شاپنگ سینٹر سے باہر نکل کر سردار لشکر خان سامنے کارپارکنگ میں کھڑے اپنے پیجارو جیپ کی طرف بڑھاہی تھا کہ قریب ہی کار میں بیٹھی گلزار بائی اور خوبصورت نوجوان لڑکی خوشبو پر نظر پڑتے ہی پاؤں میں زنجیر پڑگئے۔اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا جس عورت کو وہ پندرہ سال سے تلاش کررہا ہے وہ اسے یونہی اچانک مل جائے گی۔اس سے پہلے کہ لشکر خان، گلزار بائی اور خوشبو کی طرف بڑھے ۔ گلزار بائی کار سٹارٹ کرکے آگے نکل جاتی ہے ۔ لشکر خان دوڑ کر کار میں بیٹھا اور ڈرائیور سے بولان ’’ بابا جلدی کرو ، اس کار کا پیچھا کرو‘‘ لشکر خان کا حکم ملتے ہی ڈرائیور نے نئی ماڈل کی پیجارو گاڈی گلزار بائی کی کار کے پیچھے لگادی۔
کار کراچی کے مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی گلشن اقبال کے ایک محل نما بنگلے میں آکر کارپورچ میں آکر رکی۔ گلزار بائی اور خوشبو کار سے اتر کر بنگلے میں پہنچے ہی تھے کہ لشکر خان کی پیجارو گاڑی کھلے گیٹ سے اندر داخل ہوئی لشکر خان جلدی میں اُتر کر گلزار بائی اور خوشبو کے پیچھے ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔
گلزار بائی اچانک لشکر خان کو یوں سامنے دیکھ کر سکتے میں آگئی۔ پھر خود کو سنبھال کر نفرت آمیز طنز یہ مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولی’’۔۔۔۔۔۔او ۔۔۔۔۔۔ ہو۔۔۔۔۔۔ سردار سائیں آج کیسے آئے۔۔۔؟
’’آؤ بیٹھو‘‘گلزار بائی صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
لشکر خان کی آنکھوں میں شعلے بڑھکنے لگے۔ ’’ گلزار بائی میں یہاں بیٹھنے نہیں آیاہوں‘‘۔ ’’ پھر کس لیے آئے ہو‘‘۔ ’’ میں اپنی بیٹی سردار خاتون کو لینے آیا ہوں‘‘۔ لشکر خان آگے خوشبو کی طرف بڑھا توگلزار بائی آگے دیوار بن گئی۔ ’’ سردار سائیں ،سردار خاتون کو بھول جاؤ۔۔۔۔۔۔‘‘۔ وہ اب آپ کی سردار خاتون نہیں رہی خوشبو بن گئی ہے‘‘۔
خوشبو جس نے لشکر خان کو عام گاہک سمجھ کر خاص توجہ نہیں دی تھی، بے دلی سے لشکر خان کو گھورنے لگی۔
اپنی بیٹی سردار خاتون کے خوشبو بننے کا دُکھ لشکر خان کو ڈبونے لگا۔ وہ پتھر بن کر دیر تک خوشبو کو دیکھنے لگتا ہے۔ جواب سردار خاتون نہ رہی تھی۔ پھر غصے میں چیخ کر بولا،’’نہ۔۔۔۔۔۔ گلزار بائی ایسے نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟۔ سردار لشکر خان کی بیٹی خوشبو نہیں بن سکتی ہے‘‘۔
’’ یہ تو آ پ کو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب تم نے مجھے نوکر کے ذریعے دھکے دیکر بنگلے سے نکلوایا تھا‘‘۔
’’ پر تجھے میری غیر حاضری میں سردار خاتون کو اٹھا کر لے جانے کی ہمت کیسے ہوئی؟‘‘۔ لشکر خان چیخا۔
’’سردار سائیں میں مجبور تھی۔ بھلا ایک ماں کیسے دو تین سال کی بچی نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ او ریہ لڑکیاں تو ہمارے بڑھاپے کی سہارا ہوتی ہیں‘‘۔ لشکر خان کو لگا جیسے گلزار بائی نے اس کے دل میں خنجر اتارا ہو۔ دانت پیستے بولا،’’ خوش قسمت تھی بچ گئیں اگراس وقت ہاتھ آجاتیں تو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کو کھلاتا‘‘۔ گلزا ر بائی کے ہونٹوں پہ رونے جیسی مسکراہٹ آکر واپس ہوئی۔ ’’ مجھے خبر تھی سردار سائیں اس لیے تو آپ کی غلام گردش سے دور چلی گئی تھی‘‘۔ لشکر خان نے غصے میں برداشت کی حد توڑتے ہوئے خوشبو کو ہاتھ سے پکڑا‘‘۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب میری بیٹی تم جیسی نیچ عورت کے پاس ایک پل بھی نہیں رہے گی‘‘۔ خوشبوپریشان ہوگئی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ماں اور اچانک نمودار ہونے والے باپ ، جسے اس نے ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔دونوں میں سے کس کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ خوشبو کوئی ردّ عمل ظاہر کرے گلزار بائی دھمکی دیتے بولی۔’’سردار سائیں خوشبو تیرے ساتھ نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔۔کس حیثیت میں خوشبو کو یہاں سے لے کر جاؤ گے۔۔۔۔۔۔؟‘‘۔
’’سردار خاتون ، جسے تم کمینی عورت نے خوشبو بنایا ہے ، میری بیٹی ہے‘‘۔ گلزار بائی ، خاموش مگر معنی خیز نظروں سے لشکر کو دیکھ کر مسکرائی۔’’ کیا ثبوت ہے تیرے پاس کہ خوشبو تیری بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔سردار سائیں۔ میں نے بھی ساری زندگی تم جیسے سرداروں، پیروں اور میروں کے ساتھ گزاری ہے۔سب خبر ہے تم جیسے آدمی جب حویلی سے باہر شوق کی شادی کرتے ہیں، اسے خفیہ رکھتے ہیں، کوئی ثبوت پیچھے نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ثبوت ہے میرے پاس ، میرا کمدار خدا بخش۔۔۔۔۔۔ وہ گواہی دے گا کہ میں نے تم سے شادی کی تھی اور سردار خاتون میری بیٹی ہے‘‘۔ گلزار بائی کے جسم پر جیسے چیونٹیاں دوڑنے لگی ۔ منہ انگارے اگلنے لگی۔’’ سردار لشکر خان، تیرے اس کمدار کی گواہی نہ قانون کے پاس قابل قبول ہوگی نہ کسی دوسرے کے پاس ۔۔۔۔۔۔ تم جاسکتے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اپنی ایسی توہین پر لشکر خان کو آگ لگ گئی۔ دل میں آیا دونوں ہاتھ گلزار بائی کی گردن میں دے کر چڑھ جائے، مگر یہ سوچ کر کہ اس کام کے لیے تو اس کے پاس سندھ کے کافی بدنام ڈاکو ہیں۔ پیچھے ہٹ کر باہر نکل گیا۔
’’ امی اگر وہ شخص واقعی میرا باپ تھا ، تو تجھے اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔
’’ چپ کر چھوری۔ وہ نہ تو کسی کا باپ تھا اور نہ ہی شوہر۔۔۔۔۔۔ صرف اور صرف سردار لشکر خان تھا‘‘۔ گلزار خاتون آنکھیں پھاڑ کر خوشبو کو دیکھتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف چلی گئیں۔ خوشبو نے دل ہی دل میں طے کرلیا کہ وہ چل کر اپنے باپ سردار لشکر خان سے ماں کی ہوئی گستاخی کی ضرور معافی لے گی۔
خوشبو کو اپنے والد سردار لشکر خان کا بنگلا ڈھونڈنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ایک دن پہلے ہی اس نے اپنے ایک واسطے دار سے لشکر خان کے ڈیفنس والے بنگلے کا ایڈریس معلوم کیا تھا۔ محل نما بنگلہ، نوکر چاکر ، مسلح باڈی گارڈ اور چوکیداروں کو دیکھ کر خوشبو کو خود پہ اور اپنے لشکر خان پہ فخر پیدا ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا ۔ اگراس کے باپ لشکر خان نے اسے واپس جانے سے منع کیا تو وہ گناہوں بھری زندگی ترک کرکے وہیں اپنے باپ کے پاس رہے گی۔
مگر اس وقت اس کے احساسات ور جذبات زخمی ہوئے جب لشکر خان اپنے کرتوتوں پر پردہ رکھنے کے لیے ، اس طرح گھر آنے پر ا س پر سیخ پا ہوئے! ۔پھر یہ معلوم ہونے پر کہ اس نے کسی سے ذکر نہیں کیا کہ وہ لشکر خان کی بیٹی ہے ۔ کچھ ٹھنڈا ہوکر فرمان جاری کیا کہ اس کے ڈرائیور کے ساتھ جاکر کچھ دن ڈرائیورکے گھر رہے۔ جب تک اس کے لیے کوئی مناسب بندوبست کیا جاسکے۔
خوشبو چکراسی گئی، کہ کیا اب نوکروں اور ڈرائیوروں کے گھر رہے گی، ممی سچ کہتی ہیں ۔ لشکر خان نہ کسی کا با پ ہے اور نہ ہی شوہر۔۔۔۔۔۔ وہ صرف ہی صرف سردار ہے۔۔۔۔۔۔ سردار لشکر خان ! خوشبو لشکر خان کو صاف لفطوں میں بتا کر واپس ہوئی‘‘۔ اگر اسے رکھنا چاہے تو وہ بیٹی کی حیثیت سے اسی گھر میں رہے گی، نہ ہی ڈرائیور، چوکیدار یا مالی کے گھر‘‘۔
خوشبو کی کار لشکر خان کے بنگلے سے باہر نکلی تو اُسی بنگلے سے ایک دوسری کار اس کا پیچھا کرنے لگی۔ خوشبو نے تعاقب کرنے والی کار کو دیکھ کر فُل سپیڈ لگادی مگر بند سگنل پہ جیسے ہی بریک لگائی، پیچھے آنے والی کار سے گولیوں کی بوچھا ڑ ہوئی اور وہ خوشبو سے سردار خاتون بننے کا ارمان دل میں رکھے اپنی گردن اسٹیئرنگ پر لڑھکا کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے