شکستہ گھر ہے
دہکتے آنگن میں سن رسیدہ شجر کے پتے بکھر چکے ہیں
پرندگاں جو یہاں چہکنے میں محو رہتے تھے
خامشی کی سلوں کے نیچے دبے پڑے ہیں
سلیں جو گھر کی ادھڑتی چھت سے کلام کرتی تو روشنی کو قرار ملتا
قرار جس نے بجھے چراغوں کی حیرتوں کو ثبات بخشا
افق سے آگے
ہمارے حیلوں
فریب دیتے ہوئے بہانوں کی قدر کم تھی
سو ہم بقا سے فنا کی جانب پلٹ رہے ہیں
خمیر آدم ہے استعارہ شکستگی کا
خلا سے باہر ہمارے ہونے کی کہکشائیں
سرک رہی ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے