میلی دیواریں ، اکھڑا پینٹ بتا رہاتھاکہ کافی عرصے سے ان دیواروں کو نہیں چھیڑا گیا ۔ہر کچھ دیر کے بعد چھت سے چونا گر پڑتا۔ دیوار پر ایک پرانا سا کیلنڈر آویزاں تھا جس کا رنگ وقت کی دھول سے پیلاہٹ لیے ہوئے تھا؛ بس اک ذرا سی ہو اچلی اور وہ منہ کے بل گر پڑے گا۔ ہوٹل کی دوسری دیوار کے کونے میں گرد سے اٹا ہو اٹی وی رکھا ہوا اونچی آواز میں لگا ہوا تھا۔ میزیں اور کرسیاں دور تک بچھی چلی گئی تھیں۔ بیرے بڑی مستعدی سے میزوں پر چائے پہنچا رہے تھے۔ پیالیوں کی کھنک اورقدموں کی دھمک کے ساتھ لوگوں کا شور مل کر ایک عجیب سماں باندھ رہا تھا۔ پچھلے کئی ماہ سے جہانزیب بلدیہ ہوٹل کی اوپری منزل پر جا کرکھڑکی کے پاس والی ٹیبل پرجا بیٹھتے۔ گھنٹوں خلاﺅں میں گھورتے رہتے یا کبھی کبھار کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہو جاتے ۔ بیرا بھی بات کیے بنا چائے کا کپ لا کر ان کے سامنے رکھ دیتا۔ چائے کا کپ وہ وہاں بیٹھے بیٹھے کئی بار پی لیتے۔ ’ کبھی کبھی زندگی میں ایسا مقام بھی آتا ہے کہ جب انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ بدن اور دماغ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ سانس لینے سے بھی تھکن بڑھ جاتی ہے….ایک دم سے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ سانس بھی نہ لی جائے‘ …. ان کی بوڑھی آنکھیں تھکن اور دکھ سے چور تھیں۔سوچتے سوچتے ان کی نظر کھڑکی سے باہر لوگوں کے رش پر پڑی۔ تنگ سی سڑک پر لوگ پیدل بھی رواں دواں تھے اور گاڑیاں بھی پوں پاں کرتی ہوئی گزر رہی تھیں ۔ اچانک اس رش میں دو بندوںکی ہاتھا پائی شروع ہوگئی، لوگوں نے بیچ میں آکر بیچ بچاﺅ کراےا۔ ” برداشت…. نہیں ہے کسی میں ….! لیکن برداشت آئے بھی کیسے….! برداشت رہے بھی تو کس کس بات پر….!“ بڑبڑاتے ہوئے تلخ سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر بکھر گئی۔ ”سرپتہ نہیں حالات کب بدلیں گے….؟ محبت کب پیدا ہوگی لوگوں میں ….؟“ ساتھ والی میز پر بیٹھے نوجوان نے ان کی خود کلامی سن کر کہا۔  ” جب ہم بد تہذیب ہو جائیں !“ اسی خود کلامی کے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے سامنے دیوار پہ مکڑی کو غور سے دیکھنے لگے جو جالا بُنتے بُنتے اوپر ہی اوپرچھت تک اٹھتی چلی جا رہی تھی۔ ”بدتہذیب….؟ تہذیب تو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے‘۔‘ نوجوان حیران ہوتے ہوئے بولا۔ ” ہم بہت زیادہ مہذب ہو گئے بیٹا…. جنگلوں ، جانوروں اور غاروں میں رہنے والے ہم لوگ،انسان کے ساتھ ر ہنا ہی بھول گئے۔“ بولتے ہوئے خاموش ہو گئے۔  مکڑی ایک بار پھر نیچے آتے آتے ٹیبل تک آگئی اور ایک لمحے میں واپس اوپر کا سفر کرنے لگی۔ جہانزیب اپنے خیالوں میں گم خاموشی سے اس نظارے پر نظریں جمائے رہے۔ ” بیٹا، ہمارے اندر مذہب کا جالا، دولت کا جالا، خود غرضی کا جالا، خود پسندی اور خود پرستی کا جالاچار سُو پھیلاہو ا ہے۔ ہمارے اند ر کی مکڑی ہمیں اب سکون لینے نہیں دے رہی۔“ وہ خاموش ہو گئے ۔ کافی دیر خاموشی رہی جس سے نوجوان کو وحشت سی ہو نے لگی تو بات کرنے کی غرض سے وہ ان کے پاس ہی آ بیٹھا اورپوچھا،” سر آپ کیا کرتے ہیں، میرا مطلب ہے آپ کی جاب کیا ہے؟“ ” اب تو صرف غم غلط کرتا ہوں ….ریٹائرڈ استادہوں۔‘ ‘ ان کے چہرے پر ایک سایہ سا گزر گیا۔ ذرا توقف سے کہنے لگے، ’ ’ بڑی محنت سے میں نے اسے پڑھایا لکھایا تھا …. پل پل غربت کے تازیانے اپنی روح پر سہتا رہا ، اسے پڑھاتا رہا….وکیل بنایا تھا…. یوں آن کی آن میں چلا گیا!“ ان کا پورا بدن لرزنے لگا۔ نوجوان نے ایک دم سے ان کے ہاتھ پر اپناہاتھ رکھ دیا۔ ” اُس دن وہ میرے ساتھ اور اپنی ماں کے ساتھ ناشتہ کر کے کورٹ کے لیے نکل گیا۔ جاتے جاتے کہنے لگا ،بابا اس دفعہ چھٹی آئے تو گاﺅں چلیں گے ،بہت یاد آرہا ہے۔ میرے کانوں میں گھنٹیوں کی آوازیں آتی ہیں….‘ ‘ان کا گلا رندھ گیا۔ ”….اور میں اس کو تنگ کرنے لگا، بیٹا تمہاری رگوں میں دراصل چرواہوں کا خون دوڑ رہا ہے بس اور کچھ نہیں….‘ ‘ان کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے، خاموشی سے باہر دیکھنے لگے۔  بیرا میلی سی چادر اپنے بائیں کندھے پررکھے ساتھ والی میز پر کپڑا مار کرجا رہا تھا کہ نوجوان نے اسے چائے لانے کو کہا۔ ” قیامت کا دن تھا ۔ چیخیں تھیں جو آسمان کو چیر رہی تھیں ۔ فضا میں تازہ لہو کی بو بارود کی بو کے ساتھ مل گئی تھی۔“ وہ کانپ رہے تھے۔ کچھ لمحوں کو خاموشی چھا گئی لیکن فضا میں خاموش آہوں کی آوازیں گونجتی رہیں۔ لمحات کی اس اذیت سے بچنے کی کوئی راہ نہ سوجھ رہی تھی۔ ” میرے لیے قدم لینا دوبھر ہوگیا تھا۔ انسانی اعضا کے ٹکڑوں اور لاشوں کے بیچ میں اپنے زرین کو زندہ دیکھنے کی امیدلیے بھاری قدموں سے سرگرداں تھا۔“ مکڑی جالا بُنتے بُنتے نیچے گر گئی لیکن پھر ایک دم سے وہ اس تار سے جھولتے ہوئے اوپرا ٹھتی گئی۔  ” ہمیشہ کی طرح ایک غریب کا بیٹا شہید ہو گیا …. میرا زرین شہید ہو گیا ….لوگ مجھے اس کی شہادت کی مبارک باد دیے رہے تھے….!‘ ‘آنسو ان کی آنکھوں کا بند توڑ کر ان کے چہرے کی جھریوں میں جذب ہو رہے تھے۔ ” میں نے کب دعا کی تھی کہ میں شہید کا باپ کہلاﺅں…. کب میں نے چاہا تھا کہ زرین شہید ہو جائے….مجھے تو میرا بیٹا چاہیے…. مجھے شہید نہیں چاہیے۔“ ہچکیاں ان کے سینے میں دم توڑنے لگیں ، آنسو بہتے رہے اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے جہاں خاکروب سڑک پر جھاڑو دینے میں مصروف تھے۔ ” کاش …. کاش ایسا ہو کہ ہم بھی اپنے اندر کے خود کار جھاڑو سے اپنے اندر کا سارا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے خود سے نکال پھینکیں کہ ہمارے خون میں ملاوٹ ختم ہو، اس نوجوان سے تو تسلی کے الفاظ گُم ہو گئے تھے۔ اچانک ٹی وی کی آواز تیز ہو گئی؛ ’ پولیس ٹریننگ سینٹر پرخود کش دھماکہ….‘ ان کی نظریں تیزی سے ٹی وی
سکرین کی طرف چلی گئیں ۔ سکرین پرایک بھگ دڑ مچی ہوئی تھی، سائرن بج رہے تھے۔ ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔ چیخوں سے آسمان میں شگاف پڑ رہے تھے۔ غم ، دکھ اور سسکیوں سے سارا ہوٹل ، اس میں موجود ہر شئے بھر گئی تھی۔ زرین شہید کے بوڑھے والد، جہانزیب کے ہاتھ سے کپ چھوٹ گیا۔ چائے ٹیبل سے ہوتے ہوئے دور تک بہتی چلی گئی…. مکڑی بہت تیزی سے جالا بُننے میں مصروف تھی۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے