لیڈر شپ یا رہنمائی انسانوں کے اجتماعی مسائل کے حل کی جانب عملی پیش رفت کا نام ہے۔ یعنی قیادت محض فکر کا نام نہیں بلکہ یہ عمل کے ساتھ سے منسلک ہے۔ اسی لیے قیادت ، عوام کے بغیر یا اُن سے دور ممکن ہی نہیں۔ عوام سے دُور یا ان سے الگ تھلگ رہ کر قیادت کرنے والے زندگی میں خواہ حیلے حربوں سے کتنا ہی لوگوں پر اپنا رعب جما لیں، ان کی تعلیمات عوام میں جڑیں نہیں بنا پاتیں، اور جوں ہی ان کا طبعی سفر مکمل ہوتا ہے ان کی تعلیمات اور فکر عوام کی نظروں سے اوجھل جاتے ہیں۔
جب کہ اس کی نسبت حقیقی قیادت ہمیشہ عوام کے مابین رہ کر اپنی فکر کو عمل سے ثابت کرتی ہے۔ اس لیے عوام میں ان کی جڑیں اس قدر مستحکم ہو جاتی ہیں کہ ان کے جانے کے بعد بھی وہ فکر عوام میں نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ مسلسل پھیلتی رہتی ہے، سفر کرتی رہتی ہے۔
یہ تمہید ہے اس لیڈر پر بات کرنے کے لیے جنھوں نے اپنی محبت، عمل،کردار اور انسانیت سے، محبت کے جذبے سے ، عوام کی تربیت کی، نوجوانوں پہ اثرانداز ہوئے، دانش وروں کو متاثر کیا، عام انسانوں کے دل میں گھر کیا۔ جی ہاں بابا عبداللہ جان!میکسم گورکی کے ناول ماں، کا پاویل…مارکس کا پر تو…جو ذہنوں کو زرخیز کرنے اور زرخیز رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔جو ہرعمر کے افراد کی ذہنی سطح کو جاننے کے ماہر نفسیات، معالج تھے وہ۔
نوجوانوں کو اس قدر اعتماد دیتے کہ وہ دنیا فتح کرنے نکل کھڑے ہوتے۔اور یہ سب جو وہ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی طرح کرتے تھے، اس کا ایک ہی ہتھیار تھا ان کے پاس؛…”محبت”۔کسی نے کیا خوب کہا کہ اگر محبت سے بھی کوئی ٹھیک نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ کہا کہ ڈوز بڑھا دو۔کہا کہ پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو؟ کہاکہ ڈوز مزید بڑھا دو۔لہٰذا بابا عبداللہ جان محبت کا ڈوز بڑھاتے رہے، محبت پھیلاتے رہے اور اس طرح وہ لیڈربن کر سب کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں۔
بابا عبداللہ جان دراصل ساری عمر شجر کاری کرتے رہے؛اچھے انسانوں کی شجر کاری۔انسان سے محبت کرنے والے انسان اگاتے رہے، ان کی آبیاری کرتے رہے،ان کے ٹھنڈے میٹھے سائے کا مزہ لیتے رہے۔اس طرح انھوں نے اپنی ایک مضبوط آ رمی تیار کی۔ سنگت اکیڈیمی آ ف سائنسز کی صورت میں، سنڈے پارٹی کی صورت میں، سنگت کے قائدین کی صورت میں۔ جب تک یہ گھنے درخت پھل دیتے رہیں گے، سایہ دیتے رہیں گے، انسان اور انسانیت کی بات کرتے رہیں گے، بابا عبداللہ جان صدقہ جاریہ کا اجر پاتے رہیں گے۔
ایک سال گزر گیا ان کو ہمارے پاس سے اٹھے ہوئے۔ کیا واقعی وہ ہمارے بیچ سے اٹھ چکے ہیں؟ مجھے تو ایسا اس پورے سال میں کہیں بھی نہیں لگا۔ سنڈے پارٹی ہو،پوہ زانت ہو یا کوئی اور اکٹھ، ہماری گفتگو میں، فضا میں، سوچ میں، عمل میں بابا شامل رہے۔تب ہی جب یاد آ یا کہ 19 ستمبرکو ان کی برسی ہے تو حیرت ہوئی کہ وہ گئے کب تھے؟۔
انھوں نے تو خود ’شمعِ فروزاں‘ میں کہا کہ،’’ مردہ زندہ نہیں ہو سکتا،اب تک کے انسان کا یہی تجربہ ہے،البتہ اس کے عمل کی پیروی کی جا سکتی ہے،اس کے نیک عمل میں وہ زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘
تو یہ طے ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ہم نے انھیں زندہ رکھنا ہے، ان کی پیروی کر کے، ان کی نیک راہ پہ چل کے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے