کتاب کا نام: شاہ عنایت شہید
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 80
قیمت : 150روپے
مبصر : عابدہ رحمان

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتابیں جب میں پڑھتی ہوں تو ہر دفعہ خود کو کہتی ہوں کہ ’ یار تم کتنی بے خبر تھی‘۔اکثر شخصیات کا صرف میں نے نام بس سنا تھا، ان کو جانا میں نے ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھ کر ہی۔ ایسی ہی ایک عظیم شخصیت شاہ عنایت کی ہے۔ وہ کون تھا ؟ اس نے کیا کِیا؟ وہ کتنا بڑا عاشقِ انسانیت تھا؟ سب میں نے اسی چھوٹی سی کتاب سے جانا۔
سر سبز و شاداب میران پور قبیلہ ، لانگاہ ، کے اندر1655ء میں یہ چاند طلوع ہوا ۔ زمانہء عالمگیری تھا۔ظلم و ستم کی دھند ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ابتدئی تعلیم اس نے اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد معمارِ شخصیت ، حضرت شیخ شمس الدین ملتانی نے اس کی تعمیر کی اوربعد ازاں وہ آبِ روحانیت اور دنیاوی شعور سے پیاس بجھا نے کے لیے حیدرآباد ہندوستان گیا اور شاہ عبدالمالک سے فیض حاصل کیااور اس کے چوغہ و خلعت کا سند یافتہ ہوا لیکن شاہ نے تو شاہ سے اس کی تلوار بھی طلب کر لی ۔ قیمت بھی اس تحفے کی ایسی شایانِ شان رکھی یعنی اپنی گردن کے عوض۔علم کے اس پیاسے کا اگلا کنواں شاہجہاں آباد میں شاہ غلام محمد تھا۔ شاہ عنایت، جس کی انگلیاں غریبوں، زیرِدستوں کی نبض پر تھیں۔ یہ طبیب ان کے ویران زرد چہروں سے ان کی بیماری کا پتہ لگاتے تھے۔ شاہ غلام محمد مرشد جب اس کے واقفِ فلسفہء حیات ہوا تو اس مہا مرشد کی دستار کا پلُو تھام کر تقلید میں چل پڑا۔شاہ فلسفہء بدھ مت سے لے کرمولانا روم تک سب سے علم کے گوہر چن چن کر کشکولِ فقیری کو بھرتے ہوئے فیوڈل ازم سے اٹے سندھ کو لوٹ آیا جہاں یار محمد کلہوڑ اسیاہ و سفید کا مالک تھا۔ ملا ، حاکم، پیر غریبوں کو صبر شکر کی تلقین کرتے تھے۔ خود دولت بازی کر کے دوسروں کو دنیا سے فرار سکھاتے تھے۔ پشتو کے شاعر غنی خان کی بات کہ ؛
ماتہ د جنت قیصی زان تہ د دنیا حساب
دا دی عجیبہ انصاف، دا دی عجیبہ کتاب
یعنی ، میرے لیے جنت کے قصے اپنے لیے دنیا کا حساب، یہ تیرا عجیب انصاف، تیری عجیب ہی کتاب۔
کسانوں کی محنت کا پھل لگان کی صورت حاکموں، ملا اور سید کے پیٹ کے جہنم بھرتا تھا۔ اورنگ زیب کی موت کے بعد حصولِ تخت کے لیے قتل و قتال کا بازار جو گرم ہوا تو بغاوتیں، ٹیکس، جنگیں ، مہنگائی تو آنا ہی تھی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب لکھتا ہے کہ جب ظلم و استحصال، نا انصافی، بے اطمینانی اور جبرکے تعفن سے سانس بند ہونے لگی تو اس مفکر ، عاشقِ انسانیت نے بیمار معاشرے کواجتماعی کاشت کاری کا فلسفہ دیا۔ غریب جو سرکارگورنر، مذہبی طبقے اور جاگیردارکی غلاظت کی تکون میں محصور تھے۔طبقاتی لوٹ مار زوروں پر تھی جب اس فقیر کے نعرۂ مستانہ سے جھوک کے درو دیوار گونج اُٹھے ’ الارض اللہ ۔۔۔!‘ اور زمین اللہ کی ہے ،’جیکو کھیڑے سو کھائے۔۔۔! ‘ جو اُگائے ،وہی کھائے۔ اس نعرے نے ذات پات کے بیچ کھچی لکیر مٹا دی۔ ۔۔۔ بس سب انسان تھے۔ زمین کو تمام انسانوں کا حق بتا کر ان کی عزتِ نفس کو تقویت ملی اور اس نعرۂ مستانہ کی چھتری تلے غم کے مارے، مصیبتوں سے جوڑ جوڑ ہلے غریب بڑی تیزی سے اپنی اپنی زمین کے ساتھ جمع ہو رہے تھے۔ اجتماعی کاشت کاری کے اس کمیون میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز کہ مرشد و مرید سب محنت میں بھی شریک اور پیداوار میں بھی۔ ا س زلزلہء تحریک سے تو جھوک کی زمین لرز گئی۔
ظالم جو بزدل بھی ہوتا ہے، تحریکِ فقیراں سے خوف زدہ، غریب کی بیداری سے خوف زدہ ہو کر اس کے رگِ جاں کو آجاتا ہے اور اپنے ظلم کا انگوٹھا اس کی شہہ رگ پر مزید دبا دیتا ہے۔ سرکار، دربار،ملا، فتوے ۔۔۔ بوکھلاہٹ میں مزید ظلم۔۔۔
حاکمینِ وقت جو خود بھی ڈاکوؤں کی ذات سے تھے، ڈاکوؤں کو ساتھ ملا کر جھوک پر حملہ کر دیا اور35 شہیدوں کا تحفہ دیا۔ شاہ عنایت نے تختِ دہلی کو خبر کر دی تو بطورِ قصاص زمینیں شہدا فقیروں کے وارثوں کو دی گئیں جن پر مشترکہ زرعی نظام کو وسعت دی گئی تو جھوک کے جاگیردار تلملا اُٹھے کہ مزارعے نہ رہیں ، رعب نہ رہے تو کون سی جاگیر اور کہاں کی جاگیرداری۔۔۔! تحریک پھیلتی چلی گئی ۔ مغل گورنر کے ٹیکس کے مطالبے پرفقیروں کے انکار پرمغل بادشاہ فرخ سیر سمیت سب بپھر گئے اور1717ء میں جھوک کا محاصرہ کر دیا۔ آزادی کا مزہ چکھ لینے کے بعد، آزادی کے نشے میں سرشار فقیر مزاحمت کے لیے تن کر کھڑے ہو گئے۔ چار ماہ تک فقیر شبِ خون مارتے رہے لیکن جھکنا گوارا نہ کیاتو درباری پسپا ہوتے چلے گئے۔
پھر یوں ہو اکہ قرآن کو ضامن ٹھہرایا گیا جو شاہ عنایت کو خیمے سے میدان تک لے آیا۔ زبان کا پاس تو غیرت مند کرتے ہیں ۔ شاہی کتے، حرص و ہوس کے غلام ، شاہِ محبت کو میدان میں لے آئے۔ اس کے سامنے اس کے پیاروں کو شہید کیا گیا۔ وہ تڑپتے رہے ، شاہ دیکھتا رہا۔ 7 جنوری کو شاہ عنایت کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ تلوار کے بدلے گردن کا تحفہ دینے کا وعدہ پورا کیا گیا۔ شاہ عنایت کو شہید کیا گیا۔ اس کی زبان پر آخری الفاظ یہ تھے؛
رہانیدی مرا از قیدِ ہستی
جزاک اللہ فی الدارین خیرا
تم نے مجھے زندگی کی قید سے آزاد کر دیا
اللہ تمھیں دونوں جہانوں میں جزا دے
جھوک میں تو کہرام برپا ہونا ہی تھا۔ مریدوں کو تو غضب ناک ہونا ہی تھا۔ ضمیر فروشوں نے شہر کو آگ لگا دی۔ فقیروں کا قتلِ عام کیا۔ 24ہزار فقیر شہید ہو گئے۔ 7کنویں شہیدوں کی اجتماعی قبریں بنے اور گنجِ شہیداں کا نام پایا۔ بے وقوف تھے جو زرد لباس میں فقیروں کو قتل کر کے سمجھتے رہے کہ نظریات کو قتل کر پائیں گے ۔نظریہ ختم ہوا کیا؟۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے