ستمبر 2017ء

اب کی بار سنگت کے دیوان میں جوں ہی داخل ہوئی تو دیکھا کہ بڑے سے ہال میں فرشی محفل سجی ہوئی ہے۔ قالین پر چاروں جانب گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے اورہمارے شعرا ٹیک لگائے محوِ انتظار تھے ۔ پان دان ، چہلم اور سونف کی تھال پورے ہال میں گھوم رہی تھی اور مہک پوری فضا میں رچی بسی تھی۔ مشاعرہ شروع ہواہی چاہتا تھا۔ ہم بھی حال حوال کرنے لگیں اور دوسری جانب قلا خان خروٹی بھی حاضرینِ محفل سے حال حوال کر رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں شان گُل نے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے شاعروں کا تعارف کرانا شروع کر دیا ۔ شمعِ محفل چوں کہ شان گُل کے پاس تھی تو لہٰذا انھوں نے مشاعرے کا باقاعدہ آغاز پبلونرودا کی نظم کے بلوچی ترجمے ’ چٹ نا امیدی ئے شیئرے‘سے کی اور داد پائی ۔ اس کے بعد انھوں نے دعوت دی نوشین قمبرانی کو جو تالیوں میں مائیک تک آئیں اور اپنی نظم ’ عظیم فکریں ‘ جو سنانا شروع کی کہ؛
یہ ہست کے قہوہ خانے کی میز پر ایش ٹرے میں جتنی؍عظیم فکریں بکھری پڑی ہیں/دریدہ رنگوں خیال و معنی کی نوحہ خواں ہیں !
نظم آگے بڑھتی چلی گئی اورآہ نما، واہ کی صدائیں گونجتی رہیں ۔ ’ وقت کی نیم شبی‘ بھی سنائی اور داد پائی۔
ان کے بعد شان گل نے اگلے شاعر کو دعوتِ کلام دینے سے پہلے’ بورژوا سیاست‘ پر بات کی کہ صورت یہ ہے کہ عوام کو سیاست، مملکت ، سی پیک ، چین دوستی سے دور رکھ کر سیاست کی جاتی ہے ۔ عوام صرف اس لیے ہے کہ ان پر سیاست کر کے بورژوا سیاست کو دوام دیا جائے۔ اچھا ہوا کہ نئے شاعر دلاور آذرؔ کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی گئی ورنہ توہمارے ذہن میں تو ہر چیز کے ساتھ ساتھ شاعری بھی بورژوائی ہونے جا رہی تھی۔
بدن میں پھیل رہی ہے یہ کائنات آذرؔ
ہماری آنکھ کی پُتلی سمٹ رہی ہوگی
محفل نے ایک اورقدم لیا اور اب نور محمد شیخ گویا تھے اور محفل ہمہ تن گوش؛ ’ زندگی اپنے آج میں زندہ رہتی ہے‘ کا آخری حصہ پڑھ کر جب اُٹھے تو تالیاں دور تک ان کا ساتھ دیتی رہیں ۔
یاد رہے اے نور؍زندگی؍اپنے آج میں زندہ رہتی ہے؍اور اپنے آگے کی جانب سفر کرتی ہے!
اب ہم نے سٹیج کی اَور جو رخ کیا تو کوئی نیا چہرہ نظر آیا۔ اویس اسدی اپنی نظمیں سنا رہے تھے، جنھیں سن کر لگا کہ یہ کسی طور کوئی نئے شاعر نہیں ہو سکتے ،بس ہم ہی واقف نہیں کہ اس قدر پختگی تھی ان کی شاعری میں ۔
جنوں نا پید ہوتا جا رہا ہے
اور خِرَد کو فیصلہ کرنا نہیں آتا!
اس پر تو داد وصول کی ہی لیکن جب انھوں نے ’ جانے کتنی مدت سے‘ سنانا شروع کی تو مکرر ، واہ واہ کے ساتھ تالیوں کا اک طویل سلسلہ رہا، اور یکے بعد دیگرے ان سے چار نظمیں سن لی گئیں۔
شان گل جوں ہی ناز بارکزئی کو سٹیج پر بلانے لگے تو ان کو بلانے، سٹیج تک آنے اور نظم سنانے کے وقفے میں بزنجو صاحب نے بابا بزنجو کو یوسف مگسی صاحب کا تسلسل کہا ،تو ایک کونے سے سلیم کر دصاحب نے بھی آواز لگائی کہ میر یوسف عزیز اور بابا بزنجو تو ایک ہی قافلے کے مسافر تھے اورخاموش ہو گئے کہ ناز اپنی نظم’ میں نے شنگار چھوڑ دی‘ شروع کیا ہی چاہتی تھی۔ جوں ہی وہ اس مقام پر پہنچی؛
ہاں اب میں نے شنگار چھوڑ دی؍اب شنگار اس دن ہو گا؍جب صبح کا روشن سورج؍اپنی روشن لہروں کو، میری روح میں نچھاور کر دے۔۔۔
تو ہال واہ واہ کی ردھم کے ساتھ بجنے لگا اور واہ واہ کی اس گونج میں عابدہ رحمان نے بہ آوازِ بلند کہا ’ کیا کیا موتی ہیں سنگت میں ہمارے پاس اور کہاں کہاں بکھرے ہیں ‘ اور پھر جوش میں آکر کہا کہ ’ یہ انقلابی عمل ہی ہے جو ذہنوں کو آزاد کرتا ہے‘۔
مائیک جو شان گل کے حوالے ہوا تو انھوں نے شاعر کو بلانے سے پہلے ’ بزنجو کی صد سالہ تقریبات‘ کی جھلک ایسے انداز میں دکھائی کہ حاضرینِ محفل کے لب بے اختیار مسکرا اٹھے۔سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا جیسے۔
مصطفی شاہد کی ’ وجدان‘ سن کر تو سب جیسے وجدان میں آگئے۔
اب شمعِ محفل ثروت زہرا کے پاس آئی اور انھوں نے اپنی نظم ’ لکیر‘ پڑھنا شروع کی ؛
رتھ فاؤ؍کاش تم نے؍کوڑھی دماغوں کے؍علاج کے لیے بھی کوئی نسخہء اکسیر؍تجویز کر دیا ہوتا!۔
تو کچھ دیر کے لیے تو تمام حاضرینِ محفل گُنگ ہو گئے، داد دینا بھی بھول گئے۔۔۔اک لمحے کو تو سانس بھی نہ لیا گیا، پھرمحفل میں وہ واہ واہ ہوئی کہ رتھ فاؤ کی آنکھیں بھی خوشی سے چمکنے لگیں۔
رتھ فاؤ! مگر مجھے معلوم ہے؍یہ لوگ جنت اور جہنم کے درمیان کی ؍لکیریں ٹاپتے ٹاپتے؍دیکھتے رہ جائیں گے؍ور تم ابد تک تختِ خدا وندی؍کے طلسماتی جلو میں جھلملاتی رہو گی!۔
یاسین ضمیرنے کہا،
تم جو کہتے ہو تیری ذات سے وابستہ ہے
میں جو کہتا ہوں وہ حالات سے وابستہ ہے
واہ جی، کیا خوب کہی۔ بورژوا شاعری پہ خواب تبرا تھا۔اسامہ ا میر نے پانچ شعر سنائے، مگر ایک سے ایک منتخب شعر۔ مطلع ہی سرشار کرنے دینے کو کافی:
اندر باہر ایک سا موسم، ایک سی وحشت طاری ہے
تازہ تازہ شعر ہوئے ہیں، سرشاری سرشاری ہے
مزہ ہی آ گیا۔ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ نورخان محمد حسنی بھی شاعری کرتے ہیں یا پھر محفل دیکھ کر ان پہ قابو نہ رہا اور تازہ غزل سنا گئے، خوب داد پا گئے۔ وصاف باسط شعر سنائیں اور داد نہ پائیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مختصر بحر کی اچھی غزل سنائی۔ ثانی خان بھی ان کے ساتھ ہی ایسی ہی سہلِ ممتنع کی غزل سنا گئے۔
حمیرا صدف حسنی نے رابعہ خضداری پہ نظم سنائی اور خوب سنائی۔داد میں پھول دینے کی کوئی رسم ہوتی تو ہم انہیں پورا گلدستہ پیش کر دیتے۔ زرک نے جوآں سال کی بلوچی شاعری کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ ہم جیسے بلوچی ناشناس لوگوں کے لیے تو یہ گویا میٹھی کھیر جیسا تھا۔ منہ میٹھا ہو گیا۔ مزہ ہی آ گیا۔
شان گل جانے کسے اب دعوت دینے والے تھے کہ انھوں نے تمہید باندھنا شروع کی مرد اور عورت شاعروں پر ۔اسی بات کو سبین علی لے کر چلیں کہ پدر سری سماج نے عورت کے ساتھ بطورِ مصنفہ بھی استحصال سے کام لیاکہ میر تقی میر کی بیٹی بیگم اور اوررنگ زیب کی بیٹی زیب النساتحریروں اور شاعری کو بھی پسِ پردہ رکھا گیا۔
اب جن باکمال شاعرہ کو دعوتِ سٹیج دی گئی وہ تھیں ثبینہ رفعت جو تالیوں کی گونج میں سٹیج تک آئیں ۔ تالیوں نے کافی دیر بعد جب انھیں لب کشائی کا موقع دیا تو محفل تو انگشت بہ دندان رہ گئی۔
’ لا علاج‘
سمندر نے؍لہروں سے کہا؍اتنے سارے زخموں کو دھونے کے لیے؍پانی کہاں سے آئے گا!
اور پھر جو انھوں کہا؛
رات میرے؍آنچل میں؍اتر کے آسماں سے؍کتنے ستارے آگئے؍مجھ کو یہ خبر ملی؍تم میرے شہر آئے تھے!
اور اٹھنے والی تھیں تو مزید نظمیں سنانے کی فرمائش پر وہ نظمیں سناتی چلی گئیں ، ہم سنتے چلے گئے۔ ’ آخری پتا‘ کا آخری حصہ ؛
دل نہ جانے کیا ہوا؍اب کے بھی؍اس کے لیے؍میں چھپا کے رکھ لیتی؍کچھ بھی باقی بچتا تو!
آخری فقرہ توبس آخری ضرب ثابت ہوا کہ محفل واہ واہ سے گونج اٹھی۔ ان الفاظ نے تو جیسے حاضرینِ محفل کے علاوہ ہال میں رکھے گلاس، پیالیوں بلکہ ہر شئے نے خوب زور زور سے کھنک کرداد دی۔محفل تو انہوں نے لوٹی گویا۔ سنا ہے اگلے زمانوں میں بادشاہ جب مشاعرے میں کسی سے خوش ہوتے تو انہیں خلعتِ فاخرہ سے نوازتے اور کوئی قیمتی ہار تحفے میں دے دیتے تھے۔ ہم فقیر لوگ تو دل کے بادشاہ ہیں، اس کے سوا اور کوئی دولت ہے نہیں، سو اپنا دل ثبینہ جی کو پیش کیے دیتے ہیں۔
مشاعرے کے اختتام پر چائے پر سب مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے ۔ اثیر عبدالقادر صاحب نے ’ ملا محمد حسن براہوئی‘ کی شاعری، شخصیت اور وطن سے محبت میں انگریزوں سے جنگوں کے بارے میں بتایا۔ اسی اثنا میں ثبینہ صاحبہ جو ہماری جانب آنے لگیں تو ساتھ کھڑے ڈاکٹر مزمل سے افسانوں کی بات لے بیٹھیں ۔ ان کو بھی شاعرکی طرح بس چھیڑنے کی دیر تھی کہ اپنا سرائیکی قصہ ’ پہلا آدمی ‘سنا دیا جس میں عورت اپنی پہلی محبت تو نہیں بھولی لیکن خلافِ معمول بات یہ ہو گئی کہ غیرت کے نام پر پہلی بار عورت کی بجائے مرد قتل ہوا۔ سرائیکی میں قصہ سننے کا اپنا مزہ تھا۔ اُن کی دیکھا دیکھی فرزانہ خدرزئی ، ننگر چنا اور عبدالوحید نے بھی اپنے افسانے سنائے جو سادہ سی مگر پُرتاثیرکہانیاں تھیں۔
ادب کے ساتھ ساتھ جو بات سائنس اور پھر ملکی معیشت کی جانب مڑ گئی تو عابدہ نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کا اہم ستون ہے لہٰذا اس کے مسائل حل کیے جائیں۔ معیشت ہی کی بات پر پروفیسر کرامت علی نے پاکستان کی ترقی کا انحصار بیرونی اور اندرونی عوامل بتایا اور کہا کہ انتہا پسندی کو ختم کر کے عوامی فلاح و بہبود کی بات کی جائے۔ اعظم زرکون ’لیبر قوانین‘ کا تذکرہ لے بیٹھے تو سعدیہ مگسی نے جلدی جلدی مختصراًآئزک نیوٹن کے حالاتِ زندگی اور کارنامے سنا ڈالے۔ اسی اثنا میں ہانی بلوچ نے بلوچی میں کچھ گفتگو کر ڈالی، جو ہمیں اتنی سمجھ آئی کہ سچ اور سچائی پہ کچھ لیکچر نما تھا۔۔۔مگر اچھا تھا۔ موضوع کچھ بھی ہو، بلوچی میں سننا ہی ایک خوش گوار تجربہ ہے۔
اسی طرح خوب صورت اور مہکے ماحول میں شگفتہ لوگوں کی شگفتہ گفتگو کے ساتھ اس خوب صورت نشست کا اختتام ہوا۔
یوں اس بار سنگت کا دیوان مشاعرے کے نام رہا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے