جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی
کس نے دیکھی تھیں
صحراؤں میں تِشنگی ناپتی
ڈر کے غاروں میں سہمے ہوئے
چار۔پایوں کے تن پہ برستی ہوئی مہرباں وْسعتیں؟

ذہنِ انساں کی خستہ عِمارت کی تنگی میں آکر بسیِں
سنگ سے برق تک
دَورِ وحشت سے تہذیب تک
کس نے دیکھی تھیں پگڈنڈیوں پہ جو لرزاں ہوئیں وْسعتیں؟

کس تخیّْل کی تخلیق ہیں،
کن قوانین نے اِنکو پیدا کیا؟
ہر سَبب اور مْسَبّب سے بالا
ازل کی سْرنگوں سے ہوتی ہوئی
یہ ابد گھاٹیوں میں اتر جائیں گی

عالمی دونوں جنگوں سے پہلے کے سب عارِفوں،
عارِفاؤں کے غم
بعد کی آندھیاں
ساتھ لے جائیں گی۔

کیا خبر اْن ابد گھاٹیوں سے پَرے
ڈر کے غاروں میں سِہمے ہوئے چار۔پائے کہیں
دَورِ وحشت سے تہذیب تک کے بڑے
المیے کے ہوں پھر منتظر۔۔؟
اور اْن پر برسنے لگیں مہرباں ہو کے
شیطان۔گَر وْسعتیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے