ اب یہ روز کا کام بن گیا اور اس دوکاندار کی بکری بڑھنے لگی اور اس نے اسے بھگوان کہہ کر اس کی تبلیغ کرنا شروع کردی۔ اس بیچ اس کا پاگل پن بڑھتاگیا اور اس نے اب لوگوں کولاتوں سے مارناشروع کردیا۔ اس کی اس حرکت کے بارے میں شگوفہ چھوڑدیاگیا کہ وہ جس کسی کو بھی لات مارتاہے وہ خاطر خواہ نتیجہ پاتاہے۔اب وہاں گالیاں اور لات کھانے والوں کی بھیڑلگنے لگی۔ آس پاس کے دوکانداروں کی توبن آئی۔ ایک دن یکایک اس پاگل کی موت ہوگئی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ اس بات کو لے کر اختلاف ہوگیا کہ مرتے وقت اس نے امی کہاتھا یاماں کہاتھا۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے اس کی مزار بنادی گئی۔ اس مزار کے سامنے سے گزرتے ہوئے دفعتاً میں بھی سر جھکا ہی لیتاہوں۔

گناہ
رات اپنے پورے شباب پرتھی۔ ایک ٹرک ڈرائیور سپیڈ سے ٹرک چلارہاتھا۔ نزدیک کنارے بائیں جانب اسے ایک سائیکل سوار جاتا ہوا دکھا۔ یکایک اس کے سامنے ایک گائے آگئی۔ اس نے گائے کو بچانے کے لیے گاڑی کو بائیں جانب کاٹا۔ سائیکل سوار اب ٹرک کی چپیٹ میں آگیا۔ ٹرک ڈرائیور نے دل ہی دل میں بھگوان کا شکریہ ادا کیاکہ آج وہ گؤہتیا کے گناہ سے بچ گیا۔

انصاف
دوشخص بازارمیں لڑرہے تھے۔ وجہ معمولی سی تھی۔ پہلا شخص موٹرسائیکل درست کرانے والا اور دوسرا میکانیک تھا۔ میکانک کاکہناتھاکہ اس نے اس گاڑی کو ٹھیک کرنے کے پیچھے بہت محنت کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ گاڑی ٹھیک نہیں ہوپائی۔ چونکہ اس نے اس کے پیچھے محنت کی ہے اس لیے اسے اس کاپیسہ ملنا ہی چاہئے۔ جبکہ موٹرسائیکل کے مالک کاکہناتھا کہ چونکہ گاڑی ٹھیک نہیں ہوئی ہے تووہ پیسہ کس بات کا دیں۔ وہ دونوں اندھیر نگری کے بادشاہ کے پاس پہنچے تو اس نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ میکانک محنت کی علامت ہے اور اس نے محنت کی ہے اس لیے اسے اس کا محنتانہ ملناہی چاہئے اورچونکہ موٹر سائیکل سرمایہ داری کی علامت ہے اس لیے اس کے مالک کو محنت کی اہمیت سمجھتے ہوئے روپئے کی ادائیگی کرنی چاہئے۔

پروٹوکال
’’جہاں پناہ ذہین فنکاروں کے سلیکشن کی جیوری نے فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ انعامات کے لیے تین نام فائنل کرلیے ہیں۔ ان میں سے ’’الف‘‘ کی سب سے بڑی قابلیت یہ ہے کہ وہ میراسالاہے۔ جبکہ ’’ب‘‘ہوم منسٹرکابیٹاہے اور ’’ج‘‘وزیر مالیات کی سالی کاشوہر ہے۔‘‘ وزیراعظم نے راجہ سے کہا۔
’’وزیراعظم جی، آپ کوتومعلوم ہی ہے کہ ہمارے ملک کی ایک بڑی ہی متعمول روایت رہی ہے کہ ہمارے یہاں آدمی کی ذہانت کی مالیت اس کی پہنچ کے معیار پر کی جاتی رہی ہے۔ ہماری مذہبی کتابوں میں بھی خوبی کے مقام پر ذات کواہمیت دی گئی ہے۔ ایسے میں آپ اپنے حساب سے فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کا انتخاب کرلیں۔لیکن ہاں، انعامات تقسیم کرتے وقت پروٹوکال کاخیال ضرور رکھاجائے۔‘‘راجہ نے حکم دیا۔

شعلے
موسی میں نے آپ کی بسنتی کے لیے ایک لڑکادیکھاہے۔ بڑاہی مذہبی رجحان والاہے وہ۔سال میں صرف دیوالی کے دن ہی جواکھیلتا ہے۔ کہتا ہے کہ دیوالی کے دن جواکھیلنا شبھ ہوتاہے۔ شراب بھی وہ مختلف مذہبی پروگرام کے وقت ہی پیتاہے۔ اب موسی ایسے پروگرام تو آئے دن ہوتے ہی رہتے ہیں۔ وہ شیوجی کا پرم بھکت ہے۔ ہرسوموار کو باقاعدہ اپنے دوستوں کے ساتھ شیوجی کے پرساد کے طور پر گانجہ بھنگ کابھی استعمال کرتاہے۔ ناچنے گانے والیوں کے یہاں بھی اس کاآناجاناہے۔ اب موسی دیوداسی روایت کے بارے میں توآپ کو معلوم ہی ہے۔ اس نے ایک ختم ہوتی روایت کو زندہ رکھا ہے۔ موسی بسنتی کو سمجھادینا کہ شادی کے بعد اس کی ان مذہبی روش پر بندشیں لگانے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ کسی کے مذہبی جذبات کوٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔ نہیں تو مذہبی اشتعال کرنے والے لوگ آجائیں گے اور پھر صوبہ بند اور ملک بند کی اپیل کردیں گے۔
۔۔۔توموسی میں رشتہ پکاسمجھوں؟
چل موئے نکل یہاں سے، ایسے مذہبی رجحان والے لڑکے سے میری بسنتی شادی کرے ۔اس سے تواچھا یہ ہوگاکہ وہ کسی سرکاری نوکری والے اچھوت ذات کے لڑکے کو پھانس لے۔

مرد
اس محلے میں کتوں کوزہردینے کے بعد صرف ایک ہی کتا زندہ بچ گیا۔ محلہ خالی جان کر دوسرے محلے کے کتے آرام سے اس محلے میں گھومتے۔ وہ زندہ بچاہواکتا ایک خالی گھر کی باؤنڈری کے اس طرف رہ کر انھیں بھونکتا رہتا۔ لیکن باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ ایک بار کتوں کے ملن کے موسم میں ایک کتیا کے پیچھے لگاہوا ایک دیگر کتا وہاں پرآپہنچا۔اب کتا باؤنڈری وال کے باہر اس کتے سے مقابلہ کرنے کے لیے تیارتھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے