وہ دور پیاسی زمیں کو دیکھو
کہ جس کے دامن کی وسعتوں میں
ضرورتیں لے رہی ہیں انگڑائیاں مسلسل
افق افق پر انڈیلتی ہیں سراب
کرتی ہیں ہے ہر جہت کو غبار ,
پہنائیاں مسلسل۔۔۔

وہ دور پیاسی زمیں کو دیکھوں
جھلستی آنکھوں سے دیکھتی ہے
فلک کی جانب
دہکتے ہونٹوں سے چاہتی ہے
سلگتے لہجے سے کہہ رہی ہے
کوئی تو ہو
جو مری شکستہ انا کے لاشے پہ چار آنسو بہاتا جائے
یہ پیاس میری
مٹاتا جائے۔۔۔

ہوا کے جھونکے ابھی ابھی یہ پیام لائے
کہ دور پیاسی زمیں کے سینے پہ
داغ بن کر برس چکی ہیں
دو چار بوندیں…

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے