سفید لباس سے لپٹی ہوئی مطربہ
رات کے سرمئی پن میں
اپنی آنکھیں دروازے کے جانب مرکوز کئے ہوئے
دیواروں کے بین سن رہی تھی

یہ وہی دیواریں ہیں
جو کبھی ہم کلام ہوا کرتی تھیں
اب صرف بین کرتی ہیں

گذشتہ بچاس برسوں سے مطربہ
انہیں دیواریں کے ساتھ ہے
انہیں خلوتِ آشنا تصور کرتے ہوئے
سارے بھید کسی پیرہن کی طرح کھولتے ہوئے گویا ہوئی

اکانوی سیڑھی
میری موت کے لئے بنائی گئی
میں اندھیرے سے نکلنے کے لئے
روشنی کی تلاش میں
باونوی سیڑھی کی طرف قدم اٹھاتے ہی
موت۔۔۔۔۔۔۔!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے