سلام علیک رحمتہ اللہ علیٰ من لدیکم
آپکی طرف سے کسی قسم کا خط نہ پانے کی وجہ سے میں نہیں جانتا کہ اس وقت آپ کہاں ہیں۔ اس لیے میں ایک کُھلی ہوئی چھٹی آپ کے نام لکھنے پر مجبور ہوں۔
مجھے مصدقہ طور پر اطلاع ملی ہے کہ آپ کو بذریعہ تار اپنی دہ یازدہ سالہ مستقل ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے اور وجہ محض اسقدر بتائی ہے کہ آپ کا رویہ غیر مطمئن ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے رویے میں یہ غیر اطمینانیاں کہاں سے آگئیں؟۔ جس طرح آپ ناچار محض ہیں کہ آپ اپنے خون کو مجھ سے الگ کریں۔ ٹھیک اسی طرح میں بھی مجبور ہوں کہ میں اپنے مادرِ وطن کی خدمت سے باز نہ رہوں ۔ آپ پر یہ نزلہ میری وجہ سے گرا اور میرے کارن آپ معہ عیال واطفال فاقہ کے مہلک منہ میں دیے گئے ہیں ۔ لیکن میرے بزرگو ار! رازق اللہ ہے جس نے آپ کو شکمِ مادر میں غذا پہچائی جس نے آپ کی عمر کے کوئی تیس سال اچھے خاصے رزق سے گزارے وہی آپ کی آئندہ بھی کفالت کرے گا۔ آپ اسی پر بھروسہ رکھیں۔ اغیار کے درکوہرگز نہ کھٹکھٹائیں۔ آپ یہاں میرے پاس آئیں ۔ اگر بلوچستانیوں کا خون سفید رہا اور وہ ’’ بلوچستانِ جدید ‘‘ کو خریدنے سے گریز کرتے رہے تو میرے دست وبازو اب تک سلامت ہیں ۔ میںیہاں محنت مزدوری اور بھیک کے ذریعے آپ کو اور آپ کے معصوم بچوں کو پالوں گا۔ اگر پلاؤ کی بجائے جواری کا ڈوڈھ ملے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدمتِ وطن کی سعادت نصیب ہو تو اور کیا چاہیے؟۔
میں اور آپ فروری (1921)سے الگ تھلگ رہے ہیں۔ آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ مجھے اور آپ کو پھر اکٹھے رہنے کا موقعہ دیا گیا ہے۔ مجھے آپ کے خط کا بہت بیتابی سے انتظارہے ۔
مجھے ایسی باتیں لکھنی تو نہیں چاہیے تھیں لیکن مجبور کردیا گیا ہوں اس لیے میں حکومت کے اُن عمال پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسی خفیف اور نا معقول حرکات میرے ارادہ یعنی عقیدہ میں تزلزل پیدا نہیں کر سکتیں۔ اگر مجھے خدمت وطن کی پاداش میں دیکھنا پڑے کہ میرے بھائی بھوک کے مارے سسک رہے ہیں، میرے بھائیوں کے معصوم بچے شدتِ فاقہ سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں ،میری والدہ بہنیں میری بھاو جیں خاک وخوں میں لت پت ہو رہی ہیں ۔میں دیکھوں گااور خون کے گھونٹ سے خلق بند کر کے آہ تک باہر نہ نکالوں گا۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے عیال واطفال کو ایک ایک کر کے تو پ کے منہ دیا جائے اور مجھے تختہِ دار پر کھینچا جائے تو اس وقت بھی انشاء اللہ میری زبان پر اگر کوئی خواہش آئے گی تو وہ خدمتِ وطن کی خواہش ہوگی۔ یہ ایک بڑی بھول ہے اور ناحق مجھ پر آئے ہوئے غصہ کو دیگر بے گناہوں پر ستم توڑ توڑ کر نکالا جا رہا ہے۔

(محمد حسین عنقاؔ )

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے