جب ہماری طب کی کلاسیں شروع ہوئیں تو ہم طلبہ ،کیوبا اور پاکستانی شعبۂ طب کا موازنہ بڑے شوق سے کیا کرتے ۔کبھی کیوبا کے طب کو ناقص اور پاکستانی طب کو بہتر سمجھتے اور کبھی اس کے برعکس۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف دشواریوں سے بھی گزرنا پڑاجن میں سے ایک Anatomyپریکٹیکل نہ کرانا شامل تھا۔پروفیسر ہمیں Dead body Dissection نہ کراتے تھے۔ہم نے کئی بار انھیں کہا کہ اس کا ہمارے لیے انتظام کیا جائے۔جب کہ پروفیسر ان دنوں ہمیں یہ سب کچھ Audio video سے دکھاتے اور سمجھاتے ۔ تاہم پریکٹیکل نہ کرواتے ،جو ہمارے طلبہ کو کم سمجھ آتی ۔ایک دن میں نے خود اپنے پروفیسر سے یہی شکوہ کیا تو اُنھوں نے جوبات بتائی وہ میری ناقص عقل میں سمائی اور پھر مجھے پاکستانی طریقۂ تدریس پر تعجب ہوا۔انھوں نے بتایا کہ: "یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں انسانی جسم کے اندرونی و بیرونی خدوخال اور اعضاء اب تصویروں کی مدد سے ظاہر ہو چکے ہیں اور سمجھائے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں وہ عکس نقش ہو جائیں اورہر طالب علم تک اس ٹیکنالوجی کی بآسانی رسائی بھی ہے۔مزید یہ کہ مستقبل میں ہر طالب علم سر جن نہیں بنتا،اس لیے اُسے Dissectionکروانا محض، ضیاع وقت ہے۔نیزان کے پاس اتنےDead bodies بھی نہیں ہوتے کہ وہ20 سے 30طلبہ کے ہر گروپ کو فراہم کریں جہاں لگ بھگ 120ممالک سے آئے ہوئے بڑی تعدادمیں طلبہ پڑھتے ہیں۔جراحت محض، سر جری میں جانے والے زیرِ تربیت ڈاکٹروں سے کرائی جاتی ہے تاکہ وہ اس میں مہارت حاصل کر یں اور مریضوں کا صحیح علاج کر سکیں۔یہ Medical Ethics کے بھی خلاف ہے کہ عدالت نے ڈاکٹروں کو اس طرح سے لاش مسخ کرنے سے منع کر رکھا ہے۔ اگر ڈاکٹر کے پاس لاش کے لواحقین یا خود متوفی کا مرضی نامہ موجود نہیں اور کوئی ڈاکٹر اس کی میت کو طبی مطالعہ کے لیے استعمال کرے تو وہ میت کو مسخ کرنے کے جرم کا مرتکب ہو گا،جسے سزا بھگتنی ہو گی۔اس لیے اس مضمون کی تدریس میں Audio Video Conferenceسے مدد لی جاتی ہے۔‘‘یہ سُن کر مجھے پاکستانی ڈاکٹروں کی تدریس پر حیرت ہوئی کہ وہ اس بین الااقوامی اخلاقی قانون کی پاس داری نہیں کرتے۔لاوارث لاشوں کو مسخ کرتے ہیں۔بجائے اس کے کہ وہ امریکہ، برطانیہ یا کسی دیگر ترقی یافتہ ملک سے Dissection Videosکی CDsمنگوا کر ملٹی میڈیا پر طلبہ کو سکھائیں جو نہ صرف ہم مسلمانوں پر واجب ہے اورایک مقدس پیشے کا تقاضا بھی ہے لیکن پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر یا توطبی اخلاق( Medical Ethics)سے ناواقف ہیں یا دانستہ اِس مقدس پیشے کو غیر مہذب اور غیر مقدس بنانے میں مگن ہیں کہ میت سے ایسا المیائی سلوک روارکھاجاتا ہے !
(Research):تحقیق
کیوبا میں پہلے سال سے ہی تحقیق کے اصول اور سائنسی رسالہ جات کے مطالعے پر زور دیا جاتا ہے۔طلبہ اس میدان میں مختلف اندازمیں تحقیق کرتے ہیں اورمقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔یہ طلبۂ طب جب چھٹے سال میں پہنچتے ہیں تواقسامِ تحقیق ،تحقیقی کاوشوں میں موجود غلطیوں اور دیگر محققین کے مطبوعہ مضامین کو درست انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔بل کہ فارغ التحصیل ہونے سے قبل اپنے کئی مقالات ومضامین شائع بھی کروا لیتے ہیں۔یہ مقابلے یونیورسٹی سطح سے لے کر قومی سطح تک منعقد کیے جاتے ہیں۔جیتنے والوں کو انعامات اور بونس نمبر دیے جاتے ہیں جوان کے حتمی نتائج کو بہتر بناتے ہیں۔
میڈیکل تحقیق میں کتابیاتی حوالہ سیکھنا:
ایک دن والد صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے انہیں بتایاکہ:’’ کیوبا میں ہر ادارہ فعال ہے یعنی اگر کوئی کھیل سیکھنا چاہیے ،ہنر سیکھنا چاہیے،بآسانی سیکھ سکتا ہے۔بتائیں میں کیا سیکھوں ؟‘‘انہوں نے کہاکہ’’اگر تحقیق کا طریقہ سکھاتے ہیں تو سیکھ کر آئیں۔‘‘پھر میں نے فنِ تحقیق سیکھنے کا ارادہ کیا۔اپنے پروفیسرسے اس اشتیاق کااظہار کیا ۔انہوں نے مجھے تحقیقی ادارے کے سربراہان سے ملوایا۔تحقیق کے اصولوں کی کتاب Digital Formatمیں دی اور ایک موضوع بھی تفویض کیا جس پر مجھے تحقیق کرنی تھی۔موضوع سے متعلق جب میں نے کتابیاتی حوالہ جات کا ذکرکرنا تھا تو اساتذہ کرام نے بتایاکہ:’’ آپ کے نصف سے زیادہ حوالہ جات پچھلے۵ سالوں میں مکمل ہونے والی تحقیق سے ہونے چاہییں،اس سے قبل کی تحقیق ناقص ہو چکی ہے ۔‘‘پھر بتایا کہ :’’علم اس قدر بڑھ گیاہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔علم کے سمندر میں غوطہ لگا کرصرف قیمتی موتی تلاش کرنا آپ کا کام ہو۔آپ کی تحقیق جدید علوم پر مبنی ہوورنہ اس کی اہمیت نہیں۔‘‘اس دوران میں نے اپنے چندساتھیوں سے مل کر شعبۂ طب سے متعلق تین موضوعات پر تحقیق کی ۔یعنی:
(1). Estudio precl237nico del efecto de las Esencias Florales de Bach en la inflamaci243n aguda., Pp. 3+27.
( A preclinical study of Bach Flower’s effects on acute inflamation.)
(2). Introduccion de la tecnica Ligadura del Piloro en el Centro de Toxicologia., Pp. 2+24.
(Introduction of Pyloric ligation technique for gastric ulcers production in toxicology centre.)
(3). Plan de Accion para disminuir el Habito de Fumar en el Consultrorio Medica Familiar 25., Pp. 4+51.
(Plan of Action to reduce the smoking habit in family medical clinic.)
مادام ڈاکٹرماریہ اوفلیا (فیفیتا)کی پاکستانی طلبہ کے بارے رائے:
جن دنوں ہم پاکستانی طلبہ ڈاکٹر؛ بچوں کے ہوسے لوئیس میرانداہسپتالHospital Pediatrica, Jose Luis Miranda))میں نیورالوجی کے وارڈ میں مریضوں کا معائنہ کرتے اوران کے بارے میں پروفیسروں سے تعلیم حاصل کررہے تھے توان میں ایک خاتون پروفیسرمادام ماریہ اوفیلیا جنھیں فیفیتابھی کہتے ،ہمیں نیولوراجی پڑھاتی تھیں ۔ ایک دن ہمار ا ٹیسٹ ہوا ۔پھر جب سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا تو طلبہ کے متعدد سوالوں کے جواب میں انھوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ :’’پاکستانی طلبہ تمام ممالک کے طلبہ سے زیادہ پڑھنے والے ہیں۔ اور دورانِ تدریس ان کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہمیں لائبریری سے اُن کتب کا پھر سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے جو ہم نے طبی مہارت (Specialization) کے دوران میں پڑھی تھیں۔ پاکستانی طلبہ نے ہمیں وہ کتب دوبارہ پڑھنے پر مجبورکیا اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سے ہم پروفیسر وہ کچھ سیکھتے ہیں جو ہمارے ذہنوں سے محوہو گیا تھا یا جو ہمیں معلوم نہیں ۔‘‘
قدرتی آفات (Disasters) کی تعلیم :
ہمارے میڈیکل کیریئر میں چوتھے اور پانچویں سال کے مضامین میں قدرتی آفات اول ودوم( Disaster-1, Disaster-II)کی تعلیم دی گئی کہ کس طرح مختلف قسم کی آفات میں ہونے والے نقصانات سے بچاؤکیا جاسکتا ہے،کس طرح نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے اورکس طرح عوام کو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے؟ مختلف ممالک میں رو نما ہونے والے ایسے واقعات کے مواقع پرتیا ر رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔اگر حکومت پاکستان چاہے تو اپنے لگ بھگ ان ایک ہزارکیوبن ڈاکٹروں سے ایک فورس کے طور پر کام لے کر پورے ملک کے لوگوں کو اس علم سے بہرہ ور کر سکتی ہے مگرسرِدست محکمہ صحت میں ایسی فعالیت مفقودنظر آتی ہے ۔
دفاعی تعلیم اور ملٹری ٹریننگ:
کیوبا کے ہر طالب علم کو کالج کی تعلیم ختم ہونے اور کوئی پروفیشنل تعلیم کے حصول سے قبل 2سال کی لازمی فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ کچھ طلبہ دسویں کے بعد فوجی تربیت شروع کر دیتے ہیں تاکہ بارہویں کے بعد براہ راستProfessionalتعلیم حاصل کر سکیں ۔کیوبا میں دفاعی تربیت کو تعلیم کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں انہیں جنگی حکمت عملی سکھائی جاتی ہے تاکہ اگر کسی دوسرے ملک بالخصوص امریکہ نے حملہ کیا تو اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے اور آمریت کے خلاف کیسے جنگ کرنی ہے؟ ۔کیوبا کی پیشہ ورانہ طبی تعلیم میں بھی ان کے اپنے طلبہ کے لیے دفاع کے مختلف مضامین نصاب کا حصہ ہیں۔ تاہم ہمیں یہ نہیں پڑھائے گئے تھے ۔
مچھر ما ر ٹیمیں اور ملیریا:
میں روزانہ صبح ہسپتال جاتے ہوئے نیلے اور جامنی وردی میں ملبوس محکمہ صحت کے کچھ افراد کو دیکھتاتھا جواپنا سامان زمین پر بکھیرے اپنے انچارج کو ملاحظہ کرارہے ہوتے۔انچارج انہیں بریفنگ دے رہا ہوتا ۔یہ با وردی اشخاص گھر گھر جا کر ہر کمرے، ہر کونے، آلودہ پانی ،پرانے ٹائر ،غیر صاف مقامات ،کھلے برتن یعنی مچھروں کی افزائش کی جگہوں کو دیکھتے اورسپرے کرتے۔ پانی کے نمونے اپنے ساتھ لے جاتے اور ٹیسٹ کرتے ۔گھر والوں کو خبر دار کرتے کہ مچھروں سے بچیں اور ان کے خاتمے کے لیے تعاون کریں ۔یہ لوگ ہر ہفتے گھروں میں آتے اورہر ماہ کمیونٹی میں Fumigationدیتے۔ گویا مچھروں کی سدِ باب کے لیے ہر طرح کی کو شش کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ کیوبا میں پچھلے اکتالیس سال سے ملیریا ختم ہو چکا ہے۔دیگر بہت سی بیماریوں کو بھی جڑ سے ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک با ر جب ہمارے طلبہ پا کستان سے کیو با پہنچے تو ان میں سے ایک کو بخار ہو گیا۔ اس کی جب تشخص ہوئی تو ملیر یا ثا بت ہوا۔چناں چہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے شہر کے دوسرے ہسپتالوں سے ڈاکٹروں کو بلوا کر اس بیمار طالب علم سے ملوایا ۔ان ڈاکٹروں سے ہسپتال والوں نے کہا کہ:’’ آپ نے چوں کہ اپنی گریجویشن کے دوران ملیریا کاکوئی مریض نہیں دیکھا تھا، اسی لیے آپ کو بلوایا ہے کہ ہمارے پاس اس کا ایک مریض آ گیا ہے۔اس کے علامات ونشانات آکردیکھ لیں تاکہ ایک اور بیماری کی خصو صیات آپ کے ذہن نشین ہو جائیں ۔
(Caso Clinic):کلینکل کیس۔
جب کبھی دو ہفتے یا ایک ماہ کے بعد کہیں کسی مریض کا بغیر کسی تشخیص کے انتقال ہوجاتا،تو اسے موضوع بحث بناتے ہوئے کلینکل کیس کی شکل دے کر تما م ہسپتال کے عملے کو ہا ل میں مدعو کر کے تبادلۂ خیال کیا جاتا۔اس بحث کی سر براہی بیماری Pathologist کرتا۔ہال میں تیسرے سال کے طالب علم سے لے کر سپیشلسٹ ڈاکٹروں تک موجود ہوتے۔ان کو اس مریض کے بارے میں اہم معلومات جو اس کی Clinical Histroy میں موجود ہوتے یعنی جو معلومات اس کے علاج معالجے کے دوران اکٹھے کئے گئے ہوتے، ایک ورق پر لکھ کر ہر وارڈ میں دو ہفتے پہلے پہنچا دیے جاتے۔تاہم جو ڈاکٹر اپنا E.mailہسپتال انتظامیہ کو دیتے، وہ ان کو ان کے پتے پربھی مل جاتا۔ہر وارڈ میں موجو د اساتذہ اپنے طلبہ ڈاکٹروں کو Caseلکھواتے اور کہتے کہ فلاں دن، ہال میں اس ضمن میں تبادلۂ خیال ہو گا۔طلبہ ڈاکٹر دو ہفتے تک اپنی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس مسئلے کی تشخیص کے لیے کوشاں رہتے، پروفیسر وں سے مدد لیتے ۔ساتھ ہی اپنا ذمیہ کام بھی بہ خوبی انجام دیتے۔اس عمل سے طبی تعلیم کی شروعات میں طلبہ ڈاکٹروں کو فاضل ڈاکٹروں کی مشاورت و رہ نمائی نصیب ہوتی ہے ،رفتہ رفتہ ان میں طبی شعور پروان چڑھتا ہے اوراعتماد بڑھتا ہے۔سپیشلسٹ پروفیسروں سے تبادلۂ خیال میں نئے گُر سیکھنے کے مواقع میسر ہوتے ۔ حضرت امام احمد غزالیؒ سے پوچھا گیا کہ
کلینکل کیس، بحث کے آغاز میں تیسرے سال کے طلبہ کو بولنے اور تشخیص پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ۔بعد ازاں چوتھے ،پانچوں اور چھٹے سال کے طلبہ اپنے طبی شعور کے مطابق رائے پیش کرتے ۔پھر پروفیسروں کے زیرِ تربیت ڈاکٹر(Medical Residents)رائے دیتے اور اکثرِ مرض کی تشخیص میں کام یاب ہو جاتے ۔ پھرسپیشلسٹ ڈاکٹر اپنا موقف بیان کر تے جس میں نہایت اہم نکات کی نشان دہی ہوتی ۔ایسی معلومات طلبہ ڈاکٹروں کے طبی کیریئر کا لا ینفک بن جاتے ۔سب سے آخر میں Pathalogist کیس کا باریک بینی سے مطالعہ پیش کرتا اور اسے ہسپتال کے مختلف وارڈزکے پروفیسروں کو دیتا ۔ملٹی میڈیاپرAutopsy اور دیگر رپورٹوں سے ثابت کرتا کہ مریض کو کون سی بیماری لاحق تھی۔اگر ڈاکٹروں نے اس مرض کی صحیح تشخیص کی ہوتی تو انہیں داد دی جاتی ۔بہ صورتِ دیگر اپنیClinical History درست اور دورانِ پریکٹس صحیح ہسٹری لینے کی تاکید کی جاتی تا کہ مریض کا علاج بروقت اور بہ تر انداز میں ہو سکے۔کیوبا میں طبی تعلیم کے معیار نہ گرنے اور بہترسے بہترہونے کا یہ ایک اہم عنصر ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے