نیو زی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سکولوں میں بہت عام مگر تشویش ناک حد کو چھوتا ہوا مسئلہ ہے۔ خود پسندی اور غرور کے حامل ہم جماعت لڑکے اور لڑکیاں اکثر ایسے ساتھیوں کو اپنے جارحانہ رویئے کا شکار بناتے ہیں جو زیادہ تر شرمیلے اور اپنے آپ میں گم رہنا پسند کرتے ہیں یا پھر ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے جسے یہ شریر بچے سمجھ جاتے ہیں ۔اگر سامنے والا ان کی سفاکی کو خاموشی سے برداشت کر لیتا ہے اور اس بات کی شکایت کسی سے نہیں کرتا تو ان کے حملوں میں شدت آ جاتی ہے اکثر جسمانی گزند پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ عجیب اتفاق ہے جب میں جارحانہ رویہ کی تعریف پڑھ رہی تھی جو کہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے تو اچانک شیرون مسیح کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ کر کہتا ہے کچھ میرے دردناک قتل پر بھی لکھو، سترہ سال کا نوجوان شیرون جس کی مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگی تھیں اپنے ہم جماعتوں کے سفاک سلوک کے سبب موت کی نیند سلا دیا گیا ۔
میں نے اردو اخبارات میں اس خبر کو تلاش کیا تو خاطر خواہ نتایج برآمد نہ ہوئے کم و بیش ہر بلاگ پر گھما پھرا کر ایک ہی بات کہی گئی تھی کہ
شیرون مسیح کو اس کے استاد نے سکول کے پہلے دن ہی چُوڑا یعنی کمترین ذات کا کہہ کر متعارف کرایا جس کے سبب اس کے ہم جماعت اسے حقارت سے دیکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے لگے یہاں تک کہ بالآخر اسے موت سے ہمکنار کر دیا گیا۔ تلاش بسیار کے بعد برٹش پاکستانی بلاگ پر اس کے بارے میں کچھ مستند معلومات حاصل ہوئیں جسے مختصر طور بیان کرنے کے بعد میں اس کے بیہمانہ قتل کے پیچھے کارفرما عوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی۔
شیرون مسیح نہایت ذہین اور محنتی طالب علم تھا جب تمام تر مالی مشکلات کے باوجود اپنے سکول واقع ایک چک میں امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کیا تو ایک مسیحی استاد نے اس کے والد کو سمجھایا کہ شیرون کے بہتر مستقبل کے لئے اسے شہر کے کسی اچھے سکول میں بھیجنا چاہئے ۔
کیونکہ اس چھوٹی سی جگہ پر اس کے ترقی کے مواقع بہت کم ہیں ، شیرون کے والد الیاس مسیح نے اپنی پینتیس سالہ عمر میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کر کے کچھ رقم پس انداز کی تھی وہ اس نے بیٹے کے ہائی اسکول میں داخلے پر صرف کر دی اور یوں اسے گورنمنٹ ایم سی ماڈل ہائی اسکول بورے والا بھیج دیا ۔ شیرون اس نئے اسکول میں واحد کرسچین طالب علم تھا ۔
پہلے ہی دن اسے سکول میں طبقاتی منافرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے استاد نے اسے چُوڑا کہہ کر جماعت میں متعارف کرایا ، اس کے ہم جماعتوں کی بدسلوکی کا سلسلہ اسی دن سے شروع ہو گیا جو بالاخر صرف تین دن بعد ہی اس کی موت پر منتج ہوا گویا شروع ہی دن سے اسے ہدف بنا لیا گیا تھا اور ذہنی طور پر دیوالیہ خود کو اشرافیہ سمجھنے والے لڑکوں کے اس گروہ نے انتہائی جارحانہ رویہ برقرار رکھتے ہوئے اسے جسمانی طور پر بھی نشانہ بنایا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔
بلئنگ کی تعریف کے مطابق ’’یہ وہ جارحانہ رویہ ہے جو جان بوجھ کر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے اختیار کیا جاتا ہے ‘‘۔یہاں تعلقات میں طاقت کا عدم توازن بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس رویئے کو بار بار دہرایا جاتا ہے یعنی اس جارحانہ رویہ کو ان چار خواص کی مدد سے پہچانا جا سکتا ہے ۔ گویا یہ وقتی غصہ ، ہیجان یا جذبات کے ہاتھوں رونما ہونے والا جز وقتی رویہ نہیں۔
یہاں نیوزی لینڈ میں مختلف کلچرل گروپس کی موجودگی کے سبب بلیئنگ کو بہت اہم ایشو کے طور پر لیا جاتا ہے اور اساتذہ کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں ۔اس ضمن میں سب سے موثر سٹریٹیجی یہ ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس رویہ کو پہچانا جائے اور پھر اساتذہ اور والدین اور کمیونٹی کی مدد سے اسے حل کیا جائے ، لیکن شیرون مسیح کے معاملے میں نئے اسکول کے اساتذہ خود فریق تو نہ بنے مگر انہوں نے جلتی پر تیل ڈالنے والے گروپ کا کام کیا ۔
جیسا کہ اس رویہ میں تین کردار بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اس کا شکار بن رہا ہوتا ہے دوسرا وہ جو اپنے غرور اور ہٹ دھرمی کے مظاہرے کے ذریعے شکاری کا کردار ادا کرتا ہے اور تیسرے وہ جو شکاری کو اکساتے ہیں اور اسے بد سے بدتر کی طرف جانے میں اپنی چکنی چپڑی باتوں یا لگائی بجھائی والی عادتوں کے ذریعے غصے اور نفرت کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں ۔
اس لئے اساتذہ اور والدین کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے کہ اپنے شاگردوں اور بچوں میں موجود ایسے رویوں کو پہچانیں اور اسے نارمل بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ، اس لئے کہ سکول محض دو اور دو چار سکھانے اور مضامین لکھنے کی جگہ نہیں بلکہ نئی نسل کی تربیت کی بنیادی آماج گاہ بھی ہے جہاں اس کی متوازن شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے ۔ جو بچے بچپن میں بلئنگ کا شکار رہے ہوتے ہیں ان میں خوف اور بے بسی رچ بس جاتی ہے وہ خود اعتمادی کی کمی کے با عث ترقی کے بہت سے مواقع کھو دیتے ہیں انہیں ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ اگر انہوں نے یہ قدم اٹھایا تو جانے ان کے ساتھ کیا ہو۔ جبکہ شیرون مسیح جیسی بلیئنگ تو انہیں زندگی کی انمول نعمت سے ہی محروم کر سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر وہ خود بلی رہے ہوں تو وہ آیندہ زندگی میں بھی ہر چیز چھین جھپٹ کر حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔اور اگر انہیں ان کی من پسند چیز نہیں ملے تو فرسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جو آگے بڑھ کر ڈپریشن اور دوسرے ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور معاشرتی طور پر بھی پسندیدہ انسان کی حیثیت سے نہیں دیکھے جاتے۔ بلیئنگ میں ملوث تیسرے بلواسطہ کردار بھی معاشرے میں پسندیدہ شخصیت کے حامل نہیں ہوتے اور اگر اس مسئلہ کو نظر انداز کیا جاتا رہے اور اس کے تدارک کی کوئی تدبیر نہ کی جائے تو پورا معاشرہ ہی بیمار ہوتا چلا جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ ایک نہایت اہم بنیادی اہمیت کا حامل سماجی مسئلہ ہے جس پر وزارت تعلیم ، والدین اور اساتذہ کو بھرپور توجہ دینی چاہئے تاکہ آنے والی اور موجودہ نسل کا مستقبل بلیئنگ جیسے قبیح رویے سے محفوظ اور خوش گوار بنایا جا سکے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے