انیسویں صدے کے آخری عشروں سے سندھ نے جدید تعلیمی اداروں سی مستفیذ ہونا شروع کیا. یہ تعلیمی ادارے حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر، شکارپور سمیت کئے چھوٹی بڑے شہروں اور قصبوں میں قائم ہوئے تاہم مرکزے شہر اور بندرگاہ کی وجہ سے کراچی اس عمل میں سرفہرست رہا. بیسویں صدی کی ابتدا سے ان تعلیمی اداروں کے طفیل تعلیم کے علاوہ جدید نظریات اور سیاسی اور سماجی آدرشوں نے بھی سندھ میں ذھنی انقلاب کے دروازے پر دستک دینا شروع کی.
ابتدائی طور پر کراچی میں خواتیں مختلف سماجی کاموں اور تھیوسوفیکل سوسائٹی کے زیر اہتمام علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں۔ تاہم 1920 کے عشرے میں انڈین نیشنل کانگریس کی قوم پرست سیاست کے زیر اثر خواتین نے سیاست کے میدان میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کیا. کراچی میں عملی سیاست کرنے والی دو خواتین کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے.
۔.1 جیٹھی سپاھی ملانی
۔4 فروری 1906 کو حیدرآباد میں ایک سرکاری ملازم کے خاندان میں پیدا ہونے والی جیٹھی اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرکے خاندان سمیت 1920 میں کراچی میں منتقل ہوگئیں، جہاں انہوں نے انڈین ہائی سکول سے میٹرک اور ڈی جے کالج سے بی اے کی تعلیم حاصل کی (تقسیم کے بعد انڈین ہائی سکول کا نام تو تبدیل کرکے گورنمنٹ گرلز کالج برنس روڈ کردیا گیا تاہم لگتا ہے کہ ’’دیا رام گڈومل‘‘ کے نام Initials پاکستان کے اسلامی حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آئے اور اس کالج کا سابقہ نام ہی برقرار رہا.)
جیٹھی نے ہائی سکول کے زمانے سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 1924 میں انڈین نیشنل کانگریس کے 39 ویں اجلاس میں کے گئے فیصلوں کی روشنی میں کراچی میں برطانوی مصنوعات بالخصوص کپڑوں کی بائیکاٹ مہم کی روح رواں بن گئیں ۔جب 1928 میں سائمن کمیشن کی ھندوستان آمد کے موقعہ پر پورے ملک کی طرح کراچی کی فضا بھی Simon Go Back کے فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگی تو اس میں جیٹھی کی آواز بھی شامل تھی. انہوں نے 1929 میں لاہور میں منعقدہ کانگریس کے مرکزی سیشن میں سندھ کی نمائندگی کی اور اْسی برس تھیوسوفیکل سوسائٹی کراچی میں سرگرم ہوگئیں، جس دوران وہ سوسائٹی کے یوتھ لاج کی صدر بھی منتخب ہوئیں. تھیوسوفیکل سوسائٹی کراچی اپنے صدر دارا مرزا کی قتل کے بعد غیر فعال ہوگئی اور آج کل اسکے آڈیٹوریم اور لائبریری کے بند دروازے کراچی کے شہریوں کاں منہ چڑا رہے ہیں۔
اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ1930 میں کچھ عرصے کیلئے گرفتار ہوئیں جبکہ 1932 میں گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد کانگریسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے موقعے پر جیٹھی کو بھی گرفتار کرکے سابرمتی جیل گجرات منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے چھ ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں.
جیٹھی سپاہی ملانی نے سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا اور گاندھی اسپتال کی سیکریٹری اور میونسپل سکول بورڈ کی رکن منتخب ہوئیں. جبکہ 1934 میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں کانگریس کی جانب سے کراچی میونسپل کارپوریشن کی رکن منتخب ہوئیں.
آل انڈیا وومینز کانفرنس کے 1934 کے دوران کراچی میں منعقدہ اجلاس نے جیٹھی سمیت سندھ کی خواتین میں آگہی کا ایک نیا انقلاب برپا کردیا. جیٹھی سپاھی ملانی کو اس اجلاس میں تنظیم کی سندھ برانچ کا صدر منتخب کیا گیا.
۔1935 میں نظام تعلیم کے مطالعے کیلئے انہوں نے یورپ کا دورہ کیا جبکہ 1936 میں سندھ کی بمبئی سے آزادی کی بعد 1937 میں منعقدہ سندھ اسمبلی کے پہلے انتخابات میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پر کراچی سے سندھ لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور اگلے سال وہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئیں۔ وہ اس عہدے پر 1946 تک فائز رہیں۔
۔1942 میں Quit India Movement کے سلسلے میں کانگریسی رہنماؤں اور کارکنوں کی طرح جیٹھی سپاھی ملانی نے بھی رضاکارانہ گرفتاری پیش کی اور ڈفینس آف انڈیا ایکٹ کے تحت ایک طویل عرصے تک کراچی سینٹرل جیل میں نظر بند رہیں۔
جیل میں ڈیڑھ سال کی مسلسل نظر بندی کے بعد جب جیٹھی کی صحت خراب ہوگئی تو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپنی رکن کو صحت پر تشویش کا اظہار کیا گیا. نتیجتاً صوبائی مسلم لیگی حکومت نے وزیر داخلہ اور اْن دنوں سندھ مسلم لیگ کے صدر اور رکن اسمبلی جی ایم سید پر مشتمل دو رکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے جیٹھی سے جیل میں ملاقات کی جو علاج معالجے کی مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کے وجہ سے انتھائی کمزور ہوگئیں تھیں.
سندھ کے انگریز گورنر کے اس پیشکش پر کہ اگر جیٹھی مستقبل میں بہتر رویے کی یقین دھانی کرائیں تو انہیں خرابی صحت کی بنا پر رہا کیا جاسکتا ہے. جی ایم اسید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جیٹھی کی غیرت نے تو گوارا نہیں کیا اور انہوں نے ایک با اصول سیاسی کارکن کے انداز میں جواب دیا کہ ’’جن لوگوں نے انہیں گرفتار کیا ہے یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ تاہم اگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کیلئے کوئی درخواست کریں گی یا کوئی یقین دہانی کرائیں گی تو ایسی توقع انکی جوتی سے بھی نہ کی جائے،،.
کچھ عرصے کے بعد جب انکی والدہ شدید بیمار ہوئیں تو جیٹھی کو والدہ کی تیماداری کیلئے پے رول پر رہا کیا گیا ۔تاہم پے رول کی مدت ختم ہونے تک انکی والدہ کی طبیعت بدستور ناساز رہی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سر غلام حسین ھدایت اﷲ نے ان کے پے رول میں ایک مرتبہ توسیع کی تاہم دوسری مرتبہ توسیع کیلئے انگریز گورنر نے اپنی سابقہ شرط برقرار رکھی کہ جیٹھی معافی نامہ داخل کرکے اپنی آزادی حاصل کریں تو انہوں نے اپنی بیمار والدہ کو چھوڑ کر جیل جانے کو ترجیح دی۔
ان کی جیل واپس سے قبل جی ایم سید اْن سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچے تو بقول جی ایم سید کے، جیٹھی نے اپنے پرس سے سندھ کے سیکولر شھید وزیر اعلیٰ اﷲ بخش سومرو کی تصویر نکالتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بزدل دوستوں کی ساتھ ساتھ زندہ رہنے کی بجائے جیل میں مرکر اپنے بہادر اور مجاہد ساتھی اﷲ بخش سومرو سے جاکر ملنے کو ترجیح دیں گی۔
عورتوں کی صحت سے متعلق جیٹھی کی کوششوں کے اعتراف میں انہیں 1944 میں بیک وقت پراونشل نرسز ایسوسی ایشن اور مڈ وائفز اینڈ ہیلتھ وزیٹرز کونسل کا صدر منتخب کیا گیا.
سکھر میں مسجد منز ل گاہ کے قضیے پر ھندو برادری کے قتل عام نے کئی دیگر سندھی کانگریسی رہنماؤں کی طرح جیٹھی کو بھی سیکولر سیاست سے ہندو فرقہ وارانہ سیاست کی جانب دھکیلنا شروع کیا جبکہ بعد ازاں سندھ میں مسلم لیگی قیادت کے برتاؤ اور بالخصوص جنوری 1948 کے دوران کراچی میں ہونے والے ہندوکش فسادات نے انہیں مکمل طور پر دائیں بازو کے کانگریسی عناصر کے ساتھ لا کھڑا کیا.
تقسیم کے بعد جب ایوب کھوڑ سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تو ایک اجلاس کے سلسلے میں جیٹھی سپاھی ملانی جی ایم سید کے ہمراہ کھوڑ کے گھر گئیں تاہم انہیں اپنے دوست اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ شہید اﷲ بخش سومرو کی قتل میں ملوث گردانتے ہوئے کچھ کھانے پینے سے انکار کیا تو ایوب کھوڑ نے جیٹھی کو باور کرایہ کہ شہید اﷲ بخش سومرو کے بھائیوں نے تو اْن سے تصفیہ کرلیا ہے، جس پر جیٹھی نے برجستہ جواب دیا کہ بھائیوں سے اﷲ بخش کا نسلی تعلق تھا جبکہ انکا اﷲ بخش سے اصولی تعلق تھا.
تقسیم کے بعد ابتدائی طورپر سندھ سے نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کرنے والی جیٹھی سپاھی ملانی جنوری 1948 کے فسادات کے فوراً بعد نقل مکانی کرکے بمبئی منتقل ہوگئیں جہاں وہ 1952 سے 1962 تک بمبئی لجسلیٹو کونسل اور بعد ازاں مہارشٹریہ کونسل کی ڈپٹی چےئر پرسن منتخب ہوئیں۔

۔.2 کامریڈ شانتا بخاری
کراچی کی پہلی خاتون ٹریڈ یونین رہنما کامریڈ شانتابخاری اپریل 1924 میں راجھستان کے علاقے جھالا واڑ کے گاؤں کوٹا بوندے میں ایک محنت کش درزی کے ہاں پیدا ہوئیں۔ انکی والدہ اپنی بیٹی کو جنم دیتے ہوئی انتقال کر گئیں تو شیر خوار شانتا کی پرورش کی ذمہ داری ان کی نانی اور ٹریڈ یونین کا رکن خالہ سندرانے سنبھالی. شانتا کی یہ خالہ احمد آباد گجرات میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکن اور مقامی ٹیکسٹائل مل میں یونیں رہنما تھیں، انکی شادی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اور سرگرم کارکن جگن خان پٹھان سے ہوئی۔ شادی کے بعد کامریڈ سندرانے اسلامی نام آمنہ اختیار کیا جبکہ پارٹی سرکلز میں وہ سکینہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھیں۔
بارہ برس کی عمر میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شانتا نے اپنی محنت کش خالہ کے ساتھ ٹیکسٹائل مل میں کام کرنا شروع کیا، جس دوران انہوں نے اپنے بنیادی حق کی طور پر ٹریڈ یونین میں شمولیت اختیار کی اور ہفتے میں ایک دن احمد آباد کی گلیوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اخبار اور جرائد فروخت کرنا شروع کیے۔
مارچ 1943 میں احمد آباد گجرات میں ایک مزدور کانفرنس کی سلسلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سندھ تنظیم کے 43 سالہ کامریڈ جمال الدین بخاری ایک اہم مقرر کے طور پر مدعو کیے گئے جہاں نوجوان کامریڈ شانتا مقامی رضاکار کے طور پر کانفرنس کے انتظامات میں سرگرم تھیں. معروف سندھی کالم نگار علی احمد بروہی کے مطابق کانفرنس میں کامریڈ بخاری کی پرجوش تقریر نے 19 سالہ شانتا کو گرویدہ بنا لیا اور کچھ سینئر کامریڈز کی تجویز پر وہ کامریڈ بخاری سے شادی کرکے مئی 1943 میں اسلامی نام زیب النسا اختیار کرکے کراچی منتقل ہوگئیں، جہاں اس نوبیاھتا جوڑے کی پہلی دعوت جی ایم سید نے حیدر منزل پر جبکہ دوسری دعوت ہاشم گذدر نے کی۔
شادی سے قبل سوشلسٹ انقلاب اور ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کرتے ہوئے کامریڈ بخاری اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح انتہائی غیر منظم زندگی گزار رہے تھے جس میں کھانے پینے اور پہننے کے بجائے صرف انقلاب اور سیاست کا جنون تھا. خوش قسمتی سے کامریڈ بخاری کی شریک حیات انکی سیاسی ہمسفر بھی تھیں. جنہوں نے اپنے شوہر کو سیاست سے روکنا دوررکھنا تو درکنار، بلکہ اپنی سیاسی اور تنظیمی سرگرمیاں بھی شروع کردیں. کامریڈ شانتا بخاری سے نہ صرف گھریلو زندگی سے دور رہنے والے کامریڈز کیلئے بندر روڈ پر لائیٹ ہاؤس سینما کے قریب کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں ایک کمیون قائم کیا جہاں پر کامریڈز کو نہ صرف مل بیٹھ کر بحث و مباحثہ کرنے اور مربوط حکمت عملی بنانے کا موقعہ میسر آیا بلکہ اب انہیں ملباری کی ھوٹل پر کھانا کھانے کے بجائے کامریڈ شانتا کے ہاتھوں کا بنا ہوا کھانا بھی نصیب ہونے لگا۔ کامریڈ شانتا کی موجودگی کے باعث کامریڈز کے برتاؤ میں واضح تبدیلی آئی جبکہ پارٹی دفتر میں ایک خاتون کی موجودگی کے باعث مزدور طبقے اور متوسط طبقے کی خواتین نے بھی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر آنا شروع کیا.
انہی خواتین کی مدد سے کامریڈ شانتا بخاری نے خاکروب خواتین کی ’’کراچی میونسپل صفائی خدمت یونین‘‘، محنت کش خواتین کی ’’ناری مل مزدور یونین‘‘ جبکہ گھریلو خادماؤں کی ’’خدمتگار یونین‘‘ قائم کیں اور انکی عہدیدار منتخب ہوئیں. بعد ازاں انہوں نے روایتی دایوں، چوڑیاں بنانے والی خواتین اور سوت کاتنے والی خواتین کی تنظیمیں بنائیں اور انکی صدر منتخب ہوئیں.
کامریڈ شانتا بخاری کی سب سے بڑے بیٹے مظفر سلطان کا نام کمیونسٹ رہنما کامریڈ حاجرہ بیگم نے تجویز کیا تھا. وہ مشہور کمیونسٹ رہنما زیڈ اے احمد کی بیگم اور 1930 کی دھائی کے دوران لندن میں ہندوستانی طلبہ کی قیادت کرتے ہوئے پہلی مرتبہ کمیونسٹ جھنڈا لہرانے کا اعزاز رکھتی ہیں. اگرچہ کامریڈ احمد اور زیڈ اے احمد نے تقسیم کے بعد پاکستان کے بجائے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی تاہم انکے کچھ دیگر رشتہ دار، پاکستان منتقل ہوئے جن میں سے سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس صبیح الدین احمد اور رکن سندھ اسمبلی بیگم طاہرہ آغا اہم ہیں۔
فروری 1946 میں انڈین رائل نیوی کے باغی اہلکاروں کے ساتھ یکجہتی کے طور پرکراچی کے باشندوں نے کمیونسٹ پارٹی کی اپیل پر ہڑتالوں اور احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا تو کامریڈ شانتا بخاری اور انکی خواتین کارکنوں نے کراچی کی سڑکوں پر ہر اول دستے کا کردار ادا کیا.
جولائی 1948 میں جب حکومت پاکستان نے سیفٹی ایکٹ کے تحت کامریڈ جمال الدین بخاری، کامریڈ سوبھو گیانچندانی، اے کے ہنگل اور کیرت بابانڑیں سمیت کمیونسٹ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا تو کامریڈ شانتا بخاری نے اپنے دو بیٹوں کی دیکھ بھال کے ساتھ کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے کاموں اور دفتر کے انتظامی امور اپنے ہاتھوں میں لے لئے. کامریڈ بخاری کی گرفتاری اور دفتر کے سیل ہونے کے وقت کامریڈ شانتا کے پاس پارٹی فنڈ کے اٹھائیس ہزار روپے نقد، بندر روڈ پر واقع پارٹی دفتر، پارٹی پریس اور برنس روڈ پر واقع پارٹی کے ایک فلیٹ کی چابیاں تھیں. کئی لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس رقم سے ان دنوں ڈولپ ہونے والی سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک پلاٹ خرید لیں تاہم کامریڈ جمال الدین بخاری کے مشورے پر انہوں نے یہ رقم اور چابیاں الفنسٹن اسٹریٹ پر کامریڈ سجاد ظہیر اور حسن ناصر شھید کے حوالے کردیں۔اپنے شوہر کی گرفتاری اور پارٹی دفتر کے سیل ہونے کے بعد کامریڈ شانتا اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ برنس روڈ پر واقع قاضی مینشن کے فلیٹ نمبر 29 میں منتقل ہوگئیں، جہاں ایک اور مفید کامریڈ سوبھو گیانچندانڑیں بھی آکر رہائش پذیر ہوئے۔
اپنے شوہر کی رہائی کیلئے کامریڈ شانتا بخاری نے ایک بھرپور تحریک چلائی اور وزیر اعلیٰ پیر الاھی بخش، چیف سیکریٹری این اے فاروقی اور سیکریٹری داخلہ ہاشم رضا کا ناطقہ بند کردیا، انکا مطالبہ بڑا عجیب و غریب تہا کہ چونکہ انکے شوہر کی گرفتاری کے بعد انکی اور بچوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں چناچہ انہیں اپنے بچوں سمیت جیل میں ڈالا جائے یا حکومت وقت انکے روز مرہ کے اخراجات کی ادائیگی کرے.
مہینے میں ایک مرتبہ جیل میں اپنے شوہر سے ملاقات کی اجازت تھی، جنکی نظربندی کی معیاد میں ہر تین ماہ بعد توسیع کی جاتی.
تقریباً ڈھائی سال کامریڈ شانتا کی جانب سے اپنے شوہر کی رہائی کیلئے چلائی گئی مہم اور ان کے لیے ھنگل اور کیرت بابا نڑیں سمیت کئی کمیونسٹ کے بھارت نقل مکانی پر رضامندی کے بعد اگرچہ مارچ 1951 میں کامریڈ جمال الدین بخاری کو جیل سے تو رہا کردیا گیا تاہم انہیں کراچی بدر کردیا گیا. اس پابندی کے باعث کامریڈ شانتا بخاری اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ لاڑکانہ منتقل ہوگئیں جہاں اگرچہ انہوں نے براہ راست کمیونسٹ سیاست میں تو حصہ نہیں لیا تاہم وہ سماجی کاموں بالخصوص خواتین کی ترقی کے ضمن میں انتہائی سرگرم رہیں.
ابتدائی طور پر کامریڈ جمال الدین بخاری نے لاڑکانہ میں عرضی نویسی کا کام کرنا شروع کیا، بعد ازاں اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے انصاف پریس چلانا شروع کی.
کامریڈ شانتا بخاری 90 برس کی سرگرم زندگی گذارنے کے بعد 26 جولائی 2014 کو لاڑکانہ میں انتقال کرگئیں.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے