ٹرین شام تک نہ پہنچی۔ اور سٹیشن کی بڑی، مدھم، لمبی اور صاف نہ کی ہوئی کھڑکیوں پرایک کثیف دھند جم گئی۔
طویل انتظار سے بیزار ہجوم نے پلیٹ فارم کی طرف جانے والے تنگ راستے پر دھاوا بول دیا۔ یہ1919 کا رنگا رنگ،بے قابو اور ناقابل فراموش مجمع تھا۔ ٹرین کی سیٹی مجمع کے لئے جوش و خروش کا باعث بنی۔ وہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو برباد کرتے ہوئے ،چیختے چلاتے اور بدعائیں دیتے ہوئے ریل گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عورتوں کی باریک آوازیں سب سے اونچی تھیں، خوفزدہ بچوں کی چیخیں تھیں، ٹوکریوں اور پیٹیوں کی دھمک اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کی چھنکار۔۔۔ ایک ہی منٹ میں ویٹنگ روم خالی ہوچکا تھا۔
پلیٹ فارم پر پہنچنے والا سب سے آخری شخص،پرانی وضع کے بڑے کالروں والے کوٹ میں ملبوس ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے صنوبر کی چھال سے بنا ایک بڑا بکس اٹھا رکھا تھا۔ اس کا چہرہ ہرزن کے بنائے’’ غے‘‘ کے پورٹریٹ جیسا تھا جو کہ فوراً اپنی طرف توجہ کھینچتا تھا۔ پیشانی ایک مفکر کی طرح خوبصورت، کشادہ اور صاف تھی۔ یہ پیشانی ان لوگوں کی پیشانی کی طرح جامع،مستغرق اور متوازن تھی جو ایک خاص ذہنی کام والی زندگانی بسر کرتے ہیں۔ یہ ایک مشہور مائیکروبیالوجسٹ اور پروفیسر تھا۔ جس کا نام مشرق میں طاعون پر اس کی شاندار تحقیق کی بناء پر دنیا بھر میں مشہور ہوچکا تھا۔اسے بعد میں اکیڈمیشن کا اعزاز ملا تھا۔ وہ بہت مقبول ہوگیا تھا اور سوویت یونین کے سب سے بڑے سائنسی ادارے کا صدر بن گیا تھا۔ اور ہر الیکشن میں جمہوریہ کے اعلیٰ ترین منتخب ایوان میں پھر منتخب ہوجاتا۔
ہماری کہانی شروع ہونے کے وقت وہ بہت زیادہ مشہو رنہیں تھا۔ مزید برآں، یہ 1919 کا سال ہے جب ہر چیز دیگ میں ابلتے پانی کی طرح کھول رہی تھی ۔ کسی کے پاس سائنس کے لئے ٹائم نہ تھا اور لیبارٹری میں سائنسدان کی فراہم کردہ خدمات پر کوئی توجہ نہ دی جاتی تھی۔
صبح کے وقت وہ چھوٹے سے قصبے کی ایگزیکٹو کمیٹی کے دفتر میں نشست ریزرویشن کی بہت کوشش کرچکا تھا۔ وہ پچھلے تین ماہ سے اس قصبے کے قریب کام کررہا تھا جہاں ایک وبا ء پھیل چکی تھی ۔ وہ کافی قیمتی مواد جمع کرچکا تھا۔ لیکن ایگزیکٹو کمیٹی چوبیس گھنٹے سے مسلسل میٹنگ میں مصروف تھی۔ اور اس طرح اُسے ٹکٹ نہ مل سکا۔ انہوں نے اسے دو گھنٹہ انتظار کرایا۔ مگراس کے لئے کچھ نہ کیا اور ریلوے ٹکٹ کی بجائے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کے ہاتھ میں ڈسٹرکٹ فوڈ کمیٹی میں کھانے کے آرڈر تھما دئیے۔ آرڈر میں ہیرنگ نامی دو مچھلیاں ، کیڑے مار دوائیوں کا ایک باکس تھے۔ اور اس کے علاوہ،سائنس میں اس کی خدمات کے پیشِ نظر زیر جامہ کے چھ ھڈی کے بٹن ۔ اس نے جب یہ پڑھا تو بہت غرّایا اور چاہا کہ چیئرمین سے ملاقات کرے مگر دروازے پر موجود آدمی نے اسے بتایا کہ میٹنگ اپنے عروج پر ہے اور اُسے حکم ہے کہ ’’ غیر متعلقہ‘‘ لوگوں کو اندر آنے نہ دے۔ اس لفظ نے تو گویا اسے کاٹ ڈالا۔
اس نے بڑے وقار سے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔’’ میں ایک سائنسدان ہوں‘‘۔
’’ اب کوئی سائنس دان وائنس دان نہیں رہے‘‘۔ دربان نے مضبوطی سے کہا’’ پچھلی حکومت ختم ہوچکی ہے‘‘۔
وہ سٹیشن چلا گیا اور کسی طرح کمانڈانٹ کے پاس پہنچ گیا۔ یہ عہدہ پہلے سٹیشن ماسٹر کہلاتا تھا۔ کمانڈانٹ کی حجامت بڑھی ہوئی تھی۔ وہ پسینے سے شرابور ہانپ رہا تھا۔ کم خوابی سے اس کی آنکھیں لال تھیں۔ وہ اس کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ تھا۔
’’ میں یہ نہیں کرسکتا، کامریڈ۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔میرا برا حال کردیا گیا۔میں ٹرین میں ایک باورچی تک کو جگہ نہیں دے سکتا۔ آپ تو پروفیسر کی بات کرتے ہیں۔ میں سوکھی مچھلی تک نہیں بھیج سکتا اور آپ مجھے کسی مائیکروب کا بتارہے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔‘‘
اس چھوٹے سے واقعے نے تو پروفیسر کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہ معاشرے کی خدمت کا سچا جذبہ رکھتا تھا اور ملک میں جو کچھ ہورہا تھا وہ اس پر مخلصانہ انداز میں بہت مطمئن تھا۔ مگر اُسے لگا کہ سائنس ا نقلاب کی بے رحم گرادب میں غرق ہورہا ہے۔سائنس۔۔۔ جو اس کی زندگی تھی، سائنس جس کے لئے اُس نے بہت قیمتی سال صرف کیے تھے، اتنی محنت کی تھی ، اتنا علم لگایا تھا۔ اور اپنی روح تک اس کے لئے تج دی تھی۔ ہر طرف ہر چیز شکست و ریخت کا شکار تھی، یونیورسٹیاں بند کی جارہی تھیں، بیش قیمت لائبریریاں اور لیبارٹریاں تباہ کی جارہی تھیں۔ اس نے تشویش سے سوچا کہ یہ کام جنگ کے لازمی نتائج یا حاد ثاتی وجوہات سے نہیں ہورہے بلکہ یہ تو تباہی کی ابتدا تھی۔ اس لئے کہ اس ناخواندہ اور بربریت والے ملک میں عوام، اب جبکہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں تو اگر وہ سائنس سے محبت نہیں کرسکیں گے، اس کی حفاظت نہیں کرسکیں گے، اور اُن لوگوں کی قدر نہیں کرسکیں گے جو اِس سائنس کی خدمت کررہے ہیں تو پھر ساری حاصلات ختم ہوجائیں گی اور معاشرہ سو سال پیچھے چلا جائے گا۔ اس نے پوری صورتحال کا مشاہدہ کیا اور اسے ایسا لگا جیسے ہر جگہ کنزیومر تصورات حاوی ہیں۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی چیز مل جل کر استعمال کی جارہی ہے، تقسیم کی جارہی ہے، ذخیرہ کی جارہی ہے۔ بس یہی تھی زندگانی۔ کلچر کے معاملات کو پیچھے اور مزید پیچھے پس منظر میں دھکیلا جارہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کلچر کے لئے خود کو وقف کررکھا ہے۔ وہ روز بروز بیگانے بنتے جارہے، ، جنہیں کوئی بھی سمجھ نہیں رہا، جنہیں کوئی بھی کام میں نہیں لارہا ۔
ایگزیکٹو کمیٹی اور ریلوے سٹیشن پر یہ معمولی واقعہ اسے اذیت دینے لگا اس لئے کہ یہ اس کے مایوس خیالات اور شکوک کو تقویت دے رہا تھا۔ وہ ایک حریص شخص نہ تھا اور نہ ہی وہ پروفیسروں کی اکثریت کی طرح اپنی ذات میں قید انسان تھا۔ اور اس نے کبھی بھی اعزازات،ستائش اور تعریف نہ چاہی تھی۔ البتہ اس کو اتنی امید ضرور تھی کہ جو زندگی اس نے گزاری تھی لوگ اس کا خیال رکھیں گے، اس کی حفاظت کریں گے۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے اُسے نمکین زنگ آلودھیرنگ مچھلی کا ایک جوڑا، اور جانگیہ کے لئے چھ بٹن پھینکے تاکہ اس ’’ غیر متعلقہ‘‘ شخص سے نجات مل جائے۔ اس کے پیچھے اس کے ساٹھ برس تھے۔ اس کا نام ، اس کی عمر اور اس کے سفید بالوں کی تکریم ہونی چاہیے تھی ۔ لیکن انہوں نے تو اُسے ٹرین میں ایک سیٹ تک دینے سے انکار کیا اور ایک باورچی ، کچھ خشک مچھلیاں، زیاہ اہم ہوگئیں تھیں۔ اور اُسے خوراک مانگنے والوں اور بلیک مارکیٹنگ والے سوداگروں کی طرف بھیج دیا گیا۔۔۔۔۔۔ یہ نہ صرف اس کے اپنے لیے بے عزتی کی بات تھی ۔ بلکہ اُس کا زکی بھی توہین تھی جس کی وہ خدمت کرتا رہا تھا۔ گو کہ اسے احساس تھا کہ یہ بہت معمولی واقعہ تھا مگر تجزیہ کرنے کے اس کی عادت نے اُسے سکھا دیا تھا کہ حتیٰ کہ خوردبینی قطرہ بھی اجتماع کی خصوصیت اور مظاہر کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسے یہ تلخ خیال آیا کہ یہ لاتعلقی اور بے پرواہی اس بات کی بھرپور عکاسی کرتی تھی کہ یہ قوم مستقبل میں سائنس کے بارے میں اور خود اُس کے بارے میں کیارویہ رکھے گی۔
پھر وہ قطار میں جاکر کھڑا ہوا اور ہجوم کے ساتھ ساتھ آگے رینگتا رہا۔ ٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور برف اور سردی کے باوجود کچھ لوگ واقعتاً کھڑکیوں پر لٹک رہے تھے۔ دیر سے آنے والے مسافر، ڈبوں کی کھڑکیاں کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر اندر آنے کی درخواست کرتے۔’’ ہیڈ کوارٹر کا ڈبہ ہے‘‘ اندر والے لوگ چیختے ۔’’ یہ ڈیلیگیٹوں کا ڈبہ ہے‘آگے جاؤ‘‘۔
اس نے بہت سے دروازے کھٹکھٹائے مگر ہر جگہ لوگ چیخے کہ ’’ یہ ایک غسل خانہ ہے ،کہ یہ ٹائیفٹس کے مریضوں سے بھرا ہوا ہے ، یا دماغی مریض ہیں اس ڈبے میں ، کہ یہ سرکاری ڈبہ ہے، یا یہ نرسنگ ماؤں کے لئے ہے‘‘۔ سب ڈبے گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے تھے، ہر جگہ سے درخواست کے جواب پر چیخیں ملتی تھیں۔ اور ایک جگہ جب اس نے ایک ڈبے پر چڑھنے کی کوشش کی تو ایک ناراض عورت نے ایک تھیلی اس کے سینے پہ اس زور سے ماری کہ وہ بڑی مشکل سے توازن برقرار رکھ سکا، اس کے چشمے کھوگئے اور وہ بہت دیر تک گندی منجمد زمین پر اندھوں کی طرح انہیں ڈھونڈتا رہا۔ٹرین پر چڑھنے کے لئے اسے طاقت استعمال کرنی پڑتی اور وہ ، وہ کر نہیں سکتا تھا ۔ اس نے ریسرچ والے مواد کا بکس احتیاط سے اٹھا رکھا تھا۔ یہ بکس بھاری تھا اور اس کے کندھے درد کرنے لگے۔ اس کی انگلیاں سردی میں اکڑ چکی تھیں۔ برفانی طوفان شروع ہوچکا تھا اور سرد اور کاٹ ڈالنے والی ہوا اُسے چھید ڈالتی تھی۔ پلیٹ فارم پہ اندھیرا تھا اور پھسلن تھی۔ اور وہ اس پُر شور مگر اجنبی بھیڑ میں سخت تنہائی،بے بسی اور بے کسی محسوس کررہا تھا۔
’’ ہاں‘یہی اصل بات ہے‘‘ اس نے سوچا۔’’ بلا شبہ ہم لا تعلق بن رہے ہیں۔ جب وہ خشک مچھلی کو ایک سائنس دان کی سامان پر ترجیح دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
وہی لا پرواہ، سرخ سروالا اور ابھری ہوئی ہڈیوں والے چہرے والا ملاّح اس کے پاس سے گزرا جس نے فر والی جیکٹ پہن رکھی تھی اور جس کو سگریٹ جلانے کے لئے اس نے ماچس دی تھی۔ وہ برف پر سے ایک بوری گھسیٹتا جارہا تھا۔ وہ جست کے ایک مگے سے ڈبوں کے دروازے زور سے کھٹکھٹاتا اور جب اندر کے لوگ کوئی جواب دیتے تو وہ موٹی بلند آواز سے ان پر چیختا:
’’ ہم بھی ٹائیفٹس کے مریض ہیں، ہم نے بھی اپنے سینے پہ بچے اٹھا رکھے ہیں۔ دروازہ کھولو‘‘۔
وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ ملاح بڑبڑایا، اپنے چہرے کا پسینہ پونچھا اور پروفیسر کو پہچا ن کر بولا۔’’ بوڑھے آدمی، ہمیں آخری ڈبوں میں کوشش کرنی چاہیے۔ شاید وہاں کوئی ہم پہ ترس کھائے۔ یہ کتے کے بچے تو ترس کھاتے نہیں۔ اور ہاں ، تم اپنا سامان زمین پر سے گھسیٹو، بازوؤں پر رکھ کر اس بھاگ دوڑ میں خود کو ہلکان کردوگے‘‘۔
’’ میں اسے زمین پر گھسیٹ نہیں سکتا‘‘۔ پروفیسر نے غمگین انداز میں جواب دیا۔’’ اس میں آلات بھرے ہوئے ہیں‘ شیشے کی بوتلیں ہیں اور دوسری ٹوٹنے والی چیزیں‘‘۔
’’ اس کی پرواہ نہ کرو۔ میرے ساتھ بھی ٹوٹنے والا سامان ہے‘‘۔ ملاّح چیخا’’ دو بوتلیں بڑھیا ترین شراب کی ، اور آدھی بوتل خالص اسپرٹ کی ہے میرے پاس۔ مجھے اپنے ساتھیوں نے دی تھیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔ برف میں وہ نہ ٹوٹیں گے‘‘۔
وہ پھر دروازے کھٹکھٹانے لگا اور پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔
’’ ہم بھی پاگل ہیں!‘‘ وہ پھر آگے بڑھا۔
وہ ایک بار پھر ٹرین میں آخر تک گئے اور بالآخر کسی نے ان پر ترس کھائی اور آخری ڈبے میں انہیں داخل ہونے دیا۔ اس ڈبے میں بھی ضرورت سے زیادہ لوگ تھے اور بیٹھنے حتیٰ کہ بیگ رکھنے کی جگہ تک نہ تھی۔ ایک کونے میں ایک باریش سپاہی لیٹا تھا جو Rhodes کے مجسمے جتنا لحیم شحیم تھا اور سرہانے کی طرف اس کے سامان نے بہت جگہ گھیر رکھا تھا ۔ پروفیسر نے اسے ذرا سا سر کنے کو کہا مگر سپاہی نے محض اپنے دیوہیکل کندھے اچکائے، جس سے وہ مزید چوڑے ہوگئے:
’’ ہم پہلے ہی ٹھسے پڑے ہیں۔ تم جہاں کھڑے ہو وہیں بیٹھ جاؤ‘‘۔
بہت سارے لوگ اس آگ کے گرد کھڑے اپنے ہاتھ گرم کررکھے تھے جو ڈبے کے فرش پر ایک لوہے کی چادر پر جلا دی گئی تھی۔ ایک سپاہی کا کیشیائی ٹوپی اور نیلے رنگ کی خوبصورت وردی میں کیولری کی تلوار سجائے مشرقی انداز میں آلتی پلتی مارے اکارڈین بجارہا تھا ۔ اس کی شفاف اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس نے ارد گرد دیکھا اور جاری گفتگو سننے لگا۔دوسری طرف اس نے آنکھ مارتے ہوئے پوچھا۔’’ کیا فر کی کوٹ پہنے جنٹلمین کو یہ نغمہ پسند ہے؟‘‘
اس نے انگلیوں سے تاروں کو چھیڑا اور ایک نرم آواز میں گانے لگا:
’’چیکا نے اسے ٹھڈا مارا اس کا نام کیا تھا ککو۔۔۔ ہاہا‘‘
وہ سب غیر دوستانہ مسکراہٹ مسکرادیے۔
’’ تم نے اس بورژوا کو اندر آنے کیوں دیا؟Rhodesنے پوچھا۔
’’ تم مجھے بورژوا کیوں سمجھتے ہو؟ ‘‘ پروفیسر نے غمگین انداز میں پوچھا۔
’’ ہمیں تمہارے چشموں سے ایسا لگ رہا ہے‘‘ دیو ہیکل شخص بادلِ ناخواستہ بولا اور چلا گیا۔
بورژوا! پروفیسر نے وبا کے وہ تین مہینے یاد کیے جب وہ کم خوراکی میں رہا، کم خوابی میں رہا، گندے چھوٹے کمروں میں رہا اور جمے ہوئے آلوؤں پر گزارہ کرتا رہا۔ اسے چوبیس ،چوبیس گھنٹے کام کرنا پڑا۔ نہ اس نے اپنی صحت کی پرواہ کی نہ اپنی پیرانہ سالی کا خیال رکھا۔ اس نے ہر لمحہ بیماروں کے خون، بلغم اور جراثیموں کے ساتھ اپنی زندگی کو خطرے میں رکھا۔ اس نے اپنی قوت کا ہر حصہ، دماغ اور اعصاب کی ہر سکت اس وبا کو روکنے یا آسان بنانے کے لئے لگاڈالی جس سے لاکھوں انسانوں کو خطرہ تھا۔۔۔ وہ تو اس کی زندگی کی کہانی کا محض ایک صفحہ تھا۔ اور باقی صفحے بھی اسی طرح تھے۔ سخت، مستقل اور شعور ی محنت سے بھرے ہوئے ۔ اور آج وہ ایک اجنبی بن چکا ہے ، ایک بورژوا ، بغیر حقوق کا ایک جونک اور وہ اسے چیکا یاد دلارہے تھے اور ایک کونے میں بیٹھنے کے لئے معمولی جگہ بھی دینے سے انکاری۔
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اسے رہ رہ کر اپنی ہتک کا خیال آیا۔ پھر اس نے بکسہ نیچے رکھا اور دروازے کے قریب ننگے فرش پر بیٹھ گیا۔
وہ بات کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس کے پاس بیٹھے ایک مسرور اور بے پرواہ سپاہی اس سے سوالات کرنے لگا۔ اس نے کسی شوق اور جذبے کے بغیر جراثیموں اور سپائرو کیٹس کے بارے میں باتیں شروع کیں۔ سپاہی جلد ہی اکتا گیا۔ اس نے جمائیاں لیتے ہوئے کچھ دیر اس کی بات سنی اور جب پروفیسر نے جراثیم کو اگانے کے لئے Kochکی یخنی کی بات کی تو وہ اسے غلط سمجھ بیٹھا۔
’’ ارے انہوں نے ہسپتال میں ہمیں یخنی کھلائی ، یہ تو بہت بری بات ہے۔ ہمارے لوگوں کو گوشت کے ساتھ گوبھی کے سوپ کی ضرورت ہے،تبھی ہم کچھ کرسکیں گے اور کسی توانائی بھرے مشروب کے گلاس کی ضرورت تھی‘‘۔
’’ یہ ہے آج کا آئیڈیل‘‘۔ پروفیسر نے سوچا۔Kochکی یخنی کی بجائے گوشت اور گوبھی کا سوپ۔ اگر ملک اور عوام کو سینکڑوں سالوں تک جہالت،بربریت اور غربت کی حالت میں پڑا رہنے دیا جاتا تو کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا؟۔ یہ لوگ ان حالات سے نجات حاصل کرچکے ہیں۔ اب لوگوں کی پہلی خواہش کافی خوراک ملنے کی ہے، انہیں روٹی کی طلب ہے۔
’’ چلو، ہونا بھی یہی چاہیے۔ اس خواہش پہ کوئی اعتراض ہو بھی نہیں سکتا تو میں کیوں حیران ہوجاؤں؟۔ اگر ہمیں اور ہمارے تحقیقی مواد کو پس منظر میں دھکیلا جائے، تیسرے درجے پر، حتیٰ کہ دسویں درجے پر بھی، تو ہم کیوں حیران ہوں؟۔ اور اس بات پر کہ لوگوں کو سائنس کے لئے کوئی احترام نہیں اور اس میں کوئی دلچسپی نہیں؟۔ انہیں اچانک ایسا کرنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس داڑھی والے کویا اکارڈین بجانے والے اس نوجوان کو الف بے کی کتاب تک نصیب نہ ہوئی۔ مثال کے طور پر پاسچر نے اپنی زندگی کے دس برس لگا کر، بیکٹیریا کی افزائش نسل کا قانون دریافت کیا ۔اور وہ پہلا شخص تھا جس نے سائنس اور انسانیت کو خوردبینی مخلوق کی پراسرار دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے کے قابل بنایا۔ مگر ان کے سامنے پاسچر کی کیا حیثیت ہے اور وہ اس کے ٹیلنٹ کی عظمت کی قدر کیوں کریں۔ وہ تو ابھی تک یہ عقیدہ رکھتے رہے کہ زمین تین وھیل مچھلیوں پر کھڑی ہے اور یہ کہ بارش کو آسمان سے بڑا مرشد، بھیجتا ہے؟ ۔عظیم جنیئیس منڈیلی ییف نے ایلیمنٹوں کا ایک خاکہ بنایا جسے کئی نسلوں تک استعمال کیا جاتا رہے گا۔مگر ایلیمنٹوں کے اس ٹیبل کی کسی ان پڑھ شخص کے لئے کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟، اور وہ کس طرح اس کی تعریف کرسکے گا جب عام ضرب تقسیم کی بات اُسے چینی حروف تہجی لگیں؟ ۔اس سے محبت کرنے ‘ اس کی حفاظت کرنے اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے انہیں اس ثقافت کی ضرورت ہے جوصدیوں کے عمل کے دوران تخلیق ہوئی ہے۔ مگر ان کے پاس یہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بربریت اور جہالت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اب تو ہر چیز تباہ کی جائے گی ۔ سائنس کو پیچھے دھکیلا جائیگا اور ہم سائنس دانوں کو اپنی بقیہ زندگی راستے سے ہٹ کر گزارنی ہوگی۔ وقت آئے گا کہ یہ سب تبدیل ہوگا، جب نشاطِ ثانیہ ہوگی ۔ مگر اب اگرمیں کہوں کہ دماغ کی فتح مندی، معدے کی فتح مندی سے زیادہ ارفع ہے تو سیٹیاں بجا کر مجھے جواب دیا جائے گا اور مجھے ایک ’’ بورژوا‘‘ کا لقب دیا جائے گا۔ اب اگر میں اٹھ کھڑا ہوں اور کہوں کہ ’’ یہ شرمناک بات ہے، یہ انقلاب کی ہتک ہے کہ میں یہاں فرش پر بیٹھا ہوں، گندمیں۔ میں جو ایک بوڑھا شخص ہوں،ایک پروفیسر ہوں جس نے سائنس کو اپنی زندگی کے پچاس برس دیے ہیں‘‘ تو میری مدد کے لئے کوئی ایک انگلی بھی نہیں اٹھائے گا ۔ مجھے جگہ دینے کے لئے کوئی ایک انچ بھی نہیں ہلے گا۔ جبکہ ہیڈ کوارٹر کا باورچی پاؤں پسارے سورہا ہے، تین آدمیوں کی جگہ گھیر ے ہوئے ہے۔ وہ چیخ چیخ کر مجھے بٹھا دیں گے کہ’’ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں گوبھی کا سوپ چاہئیے، Kochکی یخنی نہیں۔ گوبھی کا سوپ گوشت کی بڑی مقدار کے ساتھ‘‘۔
اس نے دوبارہ ٹھنڈی آہ بھری اور تشویش سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ رات ہوچکی تھی۔ 1919 والے طوفانی سال کی پہلی رات۔ وہ بہت سالوں سے اپنی پرانی اور جذباتی عادت کے مطابق نئے سال کے پہلے گھنٹوں میں گزرے ہوئے سال کی حاصلات پر غور کرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کی زندگی ایک طرز پر چلی تھی جس نے اسے خود اپنے لئے کچھ کرنے سے روک رکھاتھا۔ ہر چیز سائنس پر قربان کردی اور اب سائنس دفن ہونے کے لئے جارہی تھی اور جب کہ اس کے وجود کا سارا مطلب سائنس میں مرکوز ہوگیاتھا۔ اس لئے اُسے اپنا مستقبل خالی اور بے مسرت لگ رہا تھا۔اور اس بارے میں وہ جتنا زیادہ سوچتا ، اتنا ہی اس کا دل بیٹھتا جاتا۔
تب اُسے نیند آگئی اور جب اسے اس کا احاس ہوا ایک یا پھر شاید دو گھنٹے گزر گئے۔ اچانک اسکے چہرے پر ایک تیز روشنی چمکی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور کسی کی موٹی کھسر پھسر سنی:’’ باغی آگئے، انارکسٹ آگئے‘‘۔ اور محسوس کیا کہ کوئی اس کا کوٹ اس سے اتار رہا ہے۔ تین آدمی کھڑے تھے ا نکے ہاتھ میں لالٹین تھی اور انکی بیلٹوں سے گرینیڈ لٹک رہا تھا ۔ ڈبے کی نیم تاریکی میں ان کے چہرے کا لے لگ رہے تھے اوران کی آنکھوں میں مسرت، جنون اور فتح کی چمک تھی۔
’’جنٹلمین آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ اس نے نیم خوابی میں وہ لفظ استعمال کیا جواب کم استعمال ہوتا تھا۔
’’جنٹلمین لوگ تو کھمبوں سے لٹک رہے ہیں‘‘۔ ایک چیچک زدہ چہرے والے کو تاہ قد شخص نے جواب دیا۔ وہی اُن کا سرغنہ لگتا تھا۔’’ انہوں نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ وہ تمہارے بغیر تنہائی محسوس کررہے ہیں‘‘۔
انہوں نے فرکاکوٹ اس سے اتارا، پھر اس کی کیپ ،جیکٹ اور بوٹ اتارے، انہوں نے اس کی گھڑی چھین لی، اس کا بٹوہ لے لیا اور اس کی انگلی سے شادی والی انگوٹھی اتاردی۔ وہ تا بعد اری سے انکے احکامات مانتا گیا۔ اس نے مزاحمت نہ کی۔ صرف ادھر ادھر نظریں گھماتا گیا جیسے دوسروں کو مدد کے لئے بلا رہا ہوتا کہ وہ اس کی بزرگ سنی کی اس نئی بے عزتی اور انسانی وقار کی اور خود اُس کی ذات میں سائنس کی اس بے حرمتی کو روکیں۔ مگر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا اور وہ سب خاموش رہے۔
’’ارے۔ یہ تو زبردست کوٹ ہے‘‘۔ خوبصورت یونیفارم میں کیولری والا مسرت سے بولا’’ بوڑھا شخض اسے تین سو سال تک پہنتا رہا ہے۔ اب یہ کسی اور کو پہننے دو‘‘۔
اور ایک بار پھر بوڑھے پروفیسر نے خود کو باہر والا سمجھا ، جسے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ۔ اس نے سوچا کہ اگر اس کی بجائے باورچی ہوتا تو وہ اس کی مدد کو ضرور آتے ۔ مگراس کے بارے میں وہ لاتعلق رہے۔ وہ اس ڈبے میں سب کے لئے بے کار تھا۔’’لاتعلق‘‘ اس نے یاد کیا اور اپنی آنکھیں اس سختی سے بھینچ لیں جیسے اسے بہت درد ہورہا ہو۔
پھر انہوں نے بکسہ کھولنے کو کہا۔ اسے اپنی چیزوں کے چھن جانے کا کوئی غم نہ تھا۔ وہ ایسے موڈ میں تھا کہ اسے ان کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اور اس نے لاتعلقی کے انداز میں ہر چیز ان کے حوالے کی تھی۔ مگر اس بکسے کے اندر شیشے کے ظروف، بوتلوں اور نوٹ بکوں میں اس وبا کے دوران اس کے زبردست کام کے رزلٹ تھے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سائنس کے لئے بہت بیش قیمت تھے اور شاید Kock ، لسٹر اور لوفلر کی تحقیق جتنا عظیم اثر رکھنے والے رزلٹس تھے۔ وہ طیش ،خفگی اور اس خوف سے کانپ رہا تھا کہ ایک ہی لات سے یہ سارے کا سارا تباہ ہوجائے گا ۔ اس نے ہر بات سے لا تعلقی اختیار کی تھی مگر وہ اس چیز سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا جو سائنس کی تھی۔ ایسا کرنا غداری تھی، اور یہ ایک ایسا عمل ہوتا جس سے وہ ساری بقیہ زندگی شرمندہ رہتا ۔ کانپتے ہاتھوں سے اُس نے بکسہ اپنی طرف کھینچا اور اپنے سینے سے لگالیا۔ اس نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو، اگر کوئی بکسے کو نقصان پہنچائے گا تو اس کے لئے زندہ رہنے کا کوئی اور جواز نہ بچے گا۔۔۔
مگر انہوں نے اُسے پرے دھکیلا، چیچک زدہ چہرے والے نے بکسہ چھین لیا اور اس کا ڈھکنا دھڑام سے کھولا۔ پہلی دفعہ ڈبہ میں بیٹھے لوگوں میں حرکت پیدا ہوئی۔وہ اٹھ بیٹھے اور گردنیں اونچی کرکے دیکھنے لگے کہ جانے اس میں ایسی کیا چیز ہے جس کے لئے ایک شخص اپنی زندگی خطرے میں ڈال رہا ہے؟۔
’’ کیا یہ سپرٹ ہے؟‘‘۔ چیچک والے نے بوتلوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اس نے ایک بوتل اٹھالی، کھولی، شہوت بھرے انداز سے اپنی ناک تک لے گیا جو جلد ہی کراہت کی شکنوں میں بدل گیا جب اس نے بوتل فرش پر پھینک دی۔
’’بورژوا۔ تم کس چیز سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہو؟‘‘۔اس نے گستاخی سے پوچھا۔
پھر اس کی نظر مائیکرو سکوپ پر پڑی ۔ وہ بہت ہی غیر معمولی ،نازک اور قیمتی آلہ تھاجو کہ پروفیسر کی ذاتی لیبارٹری کا افتخار تھا۔چیچک زدہ چہرے والے نے اس عجیب آلے کو تعجب سے دیکھا اور اسے اپنی بوری میں پھینک دیا۔۔۔
انہوں نے خوراک کے کچھ سوداگروں کولوٹا ، کچھ اور مسافروں کو ، ایسوں کو جو نسبتاً اچھی پوشاک پہنے ہوئے تھے۔ اور پھر یہ وعدہ کرتے ہوئے چلے گئے کہ وہ اگلے سٹیشن پہ یہ دیکھنے پھر آئیں گے کہ دوسری بوتلوں میں کیا تھا۔ اس فقرے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اسی ٹرین سے سفر کررہے تھے۔
جب وہ چلے گئے تو ایک پورے منٹ تک کوئی کچھ نہ بولا۔
’’ میرا خیال تھا کہ اس کے پاس نمک ہے یا پھر آٹا ہے‘‘۔ ہڈیوں بھرے چہرے والے سپاہی نے ہنستے ہوئے کہا’’ یا شاید بوڑھے شخص نے کہیں سے نمکین گوشت پہ ہاتھ مارا ہوگا۔ مگر اس کے پاس کل کائنات یہ بوتلیں نکلیں۔ آپ عزت مآب ایک عجیب شخص ہیں۔ آپ نے ان بوتلوں کے لئے گولیوں سے چھلنی ہونے کا خطرہ کیوں مول لیا؟‘‘۔
یہی وہ قطرہ تھا جس نے اس کے صبر کا پیمالہ لبریز کرڈالا۔ سردی باہر سے اندر آرہی تھی اور بوڑھے پروفیسر کو محسوس ہوا کہ اس کا جسم اکڑ نے لگا ہے۔ اس نے محض ایک قمیص پہن رکھی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ سے فرش پر مائع محسوس کررہا تھا جو ٹوٹی بوتل سے چھلک گیا تھا ۔ لوگ اس کے اردگرد قہقہے لگا رہے تھے اور اس پر ناقابلِ برداشت اداسی چھا گئی تھی۔ کوئی چیز اُس کے سینے سے ابل پڑی، ایک لہر اُس کی گردن تک پہنچی اور اچانک وہ کھڑا ہوگیا۔ حالانکہ اسے اندازہ نہ تھا وہ کیا کرے گا اور کیا کہے گا۔ اس کی صورت ایسی تھی کہ ڈبے میں موجود مسافر اچانک خاموش ہوگئے اور اس کے قریب بیٹھے ہوئے خوراک کی بوری والے شخص نے اسے پیچھے کھینچا اور خوفزدہ آواز میں کہا’’ جانے دو۔ تم صورتحال مزید خراب کردو گے‘‘۔ مگر وہ کھڑا ہوگیا تھا، بالکل تن کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ بیک وقت قابل ترس بھی اور مضحکہ خیز بھی۔ سفید بالوں میں وہ باوقار لگ رہا تھا اور اس کی آنکھوں اور چہرے پہ صداقت والی ناراضگی کے آثار تھے۔
وہ ایک عجیب اور بے ترتیب تقریر تھی مگر ایک عمدہ ، جذباتی اور فکر انگریز تقریر جس میں اس کا ادا کیا ہوا ہر لفظ ایک شعلہ تھا اور ان کے دلوں کی دھڑکنیں تیز کرتا تھا۔ اس لئے کہ یہ لفظ جامع احساسات کے ساتھ گرم کیے گئے تھے اور خفگی سے بھرے تھے۔ اس نے سائنس دانوں کی عظیم فوج کے بارے میں بتایا جو بے لوثی کے ساتھ دسیوں برسوں اور صدیوں تک علم کے دانے ان بوتلوں میں چنتی رہی۔ جس پر کہ موجود لوگوں نے قہقہے لگانے کی جسارت کی تھی مگر جو کہ حقیقت میں راز سے بھرے ہیں،جامع اور حیرت انگیز معانی سے بھرے ہیں۔ اس نے انہیں مچنیکوف کے بارے میں بتایا جس نے موت کی پرواہ نہ کی اور خود کو ٹائیفس کا انجکشن لگایا تاکہ جراثیم کا عمل دیکھے اور انسانیت کو اس سے بچائے۔ اس نے انہیں ارشمیدس کے بارے میں بتایا جس نے قصبہ میں داخل ہوتے ہوئے دشمنوں سے پینٹنگز کو بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ اس نے انہیں گیلیلیو کے بارے میں بتایا جس نے ایک روایت کے مطابق، تحقیقات کرنے والوں کی عدالت میں چیخ کر کہا تھا’’ مگر پھر بھی یہ گھومتی ہے‘‘۔ اس نے انہیں درجنوں عظیم اور زبردست لوگوں کے بارے میں بتایا جنہوں نے مستقبل کی نسلوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔۔۔۔۔۔ عزت، دولت اور خود زندگانی۔ ان عجیب سامعین پہ اس نے ا نسانی تخلیقی سوچ کی خفیہ گہرائیاں افشا کردیں۔ اس نے ان کے سامنے معجزوں بھرے پیچیدہ قوانین بتائے جن کے مطابق دنیا قائم تھی۔ اور دنیا کے بھرے ہوئے رازوں سے ایک ایک پردہ ہٹاتے ہوئے جنون کے سے جوش ، جذبے اور انتہائی مسرت کے ساتھ وہ علم و حکمت والے انسانوں کی جانب سے کی ہوئی جدوجہد کی بڑی شاندار تصویر کی نقاب کشائی کرتا جاتا تھا۔ اس نے درد ، نفرت اور حقارت کے ساتھ غلامی کی ان زنجیروں کا ذکر کیا جنہوں نے صدیوں تک انسانوں کو جکڑے رکھا تھا اور جنہیں روسی محنت کش طبقے نے پھینکنے میں پہل کی تھی۔ اس نے ایک پُرسکون مسکراہٹ کے ساتھ انسان کے خوشحال ،روشن اور عظیم الشان مستقبل کی تصویر کشی کی جب وہ بالآخر خود کو جہالت اور استحصال سے آزاد کرے گااور فطرت کے بے انت خزانوں اور نعمتوں کا ملک بنے گا۔ اس نے انقلاب کی بات کی جو وہ واحد چیز ہے جو سائنس کو لا محدود بلندی تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے انہیں بتایا کہ ان کا سائنس سے غیر متعلق رہنا بہت خطرناک اور بہت وحشتناک تھا، اور یہ بھی کہ بوتلوں کے اندر کا مواد انہیں عزیز نہیں ہے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کی اپنی زندگی سائنس کے کاز کے لئے مکمل طورپر وقف ہے اور اب وہ ایک ایسے سخت اور ناخوشگوار اختتام تک پہنچ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
اس کے خیالات غیر مربوط، اور خلط ملط لگتے تھے۔ اس کا گلہ رندھ جاتا تھا، اس نے دورہ پڑتے ہوئے شخص کی طرح تقریر کی۔ اس نے بلا وجہ کی ہتک کے سارے درد اور، شک کی ساری تلخی کو غصہ بھرے الفاظ کی غیر مربوط تقریر میں اگل دیا۔ مگر اس عجیب تقریر میں ایک خاص پرجوش اور پر خلوص چیز تھی جو 1919 کے بغاوت بھرے سال کی نقیب رات میں ایک گندے اور سرد ریلوے بوگی میں گونجی تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے ڈبے میں لوگوں کو ایک دھند کی طرح ابھرتے دیکھا، انہیں ہر کونے سے گھٹنوں کے بل چل کر اپنے گرد ایک ٹھوس دائرہ بناتے دیکھا۔ مگر وہ چیزوں میں فرق نہیں کرسک رہا تھا اور ان کی اس بے حد توجہ کو نہ دیکھ سکتا تھا جب وہ رکی ہوئی سانس کے ساتھ اس کی کوشش میں سن رہے تھے کہ ان باتوں سے ایک بھی اَن سنی نہ رہ جائے جو پہلی بار ان کے سامنے ایک نئی اور جادوئی دنیا کھول رہی تھیں۔ سپاہی اُسے سن رہے تھے اور وہ اِس حالت میں نہ تھا کہ سمجھ سکے کہ اس سے پہلے پوری زندگی میں اسے اس سے زیادہ متوجہ، اس سے زیادہ بھرپور اور زیادہ شکر گزار سامعین ملے ہوں۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے کسی کا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔ وہ مایوسی میں اس قدر حوصلہ ہار چکا تھا کہ اس نے سوچا کہ وہ اسے ماریں گے یا دھکے دیں گے۔ مگر ان ہاتھوں نے محض ایک بڑا کوٹ اس کے یخ اور تھرتھراتے کندھوں پر پھینکا۔ کسی اور نے ایک صندوق اس کی طرف گھسیٹی تاکہ وہ اس پر بیٹھ جائے اور کسی نے نچلی آواز سے تیز تیز کہا:
’’ لمبے بوٹ، اسے لمبے بوٹ دیدو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہ اس وقت تک باتیں کرتا رہا جب تک کہ ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ اچانک رک گئی۔ اس نے اپنی بات روک دی اور تھک کر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا ۔ باہر شور اٹھا اس لئے کہ وہ ایک سٹیشن پر تھے۔ مگر اندر ہر شخص دیر تک خاموش رہا جیسے وہ اُس لطف کو توڑنا نہ چاہتے ہوں جو کچھ منٹ پہلے تک جاری تھا۔پھر بھاری بھر کم داڑھی والا سپاہی بولا۔
’’ ڈاکٹر ہم پہ اس کا الزام نہ دو‘‘۔ اس نے ڈاکٹر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ وہ ہر اُس شخص کو ’’ڈاکٹر‘‘ کہتا تھا جس نے چشمہ پہن رکھا ہوتا۔’’ ہم اس لئے ہنسے کہ ہم احمق ہیں، اس لئے کہ ہم نہیں سمجھتے ۔ ہمارے دماغ ابھی تک اس حد تک نہیں پہنچے۔ مگر کیا ہم دل سے اس روشنی تک نہیں پہنچنا چاہتے؟۔آپ پریشان نہ ہوں، ہم آوارہ کتے نہ ہوں گے۔ جب ہم ہوشمندی دیکھ رہے ہیں، ہمارے دل ہمیں راستہ دکھائیں گے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
بوڑھے پروفیسر نے سر اٹھایا، وہ اچانک ان کے الفاظ کی گرمی سے محظوظ ہوا۔ اس نے سر اٹھایا اور آس پاس دیکھا۔ اسے پیلے گہرے متاثر چہرے نظر آئے جن کے لبوں پر خواب آلود اور پر مسرت مسکراہٹیں تھیں۔ ان کی آنکھیں وسیع کھلی تھیں۔ اور ایک حیرت انگیز اندرونی روشنی سے چمک رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اس نے یہ سب کچھ دیکھا اور محسوس کیا کہ ایک بہت بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اتر گیا۔ اس کا دل پُر سکون ہوا اور اُسے اطمینان اور مسرت ہوئی۔ بالکل اُسی طرح جیسے بہت بے پرواہ جوانی میں ہوا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلا اور چیچک چہرے والا چھوٹا شخص اندر داخل ہوا۔
’’اچھا، بورژوا‘‘۔ اس نے کہا،’’ اپنی بوتلیں کھولو!‘‘
پروفیسر خاموش بیٹھا رہا۔ ایک بات نہ ہوئی۔ اور کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اس شخص نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا ،گندی گالیوں کی بوجھاڑ کردی اور پروفیسر کے باکس کی طرف بڑھا ۔ مگر داڑھی والے نے وحشت ناک اندا ز میں خراٹا لیا۔ اور اٹھ گیا اور خود کو اپنی مکمل اونچائی تک بلند کیا۔ اس نے رانوں جیسا گوشت سے بھرامکا مضبوط کیا اور اسے بلند کیا۔
’’تم کوشش کرکے دیکھو، میں تمہارے لیے تمہاری گردن توڑ دوں گا‘‘۔ اس نے کہا
چیچک والے کاہاتھ پستول تک پہنچا مگر ان کی آنکھیں ملیں تو وہ جھجکا اور اس نے ہاتھ واپس کیا۔ دزدیدہ نگاہوں سے اردگرد چہروں کو دیکھا اور اچانک مڑا اور تیزی و خاموشی سے دروازے سے باہر نکلا۔
وہ چاروں اکٹھے قصبے میں چل رہے تھے۔ لوگ گلیوں میں قتل کیے جارہے تھے، ننگے کیے جارہے تھے اور یہ فیصلہ ہوا کہ پروفیسر کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔
برفانی طوفان تھا۔ غصیلی ہوائیں آسمان پر نچلے کالے گہرے بادل دوڑا رہی تھیں۔ ڈنگ مارتی برف اُن کے چہروں پر کوڑے برساتی رہی تھی۔پھٹا ہوا لمبا کوٹ جو کہ سپاہی نے پروفیسر کے کندھوں پر ڈال دیا تھا، Rhodes کے مجسمے جتنے لمبو کا دیا ہوا بڑے بوٹوں کا جوڑا، اور کیولری والے کے مڑے تڑے کیپ میں پروفیسر کو سردی محسوس نہیں ہورہی تھی، نہ ہی اُسے کسی اور چیز کا احساس تھا۔ وہ بس چاہتا تھا کہ بغیر سبب کے زو ر سے قہقہہ لگائے۔ بالکل اسی طرح بے سبب جس طرح کہ سترہ برس کی عمر میں ہوتا ہے ۔ چلتے ہوئے اس نے سوچا کہ چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی، اس لئے کہ نوجوانی کی بہت سی باتیں تھیں۔ پر جوش مسکراہٹوں اور چمکتی آنکھوں میں مستقبل پہ اعتماداور تخلیقی سرگرمی کے لئے اس قدر گہری پیاس نظر آتی تھی جو کہ اُس نے ریل کے ڈبے میں دیکھی تھی۔ اُس نے یہ بھی سوچا اگر ملک کی ساری یونیورسٹیاں تحلیل بھی ہوجائیں اور سو سالوں سے جمع کی ہوئی سب چیزیں مٹی میں مل بھی جائیں تب بھی جب تک فتح مند مزدور طبقے میں اس قدر پکی جبلت موجود ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اسے احساس تھا کہ سائنس تو اب تک کچھ افراد کی جاگیر تھی اب وہ ایسے ہزاروں لوگوں کا پیشہ بن جائے گی جن کی آنکھوں میں خواب دیکھنے والوں کی سی چمک تھی۔ اس نے ان سارے ہتک ،توہین اور بے عزتیوں پر غور کیا جو دن بھر اس نے جھیلی تھیں اور اُسے یہ سب نیچ اور کمینہ پن لگیں اور اسے خود پر شرم آنے لگی۔۔۔۔۔۔
لحیم شحیم سپاہی جس نے صرف پھٹے ہوئے یونیفارم کا چوغہ پہنا ہوا تھا سردی سے کانپ رہا تھا اور چیچک زدہ غنڈے کی وحشت کو گالیاں دے رہا تھا۔
وہ اوپر نیچے اچھلتا اور اپنی انگلیوں کو گرم رکھنے کے لئے ان پہ پھونکیں مارتا جارہا تھا۔ وہ بولا: ’’ اس کی طرح کے لوگ عالمی انقلاب کے جسم پہ دھبہ ہیں۔ وہ ایک چھوٹی ناک والا بدمعاش انارکسٹ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اس طرح سائنسی بوتلوں کو ریزہ ریزہ کرکے خود کو کیا سمجھتا ہے۔ اس نے جواب دیاکہ وہ ایک کمیسارہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ مئی کے حکم نمبر42 کے مطابق جیب کتروں سے نمٹنے کے لئے مقرر ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔‘‘۔
داڑھی والا سپاہی خاموش سے چل رہا تھا اور جس جگہ زمین پھسلن ہوتی وہ پروفیسر کی مدد کے لئے اس کا باز و پکڑتا۔ وہ کبھی کبھی بات کرتا تھااور وہ بھی بناوٹی سختی کے ساتھ ، جیسے ایک نرس کسی بچے کے ساتھ کرتی ہے۔
’’آرام سے آرام سے۔ پھسلن ہے، بچ کے ۔ شکر خدا کا، آپ تو ایک نابغہ ہیں۔آپ۔۔۔‘‘۔
ان کے پیچھے نیلی آنکھوں والا کیولری والا، سائنس دان کا بکسہ لیے چل رہا تھا۔ وہ ننگے سر تھا ۔ اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور برف کے گولے ان میں چمکتے، پھر پگھل جاتے۔ وہ بار بار بکسے پر سے برف جھاڑ لیتا۔
’’ ایک منٹ دوستو‘‘۔ اس نے بالآخر پریشان آوازمیں کہا’’ ایک منٹ کہ میں اس چوغہ کواتاروں جو میں نے پہن رکھا ہے ۔ تاکہ اس کے پکڑے ہوئے کیڑوں کو سردی نہ لگ جائے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے پیٹی لگے ہوئے لمبے کرتے کو اتاردیا اور احتیاط سے بکسے کو اس میں لپیٹا اور اس کے گر د ایک لمبا گندارومال باندھ لیا تاکہ وہ گرم رہے۔
’’ میرے دوستو! ‘‘پروفیسر یہی کچھ کہہ سکا۔ وہ بہت متاثر ہوچکا تھااور اُسے اپنے گلے میں کوئی چیز ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی’’میرے عزیز دوستو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہ پروفیسر کے گھر پہنچے اور اس نے ان سب کو اندر آنے کی دعوت دی کہ خود کو گرم کریں ۔ دو اندر چلے گئے مگر داڑھی والا سپاہی داخلے والے ہال میں اُدھر ٹہلتا رہا اور اپنے لمبے کوٹ کے دامن سے احتیاط سے بکس پر سے برف صاف کرنے لگا۔
’’ میں دوبارہ سٹیشن جاکر اس کی خوردبین لے آؤں گا‘‘ ۔ وہ غرایا’’ میں نے پتہ کیا کہ وہ کس ڈبے میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اس کو لوٹا، احمقوں نے۔یہ کوئی طریقہ نہیں۔ میں ان کے ٹکڑے کردوں گا ، ہڈی پسلی ایک کردوں گا، ان ٹھگوں کی۔ تم جانتے ہو میں خاموش طبیعت کا آدمی ہوں مگر جب مجھے غصہ آجائے تو بہتر ہے میرے سامنے کوئی نہ آئے ۔ اس وقت تو میں شاہ بلوط کے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہوں‘‘۔
’’ تو اب تم غصے میں ہو، ہیں؟‘‘۔ نیلی آنکھوں والے کیولری والے نے تعجب سے پوچھا ۔
’’ ہاں ۔ میں پاگل ہوچکا ہوں‘‘۔ اس دیو ہیکل نے کہا۔
کسی کو معلوم نہیں اور کسی نے سنا نہیں کہ اس مذکورہ رات پروفیسر نے اپنے عجیب مہمانوں کے ساتھ کیا باتیں کیں مگر جب وہ کئی گھنٹے بعد اس سے رخصت ہوئے اور عزت سے اس سے ہاتھ ملائے تو ایک غیر معمولی اور بہت گہرا احساس ان کے چہروں پر نقش ہوچکا تھا۔ یہ ایک عظیم اور نئے تصور کا تھا جو انہوں نے پہلی بار سوچا ۔ اور وہ اس طرح کے آدمی لگ رہے تھے جو ایک غیر متوقع اور اہم فیصلے تک پہنچ چکے ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
تقریباً دس برس بعد پروفیسر مر گیا اور اس کے تدفین پہ شوپین کے تدفینی مارچ کی ماتمی دھنیں بج رہی تھیں۔ اس کی تدفین کے جلوس میں شامل لوگوں میں دو آدمی اس کے فوری اسسٹنٹ اور ذاتی دوست تھے۔
بائیں طرف نیلی آنکھوں والا کیولری والا تھا ۔ وہ ابھی تک اسی طرح تھا۔ محض کنپٹیوں پر چاندی کے کچھ تاروں کے گچھے تھے۔ اور پیشانی پہ اولین جھریاں ۔ اسے یورپ سے ٹیلیگرام دے کر بلایا گیا تھا۔ وہاں اس نے سوویت یونین کے نمائندے کے طو رپر بیالوجسٹوں کی عالمی کانگریس میں ایک مقالہ پڑھا تھا اور اس کا مقالہ متفقہ رائے سے حالیہ برسوں میں سب سے دلچسپ مقالہ قرار دیا گیا تھا۔
اس کے دائیں طرف ہڈیوں والے چہرے والا سپاہی تھا۔ وہ اب یوکرین میں ایک اہم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا ڈائریکٹر تھا۔
صرف داڑھی والا سپاہی غائب تھا۔ وہ اس یادگار رات ریلوے سٹیشن پر مارا جاچکا تھا ۔ اور اس کی لاش دوسری صبح ایک پشتے کے نیچے ملی۔ وہ اپنے دونوں میلے ہاتھوں سے مائیکرو سکوپ کو سختی سے دبائے پڑا تھا جو اُس نے اپنے دل کے قریب بھینچ رکھا تھا، جیسے وہ ایک ایسی چیز ہو جو اسے بہت ہی عزیز ہو۔۔۔۔۔۔‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے