کتاب کا نام: لوہسون کی منتخب کہانیاں
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 190
قیمت : 300 روپے

دنیا کا تقریبا ہر ملک انسانی تاریخ کے تمام ادوار سے گزرا ہے یا گزر رہا ہے ۔ وہ سوشلسٹ دور ہو یا غلامانہ دور، جاگیردارانہ دور ہو یا پھر سرمایہ دارانہ۔ لیکن یہ بات بھی ہر نظام کا حصہ رہی ہے کہ اس میں اس وقت کے بہت سے لکھاریوں نے اپنے معروض کے مطابق لکھا اور نہایت عمدہ لکھا کہ جس نے عوام کی سوچ کو نئی نہج پر گامزن کیا ، کہ ان تحریروں نے لوگوں کے سامنے ان کے مسائل، مسائل کی کی وجوہات اور ان کے حل کے راستے سجھائے۔ اس طرح یہ معلوم ہو اکہ کسی بھی لکھنے والے پر یہ کتنی بڑی ذ مہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقیقت لکھے۔
بات میکسم گورکی کی جائے اور پھر صرف ایک ناول’ماں‘ ہی کی بات کی جائے تو وہ ایک شاہکار ہے کہ جس میں فیکٹری کے مزدور طبقے کے حالات، دکھ اور پریشانیوں کو اتنی خوبصورتی سے لکھا گیا اور پھر ان مشکلات کے حل کے لئے ناول کا ہیرو پاویل کن کن مراحل سے گزرا اور لوگوں کو ایک جدوجہد کے راستے پر گامزن کر دیا؛ ایک کامیاب ناول ہے۔
تھامس پین کا کتابچہ ، کامن سینس، پڑھتے ہوئے جان ایڈمز کی بات بالکل درست لگی کہ’’ تھامس پین کے قلم کے بغیر جارج واشنگٹن کی تلوار بس یوں ہی ہوا میں لہراتی رہتی‘‘۔ اس کتابچے میں بھی آزادی کے حصول اور جدوجہد کی داستان ہے۔
چین بھی جو جاگیرداری کے بدترین دور سے گزرا ہے، اس دورکا صحیح معنوں میں تصویر کشی وہاں کے افسانہ نگار لوہسون نے کی۔ یہی وہ افسانے ہیں جن کا ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ’ لوہسون کی منتخب کہانیاں‘ کے نام سے بڑی خوبصورتی سے کیا۔اس کتاب میں موجود ان۱۳ افسانوں کو پڑھ کر آپ کو جاگیردار چین کی سہی تصویر دیکھنے کو ملے گی۔
پاگل کی ڈائری؛ چین کے فیوڈل دور کی ایک زبردست عکاسی جس میں انسان، انسان کی جان کے درپے تھا ، رشتہ رشتے کے درپے تھا۔ انسان کا انسان کوکتے کی طرح لوٹ لینے ، کھا جانے کا تصورتھا۔ اور استحصال شدہ طبقہ با خبر ہوتے ہوئے بھی آواز بلند کرنے کی بجائے خود کو لوٹنے اور کھانے کے لئے پیش کرتاتھا۔ عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود آخر میں پھر بھی ایک امید ہے کہ آواز بلند کر و اور ڈولتی نیا کو بچاؤ۔
کنگ آئی چی؛ کنگ ، افسانے کا مین کردار جو ملک میں تعلیم عام کرنا چاہتا تھا۔ علم پھیلانا چاہتا تھا، شعور دینا چاہتا تھا لیکن جاگیرداروں نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا بلکہ اس کا وجود ہی صفحہء ہستی سے مٹا ڈالا۔
دوا ؛ ایک بیمار معاشرہ جہاں ہر کوئی اپنے علاج اور اپنے بچوں کے علاج کے لئے دوسرے انسانوں کا خون پی رہا ہے،دوسروں کا گوشت نوچ رہا ہے۔ اور بھلا دوسروں کا حق کھانے سے فلاح کب نصیب ہوتی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو اگر ٹھیک بھی ہیں لیکن اس قاتل سسٹم کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ دوسری بات جو مجھے سمجھ آئی کہ انقلابی جسے قتل کیا گیا تھا اس کے خون میں بھیگی روٹی اپنے بچے کی شفا کے لئے کھلائی گئی جسے ٹی بی تھا۔ اور یہ کہ چین میں اس دور میں روایتی چینی یا دیسی طریقہِ علاج رائج تھا اور ماڈرن دوا استعمال نہیں ہوتی تھی جس سے اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔
آنے والا کل؛ اس افسانے میں چوتھے شان کی بیوی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کے بچے کے ساتھ کیا ہوا ۔ بچہ بیمار تھا اور وہ اسے بڑی مشکل سے اسے ڈاکٹر ہو کے گھر لے گئی لیکن بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے مر گیا اور وہ کچھ بھی نہ کر سکی ۔ یہ کہانی بھی دراصل چین کے دیسی طریقہِ علاج کی مخالفت کی داستان ہے جس میں لوگ جان سے جاتے تھے۔
حادثہ؛ جاگا ضمیر جس نے اسے جھنجوڑا کہ رکشے والے نے بڑھیا کی جس طرح مدد کی وہ مدد تو وہ خود بھی کر سکتا تھا الٹا یہ کہ وہ اس مدد کے بھی خلاف تھا لیکن بعد میں شرم سے پچھتاتا رہا۔
چائے کی پیالی میں طوفان ؛ چینی بادشاہت کی نشانی یہ تھی کہ اس میں چٹیا رکھنا لازمی ہوتا تھا۔ پیشانی پر سے سرمنڈوا کر بالوں کی ایک چٹیا رکھی جاتی تھی۔ یوں کہنا چاہئے کہ یہ غلامی کی ایک نشانی ہو اکرتی تھی اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تھا تو یہ فقرہ عام تھا کہ ’ بال رکھو سر سے ہاتھ دھو لو،سر رکھو بالوں سے ہاتھ دھو لو‘۔ البتہ باغی اس حکم کو نہیں مانتے تھے۔ اس وقت عورتوں کے ساتھ بھینفرت انگیز سلوک روا رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ بچیوں کے پاؤں خوبصورت رکھنے کی غرض سے لوہے کے جوتوں میں باندھے جاتے تھے۔ اس افسانے میں ’ ہر نسل پچھلی نسل سے خراب تر ہوتی ہے‘ کی تکرار کا مطلب ہے کہ وقت کے ساتھ انسان کا استحصال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہر دور پہلے دور سے مزید برا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہی اس افسانے کا مرکزی خیال ہے۔
میرا پرانا گھر؛ جاگیر دار انہ اور طبقاتی دور کا ایک اور افسانہ کہ غریب کسان کی حالت روز بہ روز بگڑتی چلی جاتی ہے۔ فصل منڈی تک پہنچنے سے پہلے خراب ہو جاتی ہے۔ طبقات قریبی رشتوں میں بھی فاصلوں کی ایک فصیل کھڑی کر دیتے ہیں۔ غریب کو اسی بت پرستی میں مبتلا رکھ کر جاگیر دار مزے کر رہا ہے لیکن پھر بھی حالات بدلنے کی امید قائم رکھنی چاہئے۔
ایک مسرور خاندان؛ ایک سچا قلم کار ہمیشہ اپنے معروض کے مطابق ہی لکھے گا۔ خالی پیٹ جس میں بھوک ہچکولے لے رہی ہووہ کبھی بھی اونچے محلوں اور نت نئے کھانوں کے بارے میں نہیں لکھ سکتا اور اگر وہ لکھے گا ۔
صابن؛ چین کے نشاۃ ثانیہ میں نیم مغربی سکولوں اور انگریزی سیکھنے کا فیشن جگہ پا چکا تھا لیکن یہ فیشن بھی صرف مردوں کے لئے تھا۔ ہر جگہ کی طرح لڑکیوں کا پڑھنا چین میں بھی غیر ضروری سمجھا جاتا تھا اور ان کا آزادی سے گھومنا پھرنا مردوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن دوسری طرف جب لڑکیاں سڑکوں پر بھیک مانگا کرتی تب اس بھکارن کی حالت سے نظریں چرا کر اسے نظم کا عنوان گردانتے تھے۔ یہی کچھ اس افسانے ’ صابن‘ کی بھکارن کے ساتھ ہوا۔
کتے کا خواب؛ اس افسانے میں انسان پر ایک بہت گہرا طنز کیا گیا ہے کہ کتا ابھی تک انسان کی طرح انسانوں میں فرق نہیں کرتا وہ سب انسانوں کو ایک طرح عزت کے قابل سمجھتا ہے وہ طبقات میں نہیں پڑا اور نہ ہی کھرے اور کھوٹے، ریشم وکھدر، حاکم و رعایا اور آقا و غلام کے درمیان فرق نہیں کرتا ، یہ انسان ہی ہے کہ جو انسانوں میں فرق کرتا ہے۔
تلوار سازی؛ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے مزہ آیا کہ یہ Mythology کا ایک شاہکار لگ رہا تھا ، ایک الف لیلوی داستان لگ رہی تھی کیوں کہ اس میں جو کچھ کہا گیا وہ حقیقت میں ممکن نہیں۔ نہ کوئی دشمن کے سر کے ساتھ اپنا سر بھی تن سے جدا کر کے ابلتے دیگ میں ڈال سکتا ہے اور نہ ہی اس ابلتے دیگ میں وہ کٹے سر لڑسکتے ہیں لیکن پھر بھی یہ کہوں گی کہ تلوار سازی کے چکر میں تلوار ساز خود ہی اپنے ہاتھوں صفحہء ہستی مٹ جاتا ہے۔ انصاف، ہمدردی سے بے بہرہ ہو کر لوگ خود بھی اسی بے انصافی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ نظام بدل جاتا ہے۔ پرانے نظام کی جگہ نیا نظام لے لیتا ہے۔ ایک خوبصورت فقرہ استعمال ہوا کہ ’ اتحاد کا رقص دیگ کے پیندے میں کیا جاتا ہے۔
آہ کیو کی سچی کہانی؛ 1911 کے انقلاب کے تناظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں پرانی شاہی حکومت یا شاہی نظام کو توڑ ڈالنے اور جمہوریت کو متعارف کرنے کی بات کی گئی ہے جس میں چین کی قدامت پرستی اور اس کی صلاحیت نے مغرب کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا لیکن اس میں بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ اس افسانے میں یہ بتایا گیا کہ رش تو جب خاموش ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہی رش جاگ گیاتو پھر وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کہانی میں جگہ جگہ عورتوں کی حالت بتائی گئی ہے کہ جب نن بھی اکیلے کہیں جاتی ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے