ہلکے پھلکے انداز میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا جاتا جبر و استعداد،تنگ نظری ،بے حسی ۔۔۔۔جہالت اور دین سے دوری ہی تو تھی ۔بے تکلفی سے برتا جانے والا یہ لفظ اتنا زبان زد عام تھا کہ استعمال کرنے والے اس کے ہنر سے بخوبی واقف تھے کہ کس مقام پر موزوں رہے گا۔۔۔
وفات کی خبر سنی تو رنجیدگی سے تصدیق چاہی ۔۔۔نہیں کرو یہ سچ نہیں ہو سکتا۔
جواب آیا ۔۔۔طلاق ۔۔۔یعنی اب خبر سو فی صد درست ہے ۔
چائے پیو گے ۔۔۔نہیں موڈ نہیں ہے ایک مرتبہ پھر ۔۔۔طلاق ہے۔۔۔ داغ دیا جاتاچائے کی پیالی تو خا مخا پینی پڑے گی تمھاری بیٹی یا بہن کا رشتہ چاہیے۔۔۔اگر جواب ملتا نہیں فی الحال ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔طلاق ہے کسی ایک کا رشتہ تو ضرور دینا پڑے گا ۔۔۔بات پر زور دینے کے لیے ۔۔۔بات منوانے اور ثابت کروانے کے لیے یہ ایک عام سی بات تھی بلکہ اس پورے علاقے میں زبان ذد عام ۔۔۔دین کی رو سے دیکھا جاتا تو شاید ہی ۔۔۔کوئی حلال رشتہ قائم ہو۔
احمد نے اپنے گھر میں یہ لفظ ہر روز سینکڑوں مرتبہ سنا تھا ۔مہمانوں کو کھا نا کھلانے کے لئے اصرار کرتے وقت ۔۔۔ادے پر غصہ ہوتے وقت۔۔۔دشمنوں کو للکارتے وقت ۔۔۔دوستوں کو اصرار کرتے وقت۔۔۔صبح سے شام یہ لفظ اس کی سماعت سے ٹکراتا ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ اس کی بھی عادت بن گئی تھی ۔۔۔کالج میں اس کے دوست ۔۔۔کلاس فیلو جب اسے تنہیہ کرتے تو وہ لا پرواہی سے کندھے اچکا لیتا ۔۔۔تو کیا ہوا ؟ایسا کیا عجیب کہہ دیا ہے میں نے۔۔۔اس کے خاص دوست بھی اب اکثر ۔۔۔آزادانہ اپنی گفتگو میں استعمال کرنے لگے تھے۔۔۔
احمداور شاہد میں اس دو سالہ علمی سفر نے گہرے دوستانہ تعلقات استوار کر دئیے تھے،شاہ نواز کا ڈیپارٹمنٹ الگ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ احمد اور شاہد سے کلاس کے حوالے سے سینئر بھی تھا۔یونیورسٹی انتظامیہ نے جدید ٹیکنالوجی سے انفارمیشن کے سلسلے میں تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا ۔احمد کا چھوٹا آبائی شہر یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔سردی کی آمد آمد تھی موسم ایک دم تبدیل ہو گیا ۔ورکشاپ کے دوسرے ہی دن بارشیں شروع ہو گئیں ۔دو ہفتوں کے بعد ورکشاپ اختتام کو پہنچی ۔احمد چاہتا تھا کہ اسے صرف ایک ہفتے کی چھٹی مل جائے تاکہ وہ اپنے چند دوستوں کو نہ صرف اپنا شہر دکھا سکے بلکہ اہل خانہ سے بھی ملاقات کر سکے۔ اس کی درخواست منظور کی گئی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر آیا۔شاہ نوازبھی ،احمد کے بصد اصرار اس کے گھر آیا۔احمد کو دیکھ کر اہل خانہ کھل اٹھے ۔اس کے دوستوں کا والہانہ استقبال کیا گیا۔منصورکے سخت و درشت چہرے پر شفقت و مسرت ابھر آئی ۔۔انہوں نے خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ہر دن احمد کے کسی نہ کسی رشتہ دار کے ہاں پر تکلف دعوت کا اہتمام۔۔۔باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے عقیدت،احترام۔۔۔وہ ابھی چارپائی سے پاؤں نیچے نہیں رکھتے تھے کہ احمد کے چھوٹے بھائی ،بھتیجے جوتے ان کے سامنے سیدھے کر کے رکھتے۔۔۔ہاتھ واش روم میں دھونے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ۔۔۔چلمچی اور گڈوا حاضر ہوتا۔۔۔ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر روا نہیں رکھی گئی مگر ایک بات جو شاہ نواز نے خصوصی طورپر محسوس کی کہ اتنی عزت ،محبت دینے والوں کا رویہ گھر کی عورتوں کے ساتھ بڑاتضحیک آمیز اور تذلیل سے بھر پور ہوتا۔
’’تم میں سے سب سے اچھا وہ انسان ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘ اور اخلاق کی اچھائی ان پر ختم تھی ۔مگر یہ اخلاق عورتوں کے معاملے میں یکسر بدل جاتے اب بداخلاقی اپنے عروج کو چھو جاتی۔ وہ اپنے ملازموں سے اس طرح گفتگو نہ کرتے جس طرح اپنی بزرگ عورتوں سے ۔خود احمد جب ماں کو مخاطب کرتا تو اس کے انداز میں تحکمانہ روئیے کی جھلک صاف محسوس کی جاتی ۔منصور ۔۔۔احمد کا باپ جس کی گفتگو طلاق سے شروع ہوتی اور اختتام پذیر بھی اسی بات پر ۔۔۔
فرید بیٹے کے ختم قرآن کے سلسلے میں مدعو کرنے آیا تھا ’’مجھے اس وقت بہت جلدی ہے بس سلام کرنے آیا تھا اور یاد دہانی کے سلسلے میں کل بچے کے حوالے سے ہونی والی تقریب میں ضرور آئیے ‘‘نہیں تمھیں چائے کی پیالی ہر حال میں پینی پڑے گی ،اوہ نہیں میں پھر حاضر ہوں گا اس وقت میں جلدی میں ہوں ۔’’طلاق‘‘اٹل فیصلہ تھا اب انکار کی کوئی صورت نہیں تھی چارو ناچار فرید کو بیٹھنا پڑا۔تقریب پر جاتے وقت احمد باپ سے کہنے لگا ۔
’’با با آج آپ یہ سفید والا جوڑا پہنیں ۔۔۔اس نے باقاعد ہ منصور کے سامنے کپڑے لاتے ہوئے کہا۔‘‘منصور کپڑے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے بولا۔ طلاق ہے جو میں نے یہ کپڑے پہنے ۔۔۔بس جو پہن رکھے ہیں ٹھیک ہیں وہ ہاتھوں سے سلوٹیں ہٹانے لگا ۔۔۔بابا پلیز اب کے احمد التجا پر اتر آیا ۔۔۔اوئے بات سنتا کیوں نہیں ہے طلاق ہے جو میں نے پہنے۔۔۔ اس نے کپڑے چھین کر زور سے پھینک دئیے۔منصور کا بڑا بھائی مسرورباہر بیٹھا باپ بیٹے کی نوک جھونک سن رہا تھا ایک دم سے کمرے میں داخل ہو ا اور کپڑے اٹھائے۔ بھائی جان طلاق ہے آپ کو یہ کپڑے پہننے پڑیں گے۔۔۔یااللہ۔۔۔ شاہ نواز نے سر پکڑ لیا۔
پھر پر تکلف دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ایک ہفتے کے اس قیام میں شاہ نواز نے اس جملے کو زبان زد عام پایاکہیں کم اور کہیں زیادہ ۔البتہ منصور اس کا استعمال بے تکلفانہ کرتا ۔اس دن وسیع کچے صحن میں لگی چارپائیوں پر تین چار اجنبی چہرے براجمان تھے۔ شاہ نواز نے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا باہر کسی بات پر زبردست تکرار جاری تھی۔منصور نے کسی بات پر بگڑتے ہوئے کہا ’’بات تھالی میں نکالو اصل بات کہو۔۔۔ شف شف مت کرو ‘‘ ،یوں کہو بھائی کی محبت غالب آگئی تھی ۔اس لئے مجھے اس قابل نہ سمجھا۔موٹی اونی شال اوڑھے وہ دوسرا شخص قدرے کمزورآواز میں بولا ’’میں نے تم سے حقائق نہیں چھپائے۔ میں مجبور تھا کیا کرتا ایک طرف سے بیٹا تھا اور دوسری طرف سے بھائی ۔ادھر کنواں ادھر کھائی ، پھر لڑکی کا معاملہ تھا، انکار کی صورت میں میری ہی جگ ہنسائی ہوتی ؟مجبور ا مجھے حامی بھرنی پڑی ۔’’مجھ سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے، بے شک دعائے خیر نہیں ہوئی تھی مگر زبان تو تم نے مجھے دی تھی ۔اس باری منصورزور زور سے کھانسے لگا ۔’’ارے نہیں ‘‘ تم سے وعدہ خلافی کا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بڑی والی نہ سہی میری چھوٹی تو ابھی بیٹھی ہے ۔اس نے مصلح انداز میں کہا۔دوسری چارپائی پر بیٹھے شخص نے اوڑھی شال درست کرتے ہوئے جھکا سر اٹھایا اور منصور سے کہا ہم اسی لئے تو تمھارے پاس آئے ہیں ۔ یہ بڑا مجبور ہے ۔کیا کرے بیچارا۔ اس کے بھائی نے طلاق ڈالی ہے کہ ہر حال میں لڑکی بیاہ کے لے جائے گا۔ظاہر ہے اس کا بیٹا دوسروں کی بیٹیوں کے واسطے دروازے پر فائرنگ کر کے جائے گا ۔تو ان کی ہر جائز ناجائز خواہش تو اس نے ماننی ہو گی ،لیکن تمھارے بھائی نے یہ تو نہیں کہا کہ بڑی یا چھوٹی ،اس نے تو یہ شرط رکھی تھی کہ اتنی رقم کے ساتھ لڑکی بھی چاہیے ۔منصور نے با بلند آواز کہا۔یہی تو مسئلہ ہے کہ اس نے بڑی کا ہاتھ مانگا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ طلاق نہ ڈالتا تو شاید بیچ کا کوئی راستہ نکل ہی آتا ،مگر اب تو مجبوراً۔۔۔اوئے ۔۔۔منصور نے غصے سے غراتے ہوئے کہا ۔۔۔کیا طلاق طلاق لگا رکھی ہے ۔اپنی کمزوری اور کم ہمتی پر پردہ مت ڈالو ۔۔۔صاف صاف کہو وعدے سے مکر رہے ہو۔۔۔اورمیں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ۔۔۔دوسری اور ہاں یہ لو تیسری ۔۔۔وہ کوئی بھیڑ یا بکری نہیں ہے جوکمزور کھونٹے سے بندھی ہو ۔۔۔اب ذرا کوئی مائی کا لال آکر احمد کی ماں کو لے جائے ۔۔۔ہے کسی میں ہمت ۔۔۔اس نے موچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے سب کو للکارتے ہوئے سینہ تان کر کہا۔
سورۂ طلاق آیت نمبر ۳ کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع کیا ہے کیوں کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دئے دیں تو پھر یہ کہنا بے فائدہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے۔
اور یہاں یہ حالات کہ ان میں سے کسی پر بھی اتنے بڑے واقعے کا کوئی اثر نہ ہو ا ۔وہ سب بے حسی سے سنتے رہے سر جھکائے اس کی مردانگی کو داد دیتے ہیوئے۔۔۔اسلام اور اسلامی روایات کی اس طرح سے دھجیاں اڑتی دیکھ کرشاہ نواز سن ہو کر رہ گیا ۔۔۔وہ چپ چاپ بیٹھا دور تک پھیلے اس اندھیرے کو تکنے لگا ۔۔۔جس نے اس سے بینائی چھین لی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے