لینن نے اس دور میں زندگی گزاری اور کارہائے نمایاں سرانجام دیے جب آزاد مقابلہ کی سرمایہ داری کی جگہ اجارہ دار سرمایہ داری لے رہی تھی ۔ جب سوشلزم کے قیام کا سوال نظریاتی حدود سے آگے بڑھ کر دعوتِ عمل دے رہا تھا جب انقلاب ۔۔۔۔۔۔ یعنی سماج کا سوشلسٹ احیا روس کی پرولتاریہ اور بعد ازاں دیگر ممالک کے محنت کشوں کا واحد نصب العین بن گیا تھا۔ لینن نے اپنی تمام تر توجہ اس نصب العین کے حصول اور تکمیل کے لیے وقف کردی۔ لینن محنت کشوں کی اولین جماعت کا بانی اور رہنما بنا جس نے پورے عزم کے ساتھ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ اختیار کیا ۔ وہ انقلاب کا بانی اور رہنما تھا اور انسانی تاریخ کی پہلی سوشلسٹ ریاست کا سربراہ بھی۔ بعض لوگ ان حقائق کی روشنی میں لینن کو یوں پیش کرتے ہیں کہ وہ محض نظریہ دان کی بجائے ایک سیاسی کارکن اور سیاست دان تھا اور اس طرح اسے مارکس کے مد مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔
کیا لینن کو اس طرح متِصف کرنا اور اسے مارکس کے مدِ مقابل کھڑا کرنا جائز ہے ؟۔ یہ بالکل غلط ثابت ہوجاتا ہے ۔ جب ہم لینن کی سوانح عمری، تعلیمات اور کارناموں کا اسی طرح مطالعہ کرتے ہیں جس طرح ہم کارل مارکس کی سوانح عمری، تعلیمات اور کارناموں کو پڑھتے ہیں۔
انقلاب کی تیاری اور تکمیل کے لیے زبردست نظریاتی اور سائنسی کام، خصوصاً سماجی سائنس کے تمام شعبوں میں بے حد گہری عملی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانے وقتوں کے اخذ کردہ نتائج یا مسلمہ سچائیاں جو اپنے دور میں سوفی صد درست مانی گئی ہوں ان کا آج کے دور میں اطلاق شدید غلطیوں کا باعث بن سکتا ہے۔بیسویں صدی کے آغاز میں انقلابیوں کو بہت سے ایسے نئے سولات کا سامنا کرنا پڑا جو کبھی پہلے نہیں اٹھائے گئے تھے ۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ آیا صرف تنہا ملک میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے نظریاتی سوالوں کے خوب سوچ سمجھ کر جوابات دینے کی ضرورت تھی اور وہ بھی تمام عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔
فلسفہ ، معاشیات ، سیاست اور سائنٹیفک سوشلزم کے میدانوں میں لینن کی زبردست تحقیق، نئے دور سے متعلق سامراج کی حقیقت اور اس کے تاریخی خدوخال، بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انقلابی عمل کی نوعیت کے بارے میں لینن کی زبردست بصیرت کے سبھی معترف ہیں۔ نہ صرف مارکسی دانشور بلکہ سب ہی متفق ہیں کہ لینن نے سماجی سائنس کے بنیادی سوالات کی بڑی محنت سے توضیح و تشریح کی ہے۔
اگر اس قسم کے بنیادی نظریاتی سوالات کا لینن کو انقلاب کی تیاری اور انقلاب برپا کرنے کے دوران میں سامنا تھا تو انقلاب کی فتح کے بعد اور سوالات پیدا ہوئے اس لیے ہم لینن کا ہی حوالہ دیتے ہیں۔
’’ اگرچہ ہم بھی جانتے تھے لیکن سرمایہ دارانہ سماج کے ماہرین اور بڑے بڑے صاحب دماغ لوگوں نے بھی درست طور پر یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ سماج کی تبدیلی تاریخی طور پر ایک ناگزیر عمل ہے اور اسے ایک مخصوص راستہ پر چلنا ہے۔ یعنی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ لازمی ہے۔ سرمایہ داری انتشار کا شکار ہونے والی ہے اور استحصالی قوتوں کی سماج سے بیدخلی بھی لازمی امر ہے ۔ جب ہم نے اقتدار حاصل کیا تو ہمیں سوشلسٹ تنظیم نو کی خاطر مذکورہ بات کا علم تھا لیکن ہمیں انتقالِ اقتدار کی صورتوں کاعلم نہ تھا اور نہ ہی ہم ٹھوس تنظیم نو کی ترقی کی رفتار کو جانتے تھے‘‘۔
انقلاب کے فوراً بعد لینن نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سوشلسٹ سماج کی تعمیر کو درپیش مسائل کی وضاحت بڑے مفصل طریقے سے کرنی شروع کی اور سب سے بڑا نظریاتی سوال جس کالینن کو سامنا کرنا پڑا یہ تھا کہ کمیونسٹ سماج کی آمد اور ترقی کے کون کون سے مراحل ہونگے۔
لینن نے مختلف حوالوں سے سرمایہ دارانہ سماج سے سوشلسٹ سماج تک عبوری دور کی تاریخی ضرورت کی وضاحت کی اور اس دور کے مخصوص خدوخال اور سماجی و سیاسی ڈھانچے کی تشریح کی۔ یعنی سماج میں انقلابی تبدیلی کے دَور کی۔۔۔۔۔۔ ایسے دور کی جب بنیادی ذرائع پیداوار کی سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کی جگہ اجتماعی ملکیت نے لینی ہو جب استحصالی طبقے اور ان کے تسلط کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی تضادات دم توڑ رہے ہوں۔ لینن کی نظریاتی اور عملی تحقیقی عسکری کمیونزم کے مختصر عرصے کے لیے بھی وقف رہی۔ اور بعد ازاں ان حربوں کو بدلنے میں جو’’ سرخ محافظوں کے سرمایہ پر حملے‘‘ کے حربے کہلاتے ہیں۔ ان حربوں کو بدل کر ایسی نئی اقتصادی پالیسی اپنائی گئی جس کا مقصد انقلاب کی حفاظت کرنا، سوشلسٹ معیشت کا قیام عمل میں لانا ، سرمایہ دارانہ عناصر کو سماج سے بتدریج بیدخل کرنا اور روس کی برقی قوت کو ترقی دینے کا سرکاری منصوبہ تیار کرنا تھا ۔ یہ کارنامے آج بھی انقلابیوں کے لیے انمول ہیں۔ اور ان کے لیے مشعلِ راہ ہیں جنہوں نے سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب قدم بڑھا یا ہے یا اس کے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ مشرق اور مغرب دونوں اطراف حالات کئی لحاظ سے روس سے مختلف ہیں۔ لینن کی تعلیمات ان نظریات اور تجاویز سے مالا مال ہیں جن کا تعلق سوشلزم کی جدوجہد کی صورتوں اور طریقِ کار سے ہے ۔یہ نظریات اورتجاویز کسی بھی ملک میں ہر قسم کے حالات میں رہنمائی کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ’’ ہاں صرف راہنمائی‘‘ ۔ کیونکہ قیامِ سوشلزم کے عظیم کام کے مخصوص طریقِ کار اور تفصیلات ہر انقلابی پارٹی اور ہر قوم کو خود طے کرنا پڑتے ہیں۔
لینن کا یہ نظریہ کہ سوشلزم کو بطور کمیونزم کے پہلے دور کے ( یعنی سوشلزم کی تعمیر و ترقی سے لے کر ایک پختہ سوشلسٹ سماج کے قیام تک) مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے آج بھی کشش کا باعث ہے ۔ بالآخر لینن نے کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے ہر دو مرحلوں کے بارے میں مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کی مزید تشریح و توضیح کی اور ان عبوری راستوں کی بھی وضاحت کی جو کمیونسٹ سماج کے قیام کے ہر دو مرحلوں سے متعلق ہیں۔ نظریاتی لحاظ سے اور آج کل میدانِ عمل میں ان کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔
جب ہمیں لینن کے عظیم کارنامے کا جو سوشلزم کی ترقی کے قوانین کا مطالعہ ہے اندازہ لگانا ہو تو ہمیں ہمیشہ یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ روس میں انقلاب کی صحیح سمت کو قائم رکھنے کے لیے فکر کی گہرائی، نظر کی وسعت اور نظریے کی بیباکی تھی اور وہ بھی ایسے روس میں جو انقلاب اور جنگ سے پریشان حال تھا۔ جہاں پیچیدہ سماجی و اقتصادی رحجانات موجود تھے اور مختلف سیاسی قوتوں، متضاد خیالات اور رویوں کی بھرمار تھی۔ اہم سیاسی رخ دریافت کرنا اور کسی بھی سقم کے بغیر اسے نظریاتی طور پر پیش کرنا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔ لینن نے یہ سب کچھ کیا اگرچہ1920 کے لگ بھگ کے عرصہ کے نئے سماج کی تعمیر کے لیے لینن کی بنائی ہوئی پالیسی کے بہت سے پہلو قدرتی طو رپر اس وقت کی مخصوص صورتِ حال نے پیدا کیے تھے تاہم اس کے سوشلسٹ معیشت اور سیاست کے اصول مرتب کرنے کے کارنامے آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں۔
معاشیات کے بارے میں لینن کے مرتب کردہ اصولوں میں یہ اصول کہ مرکزی منصوبہ بندی کو محنت کشوں کی پیش قدمی کے فروغ سے جوڑنا، جنس اور سکے کے باہمی رشتوں کو استعمال کرنا، نفع اور نقصان کی جانچ پڑتال کرنا اور کام کے لیے مادی محرکات کو مدنظر رکھنا ۔ سماج کے اجتماعی مفادات کو کلی طور پر ہر محنت کش کے مفادات کے مطابق بنانا شامل ہیں۔
سیاست کے میدان میں لینن کے مرتب کردہ سوشلزم کے اصول آج بھی انتہائی اہم ہیں۔ ان اصولوں میں مکمل جمہوریت ( جس کے بغیر بقول لینن سوشلزم کامیاب و کامرا ن نہیں ہوتی ) تاریخی جدوجہد میں کروڑوں عوام کی تخلیقی قوتوں کو جگانا اور ان کی انقلابی عمل میں شرکت کروانا اور ان سے سماج اور ریاست کے کاروبار کو چلانا شامل ہیں۔لینن کے نزدیک انتہائی اہمیت کا حامل سیاسی کام یہ ہے کہ لوگوں کو انتظامی امور سکھائے جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اشتراکی جمہوریت کا مکمل اظہار ہو۔اس طرح لینن کا جمہوری مرکزیت کا اصول جو کہ اشتراکی ریاست کی انتظامی اور دیگر سرگرمیوں کی جان ہے اور سوشلسٹ قوانین اور احکامات پر سختی سے عمل کرنے کا نظریہ آج بھی درست ہیں۔ پارٹی کے بڑھتے ہوئے رول کے بارے میں اور سوشلسٹ تعمیر و ترقی میں پارٹی کی بنائی پالیسی کے اصولوں کے بارے میں لینن کے افکار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح پارٹی اور ریاستی سرگرمیوں کے مابین رشتے، پارٹی اور محنت کشوں کی عوامی تنظیموں کی سرگرمیوں کے باہمی تعلقات اور سوشلسٹ سماج کے استحکام کی خاطر پارٹی اور عوام میں اتحاد کے لیننی نظریات آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔
یہاں ہم اس نقطہ پر پہنچ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ لینن نے مارکس اور اینگلز کے عظیم سائنسی اور سیاسی کام کو جاری رکھا۔ وہ ان کا پکا معتقد تھا اورا س کے ساتھ ہی وہ خود ایسا بڑا دانشور اور سیاستدان تھا جس نے تخلیقی انداز سے اپنے اساتذہ کی علمی دولت میں اضافہ کیا۔ وہ دنیا کے پہلے سوشلسٹ انقلاب کا منتظم بنا اور دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کا بانی بھی۔
بیسویں صدی کے سیاسی افکار اور لینن ازم کا رول کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ ہم اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ لینن ازم نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں رخنہ ڈالنے، سامراجی اجارہ داری کو ختم کرنے اور انسانیت کو سوشلزم کی تعمیر کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے نظریاتی ، علمی اور سیاسی بنیاد مہیا کی ۔
موجودہ دور کی سماجی ترقی اورخاص کر سیاسی فکر میں لینن اور لینن ازم نے جو مزید حصہ ڈالا اور جو صحیح معنوں میں تاریخی اہمیت رکھتا ہے وہ اس کی اس امر کے بارے میں تشریح و توضیح ہے کہ کیسے سابقہ نو آبادیات اور دست نگر ممالک سرمایہ دارانہ نشوونما کا راستہ چھوڑ کر سوشلزم کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کی سوشل ڈیموکریسی نو آبادیاتی غلامی کے حق میں تھی۔ مارکس اور اینگلز جنہوں نے یورپی سرمایہ داروں کی نو آبادیاتی سرگرمیوں کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ پرولتاری محکوم لوگوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہیں کے نظریات کے برعکس نہ صرف اس نے نو آبادیاتی نظام کی تائید کی بلکہ اس بدی کے لیے عدم مزاحمت کے جذبات پیدا کیے۔ اور سوشل ڈیموکریٹس کی دستاویزات میں یہ جذبات جڑیں پکڑ گئے۔ مثال کے طور پر 1954 میں انٹرنیشنل کی ایمسٹرڈم کانگرس میں وان کول نے جو رپورٹ پیش کی اس میں کہا کہ نو آبادیاتی توسیع تاریخ کا مقدر ہے ۔ اور اس کو شکست دینا قطعی نا ممکن ہے۔
نو آبادیاتی مقبوضات کی حمایت کرتے ہوئے وان کول نے وہی دلائل دیے جو سامراجی دیتے تھے یعنی کہ ’’ نصف کرہ ارض کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جو ابھی کم سن ہیں۔’’ اپنی گفتگو میں اس نے بڑا نکتہ یہ پیش کیا کہ جدید ممالک سوشلسٹ انقلاب کے بعد بھی نو آبادیات کے بغیر نہیں چل سکتے۔
لینن کے نزد عملی طور پر جانچ پڑتال کی۔ حتےٰ کہ اس نے ذاتی طور پر روس کے انواع و اطراف میں پھیلییک قومی نو آبادیاتی مسئلہ ایسے تاریخی دور کے کل مسائل کا ایک لازمی جزو تھا جس دور میں سرمایہ دارانہ تسلط نے ایک عالمگیر نظام کا روپ دھارلیا تھااوریہ بحیثیت مجموعی انقلاب کے لیے تیار تھا۔ اگرچہ اس کے کچھ حصے ابھی انقلاب کے لیے تیار نہ تھے۔( مثال کے طور پر مشرقی نو آبادیات ) ۔اس طرح اس مسئلہ کو پیش کرنے سے یہ اہم اور بنیادی نتیجہ اخذا ہوا کہ اس نئے دور کی انقلابی جدوجہدکی دوسمتوں میں ایک قریبی معروضی اور بڑے پیمانہ پر نیا زیادہ گہرا باہمی رشتہ اور باہمی انحصار پایا جاتا ہے ۔ ایک سمت جو پرولتاریہ کی ہے جو فطرتاً ہی سرمایہ دارانہ تسلط کے خلاف ہے اور دوسری نوآبادیاتی نظام کے خلاف ہے یعنی ایسے نظام کے جو غلامی ، لوٹ اور جبر و تشدد پر مبنی ہے۔
یہ فرض کر لینا غلطی ہوگی کہ پسماندہ اقوام کے لیے ترقی کے سرمایہ دارانہ دور سے گزرنا نا گزیر ہے ۔ بقول لینن ’’ نئے دور کے حالات میں جبکہ دنیا دو نظاموں میں بٹ چکی ہے ترقی پذیر ممالک کے لیے فتح مند محنت کش طبقہ کی مدد سے اقتصادی ترقی کا سرمایہ دارانہ راستہ چھوڑ کر سوشلزم تک پہنچنا زیادہ ممکن ہوگیا ہے ‘‘۔ اس راستے کو بعد ازاں انقلابی جمہوری راستہ کہا جانے لگا۔
اور یہ محض ایک علمی بات نہ تھی ۔ لینن نے بڑی لگن سے اس کی ہوئی ریاستوں کو سوشلسٹ سماج میں تبدیل کرنے کے کارنامے سرانجام دیے۔ وسط ایشیا میں سوویت جمہوریتوں کا تجربہ اور بعد ازاں عوامی جمہوریہ منگولیا کے مختصر ترین عرصہ میں قرونِ وسطیٰ کی پسماندگی سے ترقی کی جدید منزل تک پہنچنے سے اس مارکسی، لیننی نظریہ کی صحت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ پسماندہ ممالک سرمایہ داری کا راستہ چھوڑ کر سوشلزم کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
لینن ازم کے حامی جو سب سے اہم دلیل پیش کرتے ہیں اور جس سے وہ یہ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لینن کے مجوزہ نظریاتی اور سیاسی حل اب دنیا کے بیشتر ممالک میں کامیابی کے ساتھ اپنائے جاچکے ہیں اور وہ ممالک سوشلسٹ انقلاب کی طرف گامزن ہیں۔ اس کے برعکس جو سماج کی انقلابی تبدیلی کے اس لیننی نظریے کی صحت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور جاپان میں ایسے انقلابات برپا نہیں ہوئے۔
ہماری رائے میں ان دلائل میں سے پہلی دلیل بہ نسبت دوسری دلیل کے زیادہ وزن رکھتی ہے۔بے شک لینن کی تعلیمات سے اخذ کردہ سیاسی لائحہ عمل کے نفاذ کے باعث محض چھ دہائیوں میں دنیا کی آبادی کا تیسرا حصہ اس انقلابی تبدیلی سے ہمکنار ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں بہت سے دیگر ممالک کی ترقی کا رُخ بھی اسی جانب ہے اور وہ بھی لینن کے بتائے ہوئے اس سیاسی لائحہ عمل سے رہنمائی حاصل کررہے ہیں۔ ماضی کا کوئی بھی سیاسی نظام دنیا میں اس رفتار سے نہیں پھیلا جتنا کہ سوشلزم۔
جو لوگ لینن کے نظریات کی آج بھی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے مغربی سماج کی تبدیلی ناگزیر ہے اسے بدلنا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔ لیکن تبدیلی کس سمت میں؟ اس تبدیلی کی بات کرنے والے اس قسم کے دو نظاموں سے مل کر بنے ہوئے نظام کے حق میں ہیں۔ جو سوشلزم اور سرمایہ داری کا امتزاج ہو۔ ان میں سے جو خیالی سوشلسٹ ہیں ( خیالی بھی رجعتی طور پر ) اور اس قسم کے دوسرے اختراع کرنے والے دلچسپ اعتراف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسی سوشلزم کے نظریات بہت اچھے ہیں چنانچہ انہیں اپنا لیا جانا چاہیے۔ یہ ایک علامتی اعتراف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لینن نے سرمایہ دارانہ سماج کی ترقی کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسی پُر مغز باتیں کیں اور ایسے شاندار نتائج اخذ کیے جو مغرب کے صنعتی ممالک کی نسبتاً سست انقلابی تبدیلی کی وجوہات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان تفصیلات ( جن کا ایک ذخیرہ لینن کی تصانیف میں موجود ہے اور جس کا مطالعہ ہمارے لیے اور ہمارے مغربی ساتھیوں کے لیے انتہائی توجہ طلب ہے )کا بخوبی مطالعہ کیے بغیر ہم آپ کو چند ضروری نکات یاددلا سکتے ہیں جو کہ لینن کے سیاسی افکار کی روح کو سمجھنے کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اور اس مسئلے کی تشریح و توضیح کے لیے لینن نے جو اضافہ کیا اس کو جاننے کے لیے بھی ضروری ہیں۔
اجارہ دارانہ سرمایہ داری کی جدلیات کے عمیق تجزیے کی بنیاد پر لینن نے ثابت کیا کہ سرمائے کے اس اقتصادی اور سماجی ترقی کی اس منزل کا جو اس نے حاصل کرلی ہے مطلب یہ ہے کہ ایک طرف سوشلزم کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے اور دوسری طرف سوشلزم کی جدوجہد کے راستے میں نئی رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔
اس نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی یورپ کے ممالک امریکہ اور جاپان کے سرمایہ دار زیادہ تجربہ کار ہوگئے ہیں ۔ اور انہوں نے طبقاتی کشمکش کے دوران میں بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور وہ جوڑ توڑ میں ماہر ہوگئے ہیں ۔ یہ اجارہ دار جو پوری دنیا کو لوٹتے ہیں بہترین ذرائع کے مالک ہیں۔ جن کے بل بوتے پر یہ تشدد کے علاوہ دوسرے حربے بھی کام میں لاتے ہیں۔یعنی رشوت دیتے ہیں، معاشی غلامی کا شکار بناتے ہیں اور محنت کشوں کے کچھ حصوں کو بدیانتی سکھاتے ہیں ۔ سرمایہ داروں کی ان سازشوں کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محنت کش طبقہ کی جدوجہد مختلف سیاسی دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور یہ دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔
ترقی یافتہ سرمایہ دارممالک کی طبقاتی جدوجہد کی عملی شکل کا تجزیہ کرتے ہوئے لینن نے ایک بنیادی اور ضروری عنصر کی نشاندہی کی یعنی سامراجیت اور کامل جمہوریت کے مابین خصوصی گہرے تضاد کی۔ چنانچہ اس نے ان ممالک میں جمہوریت کی فیصلہ کن جدوجہد کا بطور پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے اہم رخ کا جائزہ لیا۔ اس نے کئی دفعہ جمہوریت کے لیے جدوجہد اور سوشلزم کی جدوجہد کے مابین اٹوٹ اور مسلسل بڑھتے ہوئے نا میاتی تعلق پر مدلل روشنی ڈالی۔
لینن کے ان نظریات کو لینن کے ماننے والوں اور لینن کے نصب العین کو جاری رکھنے والوں نے مزید آگے بڑھایا۔ان میں گرامسکی، ایم تھوریز، ای ۔ تھیلمان، پی ۔ ٹو گلیاتی، جے ۔ ڈی آز، ڈبلیو فوسٹر اور دوسرے شامل ہیں۔ لینن کے یہ خیالات اب بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں مضبوطی سے جڑیں پکڑ چکے ہیں۔
سامراجیت کے دور کی طبقاتی جدوجہدکی صورت حال اورا ہم سمت سے متعلقہ لینن کے نظریات بیسویں صدی کے سیاسی افکار کے ماحصل میں سے ہیں۔
تحریک انقلاب کی نشوونما میں سوشلزم نے جو حصہ ڈالا ا س کی اہم صورتوں اور نو آبادیات کے محکوم عوام کی قومی اور سیاسی آزدی کی راہ کے بارے میں لینن کی تصانیف کے ساتھ ساتھ لینن کی مذکورہ دریافتیں بیسویں صدی کی سماجی ترقی کی راہوں پر مارکسی نظریات کے اہم ستون ہیں۔ یہ انقلابی حکمتِ عملی کی بنیادیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تمام بنی نوع انسان کی زندگی بہت جلد مسرتوں سے بھرپور کی جاسکتی ہے۔
لینن کے نزدیک یہ دنیا، انسانی معاشرہ ایک مکمل اکائی ہے۔ مارکس اور اینگلز کی طرح اس نے بھی اقتصادی اورمعاشرتی زندگی کی بین الاقوامیت کو سماج کی زندگی میں ایک سرکردہ رحجان قرار دیا ۔ ایسا رحجان جو وقت کے ساتھ ساتھ آشکارہ ہوگا۔ اور معاشرتی تاریخ، عالمی برادری اور آخری نتیجے میں نوع انسان کی قسمت کے قوانین منعکس کرے گا۔
اس سوچ کی بنا پر لینن نے اس صدی کے آغاز میں ہی بہت سے ایسے اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل کو ابھرتے ہوئے دیکھا جن کا تعلق تمام ممالک اور تمام اقوام سے تھااور جن کو حاصل کرنے کے لیے بالآخر ایک مشترکہ مساعی کی ضرورت ہے ۔ مثال کے طور پر اس نے توانائی کے بارے میں پہلی جنگی عظیم سے قبل ہی اس بات پر زور دیا کہ اس کے حل کے لیے تمام دنیا کی وسیع تر کوششیں درکار ہیں۔ اور جدید ٹکنالوجی اور نئی ترکیبوں کی نشوونما کی ضرورت ہے۔ اس نے اس وقت خاص طور پر کوئلے کے زیادہ مؤثر اور کفایت شعاری سے استعمال کی اہمیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
تاہم ایسے مسائل کے جنم لینے کو تسلیم کرتے ہوئے جن کا تعلق انسانیت کے مستقبل سے ہے،لینن نے ایسی رسائی کو جو غیر طبقاتی، خیالی اور عام تخیل پر ستانہ انسان دوستی پر مبنی ہو قطعی طو رپر رد کردیا اور اس ان سے بھی قطعی طور پر اختلاف تھاجو ان مشترکہ مسائل کے بہانے طبقاتی کشمکش اور سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت کو رد کرتے تھے ۔ اس کے برعکس ان تمام بڑے بڑے مسائل جن میں نوعِ انسانی گھری ہوئی ہے کی تشخیص سماجی حالات سے ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سوویت ریاست کا سب سے پہلا فرمان امن کا فرمان تھا۔ جسے لینن نے از خود تحریر کیا۔ اس میں انسانیت کو جنگ کی ہولناکیوں اور اس کے نتائج سے بچنے سے متعلقہ مسائل کے بارے میں اپیل تھی۔ کچھ عرصہ بعد سوویت خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے لینن نے پر زور انداز میں کہا ۔’’ ہماری تمام سیاسیات اور پراپیگنڈا جنگ کو ختم کرنے کے لیے ہے اور کسی بھی طرح اقوام کو آمادہ جنگ کرنے کے لیے نہیں ہے‘‘۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسائل کیسے حال کیے جائیں۔ اکتوبر انقلاب کے بعد دنیا دو مخالف سماجی نظاموں میں بٹ گئی۔سوشلسٹ نظام اور سرمایہ دارانہ نظام ۔ ظاہر تھا کہ ان حالات میں جنگ اور امن کے مسئلے کے حل کا زیادہ انحصار اس بات پر تھا کہ ہر دو نظاموں سے متعلقہ ممالک کے درمیان تعلقات کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔
ان حالات میں لینن نے جو نظریہ پیش کیا وہ بیسویں صدی کی پولیٹکل سائنس کے سرکردہ نظریات میں سے ایک ہے۔ یہ نظریہ قطع نظر سماجی نظام کے ریاستوں کے پرامن بقائے باہمی کا نظریہ ہے ۔ 1919 میں سوویت کانگرس نے لینن کی تحریر کردہ ایک قرارداد منظور کی جس نے باضابطہ اس امر کا اعلان کیا کہ ’’ سوویت ری پبلک تمام اقوام کے ساتھ امن سے رہنا چاہتی ہے اور اپنی تمام مساعی داخلی ترقی پر صرف کرنا چاہتی ہے ‘‘۔ بعد ازاں 1922کی جنیوا کانفرنس کے لیے لینن نے ’’ پرامن صلح جوئی‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اب اس نظریہ کو ’’ مختلف سماجی نظاموں والی ریاستوں کے پرامن بقائے باہمی کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد ہر دو ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے نظاموں کی مساوی حیثیت کو تسلیم کرنا اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت ہے۔
اس رسائی کی ضرورت جیسا کہ لینن نے خیال کیا یوں پیش ہوئی کہ سوشلزم کو اپنی تعمیر و تکمیل کے لیے امن کی ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اس حقیقت کے پیش نظر بھی تھی کہ جنگیں تمام قوموں کے مفادات کے خلاف ہوتی ہیں اور سوشلزم کا نصب العین نہ صرف ان لوگوں کو جنگ کے خطرے سے محفوظ رکھنا ہے جو نظامِ نو کی تعمیر کررہے ہیں بلکہ تمام لوگوں کو وہ خواہ کہیں بھی رہتے ہوں۔
لینن کے نزدیک پُرامن بقائے باہمی کے امکان کی بنیادا ولاً سوشلزم کی قوت اور اس کے دفاع کی صلاحیت پر تھی۔ دوسرے اس حقیقت پر کہ سوشلزم کے مضبوط اور قابل اعتماد اتحادی ہیں یعنی محنت کش طبقہ اور سرمایہ دارانہ ممالک کے محنت کش عوام بھی۔ تیسرے اس امر پر کہ سرمایہ داری کے لیے ان ممالک سے جو سوشلزم کی راہ پر گامزن ہیں اقتصادی رشتے ختم کرنا اور انہیں عالمی برادری سے بیدخل کرنا معروضی طور پرنا ممکن ہے ۔ کیونکہ ایسا کرنا اس سمت کی مخالفت کرنے کے مترادف ہے جو عالمی اقتصادی زندگی کی بین الاقوامیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
لینن نے کہا کہ سوشلسٹ اور سرمایہ دار ممالک کے سماجی نظام یقیناً ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔سرمایہ داری کے درمیان جدوجہد قطعی ناگزیر ہے ۔ یہ جدوجہد سیاسی ، اقتصادی اور نظریاتی میدانوں کی ہے۔ ان کے مابین جنگ کے امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔ سامراجیت کے جارحیت پسند حلقے کبھی باز نہیں رہ سکتے ۔وہ اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں اور متنازعہ غیر مسائل کو فوجی ذرائع سے حل کرتے ہیں۔
لینن کے نزدیک سوشلزم اور سرمایہ داری کے درمیان جدوجہد کی ناگزیری کے باوجود مختلف سماجی نظاموں والے ممالک کے لیے پرامن بقائے باہمی ممکن ہے ۔ سوشلزم کی قوت بڑھے گی اور یہ عالمی ترقی کے لیے ایک بین الاقوامی قوت کا روپ دھار لے گی تو پرامن بقائے باہمی کی معروضی بنیادیں وسیع تر اور زیادہ مضبوط ہوں گی۔
سوشلزم کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک کے تحت اخذکردہ یہ نتیجہ غیر متبدل ہے اور انسانی سماج کی ترقی میں بلا مبالغہ لینن کی طرف سے اور لینن ازم کے تحت ایک تاریخی اضافہ ہے۔
چنانچہ لینن نے مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کو ترقی دے کر تاریخی اعتبار سے ربع صدی کے مختصر عرصے میں بیسویں صدی کے سیاسی افکار کی نشوونما میں حقیقتاً بے پناہ اضافہ کیا۔
لینن سے کوئی اتفاق رکھتا ہو یا اختلاف کوئی اس کا اتحادی ہو ہم خیال ہو یا اس کا حریف، لیکن اس امر سے انکار کرنا نا ممکن ہے کہ لینن کے نظریات جو مارکس اور اینگلز کے نظریات کا تاریخ کے نئے دور میں ایک تسلسل اور تشریح و توضیح ہے ، نئے سماجی ترقی کے مختلف پہلوؤں کو مالا مال کیا ہے۔
علاوہ ازیں لینن نے سماجی ترقی کے بہت سے نئے رحجانات دریافت کیے ۔ ان دریافتوں کے فوائد کی اب تک نسل در نسل تصدیق ہوچکی ہے۔ لینن ازم پہلے کی طرح آج بھی سماجی ترقی کے لیے مستحکم نظریاتی اور علمی بنیاد ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آج کے ہنگامہ خیزاور انقلابی دور کے لیے سیاسی شعور علامت ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے