محترم صاحب صدر تقریب جناب افتخار عارف صاحب ، میرے ہم عصر ساتھیو، خواتین وحضرات کے علاوہ میری اپنی خاتونِ خانہ ۔
السلام علیکم
آج یہ تقریبِ رونمائی میری زندگی کا پہلا حادثہ نہیں۔ اس سے پیشتر 1964میں 29اور30اگست کی درمیانی شب میں نے اپنی دلہن کی رونمائی کے موقع پر ایک عدد سونے کی انگوٹھی اور اس میں جڑا قیمتی ارغوانی پتھر اپنے ناتواں ہاتھوں سے ان کی حنائی انگشت میں پہنائی تھی۔ یہ انگوٹھی میرے سکول کے ہم جماعت انور صراف نے تحفتاً مبلغ ایک سو پچیس روپے سکہ رائج الوقت کے عوض مراحِم خسر وانہ کی صورت عطا کی تھی۔ اس زمانے میں سونے کا بھاؤ سو روپے فی تولہ ہوا کرتا تھا اور میری ماہانا تنخواہ نوے روپے ہوا کرتی تھی ۔ میرے صراف دوست نے سرخ یا قوت میرا دائچہ بلا اضافی معاوضے کے تیار کروانے کے بعد لگوایا تھا کہ اس پتھر کے کے تحت میری بیوی تمام عمر میری باندی بن کر رہے گی ۔ زائچہ تیار کرتے وقت غالباً ایک آدھ انچ کی کسررہ گئی ہوگی۔ کیونکہ تادم حاضر معاملہ بالکل الٹ رہا ہے ، خود مرحوم انور کی وجہ شہرت اس کی زن مریدی تھی۔
میری شریکِ حیات میرے بارے میں کبھی بدگمان نہیں رہی ہیں۔ مجھے خوش خبری سنائی تھی کہ جس قسم کے انسان ہیں آپ سیدھے جنت کو سدھاریں گے ۔ فوری طور پر ذہین میں حُوروں کا تصور اُبھرا۔ میری رال ٹپکنے لگی۔ تاہم شریک حیات کی دلجوئی کے لیے میں نے بھی کہہ دیا کہ جتنی عبادت گزار ہیں ‘ آپ کا ٹھکانہ بھی جنت ہوگا ۔ کہنے لگیں کہ سنا ہے کہ نیک بیبیاں جنت میں حوریں بن کر اپنے خاوند کے ساتھ رہیں گی ۔ مجھے تو جیسے کسی ناگن نے ڈس لیا ہو۔ ’’کیا کہا جنت میں۔ یعنی جنت میں بھی تم میرا پیچھا نہیں چھوڑ و گی؟۔ تم تو جنت میں مجھے حوروں کی طرف کن آنکھوں سے بھی تانک جھانک نہ کرنے دوگی۔ نہیں مجھے جنت نہیں چاہیے۔ میں دوزخ میں ہی آسودہ رہوں گا۔ ‘‘
ہاں تو بات ہورہی تھی رونمائی کی اور جاپہنچی دوزخ جنت تک کہ حسب اعمال ہم سب کا انہی میں سے ایک ٹھکانہ ہوگا ۔ دوسری رونمائی میری تحریر کردہ پہلی کتاب’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کی ہوئی۔ یہ کتاب طنز ومزاح پر مبنی افسانوں اور احوال واقعی پر مشتمل تھی۔ تیسری رونمائی میری دوسری کتاب ’’بلوچستان میں سٹیج ڈراموں کی روایت ‘‘کی ہوئی اور آج یہ چوتھی رونمائی فی الحال آخری کتاب’’رودادِریل کی‘‘ ہے جو زندگی کے نشیب وفراز میں ریلوے سے متعلق میرے تلخ وشیریں تجربات اور مشاہدات کا اظہار ہے کہ اچھے وقتوں میں ریلوے کا ادنی ساحصہ رہا ہوں۔
میری تحریروں اور گفتگومیں طنز ومزاح کا پہلو واقف کاروں کی نظر میں نمایاں رہتا ہے ۔ لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ میری زندگی آرام سے مبرّا ہے حالانکہ میری زندگی تلخیوں سے بھی عبارت ہے ۔ میری تلخی حالات اس وقت بامِ عروج پر پہنچی جب ملازمت کی مدت ختم ہونے پر میں جو نہی نوکری کے جھمیلوں سے آزاد ہوا تو فرصت کے ایّام کو سیروتفریح اور نامکمل جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے پروگرام مرتب کرنے لگا۔ میری شریکِ حیات کو اس ہی لمحے یکا یک مجھ سے عشق ہوگیا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ تدبیر کُند بندہ، تقدیر کُند خندہ۔ سوشامت اعمالِ ما۔ میری راحت جاں، میری دشمن جاں بن بیٹھی ۔ انہیں اچانک تنہائی کے ان جانے خوف نے آدبوچا۔ میرے بارے میں ان پر یہ خواہش غالب آگئی کہ ’’یونہی پہلو میں بیٹھا رہوں باہر جانے کی خواہش نہ کروں‘‘ ۔ ان کا اصرار تھا کہ میں ان کی نظروں سے لمحہ بھر کے لیے بھی اوجھل نہ ہوں۔ گھر کے باہر قدم نہ رکھوں ۔ اس پر ستم یہ کہ عزیزم افتخار عارف کی شہرہِ آفاق غزل نے جلتی پر تیل کاکام کیا کہ ’’کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو’’میری شریک حیات بار ہا اس غزل کو میڈم نور جہاں کی طرز پر گنگنانے کی کوشش کیا کرتی۔
آپ سے کیا پردہ میں اس کیفیت کو ان کے مجھ سے عشق کی انتہا سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ بھی بڑھاپے کا عشق۔ مگر پتہ چلایہ تو ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کا علاج کسی مُلّا ، پنڈت ، وید ،حکیم یا ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ میں ان جھمیلوں میں کافی وقت اور سرمایہ کا ذیاں کرچکا ہوں ۔ میری اہلیہ کو ڈاکٹروں نے مسکن دوائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔میں نے بھی التجاء کی کہ آپ یہ دوائیں استعمال کریں کیوں کہ میں از حد پریشان ہوں۔ کہنے لگیں آپ کی پریشانی دور کرنے کی مجھے ازحد فکر ہے ۔ آپ ایسا کریں کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں کھانا شروع کردیں۔ چنانچہ مریضہ کے بجائے میں نے وہ دوائیں استعمال کرنا شروع کردیں۔ مگر مجھے سوائے نشے میں دھت رہنے کے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں انتہائی تکلیف دہ کیفیت سے دوچار رہنے لگا۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ایسا انسان جو کھیلوں کی متعدد تنظیموں کا عہدیدار رہا ہو، جو سٹیج پر ڈراموں کا نمایاں کردار کا حامل ہو، جو شخص ادبی محفلوں میں بھر پور شرکت کرتا رہا ہو، جس کی شامیں کسی صحت مند سرگرمی میں گزرتی رہی ہوں ، جو دوستوں کی محفلوں کو قہقہوں اور لطیفوں سے گرماتارہا ہو، جو اپنے احباب میں مقبول رہا ہو، ایسے شخص کا یکایک دنیا سے قطع تعلق کر کے نظر بندی کو گلے لگا لینا ایک المیہ سے کم نہیں۔ میں مکمل طور پر عملاً اپنے گھر میں مقید ہوگیا۔ مجھے کسی بھی غم یا خوشی کی تقریب میں شمولیت کی اجازت نہ تھی۔ نوبیا ہتا جوڑے سلامی وصول کرنے خود ہمارے گھر چلے آتے ۔البتہ کسی میّت کو آخری دیدارکے لیے سفر آخرت کے دوران ’’بریک جرنی‘‘ کے طور پر اپنے گھر مدعو کرنا اخلاقاً اور مذہباً ناروالگتا تھا حالانکہ ہمارا گھر قبرستان کی طرف جانے والے راستے میں تھا۔
ان اذیّت ناک حالات میں کبھی رونے لگتا کبھی ہنستا۔ یوں ہنسنے رونے کی ملی جلی کیفیت کے زیر اثر شاید میں ہوش وحواس کھو بیٹھتا اور پیر ہن کو تار تار کئے گلی کو چوں میں نکل پڑتا لیکن میرے بچوں نے اس مشکل وقت میں مجھے سنبھالا ۔ اور میں اللہ کو پیار اہونے کے بجائے بیوی کو پیار اہوگیا۔ بچوں نے میری بہت دلجوئی کی۔
کہتے ہیں’’خود کردن را علاج نیست ‘‘ مگر میں نے خود ہی اس ذہنی کو فت کے بھنور سے نکلنے کی راہ تلاش کرلی۔ میں نے اپنی علیل بے بس اہلیہ سے محاذ آرائی ترک کر کے ملائم نرم سمجھوتے کی چادر اوڑھ لی اور ردعمل کے طور پر اخبارات اور رسائل کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں کہ رنج والم کا زہر جسم وروح میں جب بُری طرح سرایت کر جائے تو رگ وپے سے طنز ومزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔ یوں میں نے تلخی حالات سے منہ موڑ کر طنز ومزاح کا وطیرہ اختیار کر لیا۔
کوئٹہ میں زندگی کے 75سال گزارنے کے بعد ہم دونوں اپنے بچوں کے پاس اسلام آباد آگئے۔ ماحول کی تبدیلی سے یہاں میری اہلیہ کے رویہ میں بھی خوشگور تبدیلی آئی ہے ۔ گرچہ پرنالہ وہی رہا یعنی مجھے اب بھی گھر سے باہر نہیں جانے دیتیں لیکن ایسا نہیں کہ مجھے کہیں بھی جانے نہیں دیتیں۔ مجھے واش روم میں جانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
میں آپ سب کا خصوصاًصدر تقریب اور مہمانانِ خاص کا تہ دل سے اس تقریب میں شرکت کا ممنون ہوں۔ میں اپنے لخت جگر محمد عثمان قاضی صاحب کے لیے دعا گوہوں جنہوں نے اس شاندار تقریب کا اہتمام کیا ۔ میں اس وقت اپنے پیارے بیٹے سلیمان قاضی جو اس وقت ملک سے باہر ہیں، کی کمی بری طرح محسوس کر رہا ہوں کہ اس کتاب کا اِجراء ان کی کاوشوں کا تمام تر مرہونِ منت ہے۔
والسلام

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے