کون دروازہ کْھلا رکھتا برائے انتظار؟
رات گہری ہو چلی, رِہرْو ! عَبث ہے کْل پْکار
آنکھ جل جاتی ہے, لیکن خواب جْھلساتی نہیں
سْرمئی ڈھیری کی خْنکی سے جنم لے گی بہار
کون دشتِ کرب کے آزار کا عادی ہْوا
کون جا پایا ہے بحرِ درد کی موجوں کے پار
رَنج میں لِپٹا رہا مہتاب کا غمگیں بدن
رات ٹیرس پر کوئی سجدے میں رویا زار زار
اب کسی شکوے گِلے کی کوئی گنجائش نہیں
آپ اپنے ہاتھ سے سونپا تھا اْسکو اختیار
کیفیت کی پوچھ مت, ہمدم! کہ لطفِ قْرب سے
آج کچھ بڑھ کر ہے اپنے اندروں بہتا خْمار
شاہزادی روزنِ زنداں سے رِہ تکتی رہی
شہر کی رخشندگی میں کھو گیا اِک شِہسوار
اِک نظر کا معجزہ, میرے قلم کا سب ہْنر
اِک سْنہری دھیان سے برسی ہے نظموں کی پْھوار