جب ہر طرف کرسی کرسی کھیلا جائے، وراثتی سیاست میں کرسی شیطان کی آنت بن جائے، پہلے بستر پر موت آتی تھی ۔ اب کرسی پر موت آئے،میڈیا اور سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کی عزت کو اُچھالا جائے۔ بیوروکریٹ کرسی کی جنگ میں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، روز عدالتوں میں ایک نیا سٹے آرڈر لیا جائے۔ مسجدوں میں منبر پر لڑا جائے۔ تب ہماری اخلاقیات پر بے شمار سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہر مادی شے انسان پرحاوی ہوتا ہے۔ غرض ہی اصل کمائی بنتا ہے ۔ ہر مصلحت کےلےے دور کی کوڑی لایا جاتا ہے۔ اس طرح صابر اور خوش مزاج افراد پر زندگی تنگ ہوجاتی ہے۔بے گناہوں کا خون بہتا ہے۔ اس صورتحال ایک ہی کرسی پر نظر جاتی ہے جسے ریسرچ چیئر یعنی تحقیقی کرسی کہتے ہیں۔ اس سے وہی جڑتے ہیں جنہیں قناعت کا سبق یاد رہتا ہے ۔ اسلاف کی مثبت قیادت سے محبت ہوتی ہے جس سے روحانی تعلق کی آشیر باد حاصل کی جاتی ہے۔ تہذیب ، تمدن، تاریخ ، حقیقی سیاست، علم و ادب ، جذبہ رحمانی کی تشریح ، تفہیم اور تحقیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ یہیں سے محبوبہ کی خوبصورت نازک مہورت سجتی ہے۔ سرسنگیت کو دوام ملتا ہے، اخلاقیات کا کوہ ہمالیہ سر اٹھاتا ہے۔ ملکی علمی روایات میں اگر اس پہلو کو توانائی کے ساتھ سوچا سمجھا اور پھیلا یا جاتا تو خودکش حملوں کی روایت کا سلسلہ نہ چل پڑتا۔ ساہوکاروں کی عارضی جنتیں نہ بنتیں، خون کے پیاسوں کی بجائے علم کے پیاسے ہر سو نظر آتے ، انسانوں سے موت کی دوستی میں جلد بازی نہ ہوتی ، موت بھی ایسی جو بے نام کہلائے ۔ قصرِ روم سے علم دشمنی اور لائبریریاں جلانے کی روایت چل پڑ ی تھی۔ جوہنوز کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ مگر اس قوم کاکیاکیا جائے جو علم کی خود ساختہ پابندی سے گزر رہا ہے ۔ اب تو جہاں لائبریریاں آباد ہیں علم پروری ہورہی ہے ، تحقیقی چیئرز آباد ہیں وہیں سے دنیا میں حکمرانی کی بھاگیں سنبھالی جارہی ہیں۔ شکرہے اب جہالت کے زوال کے لےے، اہلِ دانش کو سطحی سیاسی کشمکش سے نجات کے لےے جامعہ بلوچستان نے تحریک آزادی اور عوامی شعور اجاگرکرنے کے دو نامور پیشروﺅں کی اصل جدوجہد کو سند فراہم کے لےے دو تحقیقی کرسیوں کا اعلان کردیا ہے جو کہ میر یوسف عزیز مگسی خان، اور عبدالصمد خان اچکزئی کے نا م سے منسوب ہیں۔ ان شیدائے علم و عمل کی ادبی علمی اور مثبت سیاسی خدمات کو جلا بخشنے پر ارباب بست و کشاد اور جامعہ بلوچستان کے علم پرور داد کے مستحق ہیں ۔ ان چیئرز کے لےے ڈاکٹر شاہ محمد مری اور ڈاکٹر رفیقی کو ذمہ داریاں سونپیں گئیں ہیں ۔ جن سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں ۔ امید ہے کہ یہ تحقیقی کرسیاں اسمبلی والی کرسیوں کی طرح سیاست کی نظر نہ ہونگی ۔ اگر میدان علم و عمل میں آئندہ بھی اجتماعی نوعیت کے فیصلے ہونگے تو دوزغ گوئی پر مبنی تہذیب و تمدن اور تاریخ کا خاتمہ ہوگا۔ معاشرے میں افراد کے کاندھوں پر نااہلی اور جہالت کا بوجھ اتارنے میں مدد ملے گی۔ جس معاشرے میں اپنے اسلاف سے غلط روایات منسوب کی جاتی ہیں یاان کی مخلصانہ جدوجہد کو فراموش کیا جاتا ہے وہ معاشرے خودغرضی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ۔ علم کی طاقت سے آشنا معاشروں میں سٹیفن ہاکنگ جیسے معذور سائنسدان پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے لاکھوں صحت مند جاہلین سے حد درجہ بہتر ہے ۔ بلوچستان یونیورسٹی سکالروں کی آماجگاہ بن چکی ہے اگر ذاتی اغراض کی نظر نہ ہوا تو آئندہ چند برسوں میں تعلیمی انقلاب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ نہیں تو لوگ اسی طرح نئی موٹر سائیکلوں اور نئی گاڑیوں میں الٹنے والے کسی ٹینکر کے پٹرول کو میدانوں سے سمیٹتے سمیٹتے کوئلہ بنتے رہیں گے یا ایک بھینس کی چوری کے الزام پر درجنوں افراد قتل ہوتے رہیں گے، ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ ہماری کمزوریاں اچھالتی ر ہیں گی۔ ویٹنگ فار اللہ کی مصنف ہماری نادیدہ پنی پر کئی صفحے سیاہ کرتی رہے گی، پارلیمنٹ سے بازار حُسن تک جیسی کتابیں لکھی جائیں گی، میڈیا منڈی کے مصنف کی طرح میڈیا ہا¶سز کی اصل کہانیاں چھاپتا رہے گا، عید کی دو چاندوں پر ہم اسی طرح لڑتے رہیں گے خودکش حملہ آوروں کی دھمکیوں پر بازار سنسان ، پارک ویران، تعلیمی ادارے بند ملیں گے۔ خدارا جس صدی میں آپ زندہ ہیں اُسے سمجھنے کی کوشش کریں، کسی بیماری کی تشخص اور امداد کے لےے ڈبلیو ایچ او کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اس ذمہ داری کو نبھانے والے قابل ماہرین صحت کی کھیپ پید اکی جائے تاکہ چکن گونیا، کانگو وائرس، ڈینگی وائرس جیسی بیماریوں سے نجات مل سکے۔ پانی کی قلت کا کوئی مستقل حل نکالا جاسکے۔ شہروں سے گندگی صاف کرنے والے صحت مند اور دردِ دل رکھنے والے انسان پیدا ہوسکیں۔ عجیب بات ہے گندگی سے بچنے کے لےے میڈیکل ماسک لگانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لےے ہر شخص کو اسلحہ اٹھانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ چوروں سے بچنے کے لےے راستہ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ بیماریوں سے نجات کے لےے زیادہ سے زیادہ ہسپتال قائم کرنے کے لےے سر جوڑا جاتا ہے ۔ شہر میں بے ہنگم ٹریفک کا سبب گاڑیوں کی زیادتی بیان کی جاتی ہے ۔ سڑکوں کے اکھڑ جانے کا الزام بارش کو دیا جاتا ہے۔ ہر فساد کے پیچھے محض بیرونی سازش ڈھونڈتی جاتی ہے ۔ ہماری اپنی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس پر سوچنے کی کسی کو توفیق نہیں ۔ بھئی سیاسی کرسی، کرسی کھیلنے کی بجائے علمی ، ادبی، تاریخی، تہذیبی تحقیق کے حوالے سے تحقیقی کرسیوں کی ضرورت ہے۔ اس عمل کی جتنی زیادہ حوصلہ افزائی ہوگی اِسی قدر جھنجٹوں سے نجات ملے گی اور ہم بھی دنیا کے باقی انسانوں کی طرح زندگی گزار سکیں گے۔