ازکوئٹہ
28 اگست 2017

بخدمت جناب ؍ محترمہ

’دُکھ ہمیں فولاد بناتا ہے اور پیار ہمیں زندہ رکھتا ہے!‘
اپنی بہت ساری یادوں میں سے ایک بہت اہم یاد جو انسان اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ اس کی تحریر ہے ، اس کا خط ہے۔جب کوئی بھی پرانا خط پڑھا جائے تو وہ ایک رابطہ بن جاتا ہے اُس انسان سے،اُس وقت سے ،اُ ن حالات سے۔ یہ محض ایک تحریر نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی ترجمہ کردہ کتاب’ جینی مارکس کے خطوط ‘ جب میں نے پڑھنا شروع کی توسچی بات یہ ہے کہ چند خطوط تک تو مجھے ایک غیر اہم سا کام لگا کہ مارکس بہت بھی بڑا انسان ہو جائے ، یا جینی مارکس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو جائے ،مجھے ان کے ذاتی خطوط پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔اسی خیال کے ساتھ آگے بڑھتی گئی تو پتہ چلا کہ وہ صرف ذاتی خطوط ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں تحریک سے متعلق، تحریک کی راہ میں حائل مشکلات، تحریک کے لیے جدوجہد، تحریک کے ان کی ذاتی زندگی پر اثرات کے قصے تھے۔
اس کتاب کا نام جینی کے خطوطہے ۔ یہ 167صفحات پر مشتمل ہے۔
جینی نے مارکس اور اس کے دوستوں کوخطوط میں اپنے آلام و افکار کا تذکرہ، دشمن کی شکایت ہو یا دوست کی حکایت، بچوں کی بیماری ہو، کرب و اذیت ہو یا بھوک و آلام سب کا ذکر اس تفصیل سے کیا کہ اُس دور اور اُن کے حالات کی مکمل تصویر نظروں میں گھوم گئی۔
جینی نے چاہے اپنے شوہر مارکس کو خطوط لکھے یا اس کے دوستوں کو، تکلفات اور تصنع سے پاک صاف ستھرے الفاظ میں گفتگو کی۔ یوں کہ جیسے وہ سامنے بیٹھ کر گفتگو کر رہی ہو۔
ان خطوط کے چند ٹکڑے :
’’ میں جانتی ہوں کہ ہمارے قدم چٹان جیسی مضبوط زمین پرنہیں جمے ہوئے مگرایک مضبوط زمین ہے کہاں؟۔کیا ہر جگہ زلزلے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اوراس زمین کی کھوکھلی بنیاد نظر نہیں آتی جس میں سماج نے اپنے مندر اور دکانیں کھڑی کر رکھی ہیں‘‘ ۔
جینی کے مانچسٹر میں موجود مارکس کو لکھے گئے خط کے چند فقرے دیکھئے؛ ’’بلا شبہ ہم نے بڑی دیر میں سچے، وفاداراور نقلی دوستوں میں تمیز سیکھ لی ہے۔ جھوٹے لوگوں اور بلند مرتبت آدمیوں میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ شکوک اور خوف انسان کو بری طرح نرغے میں لیتے ہیں اور آخرمیں انسان ہر چیز سے مایوس ہو جاتا ہے، بالخصوص جب آپ عالمگیر دوغلاپن، کمینگی اور بزدلی دیکھتے ہیں‘‘۔
میرے سلجھے قاری! بڑے لوگ بہت خوددار طبیعت کے واقع ہوتے ہیں اور ان کو جس طرح کے بھی حالات درپیش ہوں لیکن وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اولاد بھی انسان کو مجبور کرتی ہے ۔ مارکس، جینی اور اس کے بچوں پر جو برے حالات آئے ،وہ مارکس کے ایک زبردست مقصد کے لیے جدوجہد کی وجہ سے تھے ۔ یوں تو پوری قوم اس کی قرض دار تھی اور ہے اور حق تھا کہ ان کے مشکل حالات میں ان کی مدد کی جاتی، بہرحال جینی نے مارکس کے دوستوں کو حالات بتا کر مدد چاہی۔ اینگلز اور جوزف وی دیمیر کے اس سلسلے میں لکھے گئے خطوط پڑھئے کہ اتنے بڑے لوگ کن حالات سے گزرے:
’’آپ کو پیسے کے لیے لکھنا میرے لیے ایک نفرت انگیز بات ہے۔ آپ نے پہلے بھی اکثر ہماری مدد کی ہے مگر اس بار میرے پاس کوئی اور جائے پناہ نہیں ہے، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میں نے بون میں ہیگن کو لکھا، جارج جنگ کو لکھا، کلس کو لکھا، اپنی ساس کو لکھا، برلن میں اپنی بہن کو لکھا۔ ہولناک خطوط! کیا آپ ہمیں کچھ بھیج سکتے ہیں؟ تنور والے نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ جمعے کے بعد وہ روٹی نہیں دے گا‘‘۔(ایسے تندرو والے کے تندور میں شالا کبھی آگ نہ جلے!)
ایک اور ٹکڑا دیکھئے؛ ’’حالات البتہ مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ میں التماس کرتی ہوں کہ جتنی جلد ہو سکے کچھ پیسے بھیج دیں جو اخبار ریویو سے آچکے ہوں یا آتے ہوں۔ ہمیں ان کی شدید ضرورت ہے۔میرا خاوند ایسے معاملات کے بارے میں بہت حساس ہے اور وہ ڈیموکریٹک بھکاری کا کشکول اٹھا کرخود کو ذلیل کرنے کی بجائے وہ سب کچھ قربان کردے گا جو اس نے چھوڑا ہے جس طرح کہ عظیم لوگوں نے کیا ہے‘‘۔(عظیم آدمی کی عظیم ساتھی!!)
اپنے خطوط میں جینی ،کارل مارکس کی کتاب ’ کیپٹل‘ اور اس دوسرے مضامین کے لکھنے کے مراحل اور اس کے مکمل ہونے کے لیے پریشانی کا ذکر بھی جینی جگہ جگہ اپنے خطوط میں کرتی رہی۔
آپ ان خطوط کے ٹکڑے پڑھ کر جان گئے ہوں گے کہ جینی اپنے شوہر سے کس قدرمحبت کرتی تھی ، اس محبت میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر رہی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ میں تمہارے بارے میں محض تنہائی اور خاص مواقع پر نہیں سوچتی، میری تو ساری زندگی اور سارا وجودتمہارے بارے میں سوچ میں گُم ہے۔ مارکس کی تحریک اور جدوجہد کا پورا پورا حصہ تھی وہ۔اس کی دردناک بیماری کا احوال بھی وہ گاہے بگاہے اس کے دوستوں کو بڑے درد سے بتاتی رہتی تھی۔ اس کی بیماری کی تکلیف پر تکلیف کا اظہار کرتی اور اس کی بہتر طبیعت پر خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ بعض اوقات وہ حالات پر جھنجھلا بھی جاتی جیسے کہ؛ ’ ’مگر جو چیز واقعتا مجھے اپنے وجود تک کچل کر رکھ دیتی ہے اور میرے دل کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ یہ ہے کہ میرے خاوندکو اس قدر حقارت برداشت کرنا پڑتی ہے ‘‘(اور پھرتاریخ نے ان حقارت کرنے والوں کو حقارت کے مستقل کوڑے دان میں ڈال دیا)۔ لیکن پھر دوسری طرف اس کی امید بھی دیکھئے ؛’ ’وہ مہینہ ممکن ہے عالمی تاریخ میں اس عظیم الشان جدوجہد کے دیکھنے کا مقدر رکھے، جس میں ہم سب ایک بار پھر ایک دوسرے کاہاتھ مضبوطی سے تھامیں گے‘‘۔(اور یہ مقدر بالآخر دنیا نے کھلی نظروں سے دیکھ لیا)۔
ذہنوں کو بدل دینا ،تبدیلی لانا ،اپنی فکر کو دوسروں کے دماغ میں انڈیلنا اور اس پر ان کومتفق کرنا، انقلاب لانا ، یہ سب اتنا آسان نہیں۔ ایک مستقل،مزاجی، جدوجہد، قربانی صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے خاندان، پورے شہر، ملک، پوری قوم کی قربانی، ہر طرح کے حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا، دوسروں کو اپنے ساتھ لے کے چلنے کی صلاحیت رکھنا اور سب سے بڑھ کر منزل کا واضح ہونا کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ مارکس کی کامیابی میں جینی نے ہر قدم پر ساتھ دیا اور اپنے شوہر کو سُرخرو کیا ، خود سُرخُرو ہوئی۔
میرے پیارے قاری، آپ یہ کتاب پڑھیے صرف خطوط سمجھ کر نہیں بلکہ، کارل مارکس کی سرگزشت ، اس کی تحریک کا احوال سمجھ کر۔۔۔ اچھے انسانوں کی رفاقت کا روزنامچہ سمجھ کر، آپ یقیناًاس سے محظوظ ہوں گے۔
فقط
آپ کی سنگت
مبصر ،عابدہ رحمان

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے