درسگاہیں بنیں قتل گاہیں
قلم تلوار ہوئے
حکم آیا پھونک دوافکارِتازہ کی روشنی کو
جو ایک جہانِ نوکی نوید دیتی ہے
لرز گئے بام و در دشمن آسماں ہوا
زمین کھینچ لی پاؤں تلے فقیہہ شہر نے
وہ جواں جو ہاتھ میں سورج لئے اترا تھا
نگل لیا اندھیروں نے مبارک سلامت کے شور میں
وہ مذہب جو مظلوموں پہ رحمت بن کرآیا تھا
آج اپنی ہی امت کے ہاتھوں موت کا پروانہ بنا
پتھر اٹھاے پھرتے ہیں ہر گلی کوچے میں دیوانے
کسے نشانہ بنائیں کسے زیر عتاب کریں
جنہیں فخر تھا کبھی کافر کو مسلمان کرنے میں
آج د رپے ہیں ہر مسلماں کو کافر کریں
ردالفساد کا فتوی جاری و ساری ہے
ردِ جہالت سے ہر شخص انکاری ہے
تار تار انسانیت دزیدہ نظروں سے تکتی ہے
کوئی مسیحا کہیں سے آئے یدبیضا لے کر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے