آنکھوں میں کسی نے مری ڈر دیکھ لیا ہے
قسمت کے ستاروں کا سفر دیکھ لیا ہے

اک ڈوبتی کشتی کو بچانے کی تھی کوشش
ساحل سے جسے ، تم نے بھنور دیکھ لیا ہے

ہم اپنی حقیقت کے لئے آپ بہت ہیں
تم نے ہمیں کیا جانے کدھر دیکھ لیا ہے

جینے کے لئے ایک بہانہ تھا ضروری
سو ہم نے تمہیں ایک نظر دیکھ لیا ہے

شطرنج پہ جیون کے ہر اِک شخص ہے مہرہ
قدرت کا عجب ہم نے ہنر دیکھ لیا ہے

طوفان کا رُخ جب سے ہوا ہے مری جانب
احساس نے آزردہ جگر دیکھ لیا ہے

لفظوں کی حقیقت سے اُٹھایا ہے جو پردہ
ہر شخص کی باتوں کا ہنر دیکھ لیا ہے

کچھ بھی ہو عذابوں میں سرابوں کی حقیقت
خوابوں نے مری شب کو، سحر دیکھ لیا ہے

درکار ہے سب کو اسی دھرتی پہ ٹھکانہ
ہم نے مگر آکاش پہ گھر دیکھ لیا ہے

اس شب کے اندھیرے کو کوئی چِیر دے راجیؔ
خوابوں نے اُجالوں کا سفر دیکھ لیا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے