تم سب سے زیادہ ہو، میں خود اپنی کمی ہوں
تم جتنے وجودی ہو، میں اتنا عدمی ہوں

دیوار ہوں میں دیدہ و نظارہ کے مابین
حیرت ہوں کبھی اور کبھی آنکھوں میں نمی ہوں

میں رعد کی ہیبت ہوں، میں بارش کی نفاست
نسلاً عربی اور مزاجاً عجمی ہوں

دیروز سے کہتی رہی اک ساعتِ فردا:
میں سانس ہوں اور وقت کے سینے میں تھمی ہوں

دوزخ کی صدا آئے: میں ہوں فقر سرائے
جنت یہ پکارے کہ میں دامی درمی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے