آنکھوں میں ایک باغ تھا، جانے کہاں گیا
دل میں کوئی چراغ تھا، جانے کہاں گیا!

ہر ذرہ کہہ رہا ہے: ابھی میرے ہاتھ میں
افلاک کا سراغ تھا، جانے کہاں گیا؟

میری طرح کا شخص تھا جس کے نصیب میں
میری طرح کا داغ تھا، جانے کہاں گیا

مصروفیت کے روز و شب و مہ و سال میں
اک لمحہِ فراغ تھا، جانے کہاں گیا

یہ پرسکون شخص خدا جانے کون ہے؟
اور وہ جو بد دماغ تھا، جانے کہاں گیا!

وہ داغ ، وہ چراغ، وہ باغ اور وہ بددماغ
اڑتا ہوا کلاغ تھا، جانے کہاں گیا

0Shares
One thought on “احمد شہریار”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے