نصیر کبدانی لبزانکی دیوان خاران کے زیر اہتمام ایک تقریب رونمائی، زیر صدارت نصیر کبدانی لبزانکی دیون کے صدر منعقد ہوئی۔
تقریب کے مہمانِ خاص جناب احمد عبد اللہ صاحب تھے۔ اور نظامت کے فرائض ارمان آزگ کے سپرد رہا۔
یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے سیشن میں مسرور شاد کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ” مرادانی بام ” کی رونمائی ہوئی جس میں مقررین نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
دوسرے سیشن میں ایک مشاعرہ ہوا ۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز ارمان آزگ نے مہمان گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے مختصراً مسرور شاد کی ترجمہ شدہ کتاب کے بارے میں سامعین کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب روسی ناول نگار ایوان ترگنیف کا ایک شاہکار ناول ہے جوکہ 1860 میں شائع ہوا تھا جسے خدیجہ عظیم نے اردو میں "سحر ہونے تک” کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ جس کا بلوچی ترجمہ مسرور شاد نے کیا ہے۔ اور اسے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ نے شائع کیا ہے۔ انھوں نے مسرور شاد کی ادبی خدمات اور ترجمہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسرورشاد کی کاوش خاران کے ادبی ماحول میں نئے رجحانات کو پروان چڑھانے میں سنگ میل ثابت ہوگی۔
ثناء سیاپاد کا کہنا تھا کہ مسرورشاد خاران کا پہلا زبان دوست ترجمہ نگار ہے جس نے ایک بین الاقوامی ناول کو بلوچی میں ترجمہ کر کے خاران کے نوجوانوں کو نئے رجحانات کی طرف مائل کردیا ہے۔
امید ہے دوسرے نوجوان ادباء بھی اس کاروان میں شامل ہوکر ترجمہ نگاری کو پروان چڑھائیں گے۔کیونکہ ترجمہ نگاری سے دوسری اقوم کی تہذیب سے آشنائی کے ساتھ ساتھ ان کے علمی ذخیرے سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔
مہمان خاص احمد عبداللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا "میں بحیثیت مسرور شاد کے استاد آج بے حد خوش ہوں کہ ایک پسماندہ علاقے کے ایک بہت ہی پسماندہ گاؤں سے ہمارا شاگرد آج علمی و ادبی کاموں سے منسلک ہے یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔”
راھشون لبزانکی چاگرد کے صدر شمیم شاجی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسرورشاد نے اپنے ترجمے میں رخشانی لہجے کو رواج دینے کی کوشش کی ہے جو اچھی بات ہے۔
مسرور شاد کی محنت اور کمٹمنٹ سے ایسا نہیں لگتا کہ یہ اس کا پہلا ترجمہ ہے۔ اس نے کوشش کی ہے کہ فکر کے ساتھ فن کو بھی بلوچی میں منتقل کردے۔اور اس نے بعض اردو الفاظ کو بلوچی مزاج عطاء کر کے بلوچی زبان کا حصہ بنایا ہے۔
ایف جے فیضی نے مسرور شاد کی ترجمہ شدہ کتاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مسرور شاد کے ساتھ ساتھ سنگت اکیڈمی آف سائنسز بھی مبارک باد کا حق دار ہے کہ جس نے عالمی شاہکار کتابوں کو بلوچی کے قالب میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یقیناً اس سے بلوچی زبان کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا نیز بلوچی ادب کی وسعت میں بھی اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مذکورہ ناول تین زبانوں سے ہوتے ہوئے بلوچی تک پہنچا ہے لہٰذا فنی کمزوریوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔لیکن مسرورشاد نے بہت حد تک ترجمہ کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ نصیر کبدانی لبزانکی دیوان نے اس کتاب کی رونمائی کا پروگرام ترتیب دے کر مسرورشاد کی محنت اور صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالغنی ساسولی نے مسرور شاد کو ” مرادانی بام ” کی کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے چھپنے کی جتنی خوشی آج مجھے ہورہی ہے اس کا اظہار میں اپنے لفظوں میں نہیں کرسکتا۔
پریس کلب خاران کے صدر سفر خان راسکوئی نے نصیر کبدانی لبزانکی دیوان کو کامیاب تقریب منعقد کرنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ خاران میں جب سے ادبی ادارے سرگرم عمل ہیں ادبی و علمی ماحول میں ایک نئی تبدیلی نظر آرہی ہے۔اس جدوجہد کو وسعت دے کر خاران کے ادبی ادارے رسائل و جرائد کا بھی اہتمام کریں تاکہ نوجوانوں کو لکھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم میسر ہو اور اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
مسرور شاد نے کہا "اس موقع پر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ اکیسویں صدی میں ایک کتاب کا ترجمہ یا تخلیق کوئی بڑا کارنامہ نہیں بلکہ یہ ایک خدمت ہے جو میں نے اپنی بساط کے مطابق نبھانے کی کوشش کی ہے اور اس کو سراہنے کا جذبہ آپ لوگوں کی ذرہ نوازی ہے کہ مجھے شرف بخشا ہے اور مزید خدمت کرنے کا حوصلہ دیا۔ اس کاوش کو آپ لوگوں تک پہنچانے میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔”
آخر میں نصیر کبدانی لبزانکی دیوان کے صدر مومن مزار نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ پروقار تقریب اس بات کی ثبوت ہے کہ نصیر کبدانی لبزانکی دیوان ہر طرح کے علمی و ادبی عمل کی حوصلہ افزائی اور کمک و مدد کرتی ہے۔
مقررین کے خطاب و تبصروں کے بعد ارمان آزگ نے سٹیج پہ براجمان حضرات سے مسرور شاد کی کتاب مرادانی بام کی رونمائی کی درخواست کی ، جب سب نے کتاب کو ہاتھوں میں اٹھایاتو ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ اور اس کے ساتھ ہی پروگرام کا پہلا سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔
جبکہ تقریب کے دوسرے سیشن میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں مومن مزار،شمیم شاجی،مسرورشاد، حسرت خارانی ، نورالحق شاہ، ارمان آزگ ، غنی حسرت، لیاقت علی، ثناء سیاپاد، مسعود پنڈگ، شاہ غیاث، زبیر شاد، اورنگ جوڑانی، آصف الفت، زاھد راھی، علی بلوچ، حافظ رازق اور دیگر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد وصول کی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے