فراق موسم کے آسماں میں اْجاڑ تارے جَڑے ہْوئے ہیں
ندی کے دامن میں ہنس راجوں کے سرد لاشے گِرے ہْوئے ہیں

چمکتے موسم کا رنگ پھیلا تھا, جس سے آنکھیں دھنک ہْوئی تھیں
اور اب, بصارت کی نرم مٹّی میں تھور کانٹے اْگے ہْوئے ہیں

تِرے دریچے کے خواب دیکھے تھے رقص کرتے ہْوئے دِنوں میں
یہ دِن تو دیکھو جو آج نِکلا ہے, دست و پا سب کَٹے ہْوئے ہیں

خْمار کیسا تھا ہمرَہی کا, شْمار گھڑیوں کا بْھول بیٹھے
تِرے نگر کے فقیر اب تک اْس ایک شب میں رْکے ہْوئے ہیں

اْسے عَداوت تھی اْس صبا سے جو میرے چہرے کو چْھو گزرتی
وہ اب نہیں ہے, تو اپنے آنگن میں لْو کے ڈیرے لگے ہْوئے ہیں

رہو گے تھامے یْونہی یہ چوکھٹ, اگرچہ اِک بھی نظر نہ ڈالوں ؟
ہنساؤ مت! گھر کو لَوٹ جاؤ! یہ راگ میرے سْنے ہْوئے ہیں

کہاں رْکے تھے, وہ کیا شجر تھے, کہ جن کے سائے میں ہم کھڑے تھے
وہ دْھوپ کیسی تھی جِسکی بارش سے میرے صحرا ہَرے ہْوئے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے