آپ محمد حسن خان براہوئی (جو بلوچستان میں اردو زبان کے پہلے صاحب دیوان شاعر، براہوئی زبان کے اولین غزل گو شاعر ، فارسی کے پانچ دیوان رکھنے والے اور بلوچی میں ایک اچھی خاصی دفترکے مالک تھے )کے پڑپوتے اور اپنے دور کے ایک اعلیٰ منتظم میر نور الدین خان کے صاحبزادے تھے ۔ آپ15اکتوبر 1912کو اس دنیا میں تشریف لائے۔
آپ نے بڑی صعوبتوں اور مشکلات سے زندگی کی ابتدا کی۔ جب آپ کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو آپ تقریباً 11،12سال کے تھے ۔
آپ کی مہمان نوازی مثالی تھی ۔ کوئی دن بغیر مہمان کبھی بھی نہیں رہے۔ ساتھ ہی یتیموں ، غریبوں اور بیواؤں کے لیے بڑی ہمدردی رکھتے تھے اور ان کی دلجوئی ، مدد میں ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے۔
عزیز اقربا، دوستوں اور رشتہ داروں سے میل جول اور ان کی ہر طرح سے خیالداری اور مالی مدد کرنا آپ کا دمِ آخر تک شیوہ رہا۔
وقت کی پابندی کا انتہائی زیادہ خیال رکھتے تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ ہر کام وقت پر کی جائے اور کوئی تساہل برداشت نہیں کرتے تھے علاوہ ازیں وہ انتہائی کم گو اور مدبر شخصیت کے مالک تھے ، اور ہمہ وقت کام اور تند ہی سے کام پر زور دیتے تھے اور دوسروں کو بھی وقت کی قدر کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔
صبروشکرکے پیکر تھے ۔ وہ سب کو انصاف پر مبنی عدل کا درس دیتے تھے ۔
آپ ایک اعلیٰ پائے کے منتظم تھے۔ دوران ملازمت بطور تحصیل دار اور اسسٹنٹ کمشنر آپ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تعینات رہے ۔ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے سامنے سینہ سپر رہتے تھے۔ اسی وجہ سے انتظامیہ میں ایک دبنگ آفیسر کے طور پر پہچانے جانے تھے ۔
تعلیم ، تربیت کے بارے میں آپ کے خیالات ، عمل قابل تقلید ہیں۔ وہ بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ ہر باشعور شخص اپنے آباؤ اجداد کے علمی ورثے کو عزیز رکھے اور یہ کہ تعلیم تہذیبی ورثے کے تحفظ اور تسلسل کا فریضہ سرانجام دیتی ہے ۔ اس سلسلے میں ان کے جذبات جو انہوں نے فارسی شاعری میں پیش کیے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔ بعنوان
دروصفِ علم وادب
آرزو مندم الہی دہ مرا علم وادب
نیز خواہم از برائے اقربا علم وادب
دہ زلطفِ سرمدی خویش مارا ربنا
از طفیلِ سید بدر الدجیٰ علم وادب
بہرِ شاہاں است تانکہ وزبرائے فوت قلب
دار دا اعجاز ہمچو عیسےٰ دائما علم وادب
آشتی وہم محبت کن تو باعلم وادب
درشتابی ساز باخود آشنا علم وادب
طول عرضش از قیاسم بیش ومعنےٰ اش بسے
مے پسندد از ہمہ مولائے ماعلم وادب
گفت علیؔ عامل شوید ایدوستان ودشمنان
بہرِ درد ہر مرض گشتہ دواعلم وادب

آپ کی طبیعت میں زندگی بھر سادگی کا عنصر غالب رہا۔ اور سوچ و فکر میں نکھار اور احساسات میں خلوص ہی خلوص پایا جاتا تھا۔
فارسی کے علاوہ آپ کی اردو زبان میں بھی تقریباً 250اشعار پر مشتمل بیاض موجو د ہے ۔ اپنی شاعری میں آپ حافظ شیرازی ، شیخ سعدی، ملا محمد حسن اور علامہ اقبال کی مسلمہ شاعری سے کافی متاثر نظر آتے ہیں اور اسی کو اپنا مکتبہ فکر بنا کر آگے بڑھتے گئے ہیں۔ شیخ سعدی کی ایک غزل کے تتبع میں کہتے ہیں:
عاشق ، معشوق اندر رازِ خود باشند مست
زاہد اندر زہدمست وعابدان اسرار مست
شد علیؔ شاگرد سعدی در زمانِ آخرین
سال مست وماہ مست وروز شب ہموار مست
کمزور اور بدحال لوگوں کو کس طرح توکل کادرس دیتے ہیں کہ اقتدار اور مال دولت آنی جانی ہے اس لیے اس کی فکر چھوڑ کر محنت کرتے رہا کریں:
بقصرِ قیصر وفنفور وکج کلاہان بین
کہ بوم نغمہ سرا ہند زاغ قافیہ سنج
علی ؔ تو چند خوری غم زگردشِ افلاک
توکلت بخدا کن تو از زمانہ مرنج
ملا محمد حسن براہوئی کے ایک غزل سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا ہے ۔
امروز نگارے بہ دیارے شدہ پیدا
واہ واہ کہ دیاریست چویارے شدہ پیدا
برما رخش زلفِ چودید علیؔ گفت
اعجوبہ کہ بر مہ سیہ مارے شدہ پیدا
شیخ سعدی کی ایک اور غزل کے تتبع میں دورِ حاضر کے بارے میں کیسے نشاندھی کی ہے ۔ ملاحظہ کریں:
چنین مرضے کہ من دارم حکیماں خود اسیرِاین
دوایم کے دہدیارب کہ ہوشیاران نمی بینم
بمثلِ شیخ سعدی گو علیؔ این مصرع رایعنی
جوانان بے ادب گشتند کس از پیران نمی بینم
خواجہ حافظ شیرازی کی ایک مشہور غزل کے تتبع میں بھی ان کے کلام کا یہ آخری دو بند پڑھ کر لطف اندوز ہوجائیں۔
اقرب، خویش مرا خوش بنما اے مولا
زانکہ لطف توبہ کاہ وبہ شجر می بینم
ہم علیؔ است بدرگاہِ تو طالب شاہا
دہ امانم کہ جہاں زیر و زبرمی بینم
دربیم ورجا کے زیر عنوان ایک غزل میں برائی اور کاہلی کو چھوڑ کر اچھا بننے کی تلقین کس خوبی سے کی ہے ۔
ای دلِ نادان بمثل طفل نادانی ہنوز
زار گریان توز بہرِ لقمۂ نانی ہنوز
روز شب درمعصیت افتادہ ومستی بسے
درمیان قلزموامواج حیرانی ہنوز
گاہ روی بر آسمان وگاہ برارضی اوفتی
اے دلِ نادان بمثل گوی وچوگانی ہنوز
در رجاباشد علی ؔ ناگاہ بگوید ہا تفی
غم مخور از لطف من چون لعلِ رمانی ہنوز
سیاست /خدمت خلق
آپ کی سیاسی اور ذہنی ساخت یوسف علی عزیزمگسی اورمیر عبدالعزیز کرد کے مکتبہ فکر سے متعلق تھی ، لیکن ستم ہائے روز گار اور کچھ مجبوریوں کے ہاتھوں عملی سیاست میں نہ آسکے۔ مگر قومی جوش وجذبہ اور فکر وطن چونکہ آپ کے رگ وپے میں سمایا ہوا تھا تو باقاعدگی سے اُس دور کے اخبارات اور رسائل میں اپنی نگار شات کے ذریعے قوم ووطن کی حالت زار سے آگاہی کے علاوہ اپنے اشعار میں بری رسم ورواج سے دوری ، اتفاق واتحاد پیدا کر کے ایک لڑی میں پرو کر مضبوطی حاصل کرنا اور تعلیم حاصل کرنے اور حقوق کو پہچان کر انہیں حاصل کرنے کا درس دیتے رہے ۔
مندرجہ ذیل اخبارات میں آپ کے مضامین اور اشعار جگہ پاتے تھے ۔
۔1۔اخبار بلوچستان جدید کراچی
۔2۔ اخبار نجات کراچی
۔3۔اخبار ترجمان بلوچ کراچی
۔4۔ اخبار ینگ بلوچستان کراچی
’’گلستان بلوچستان‘‘کے زیر عنوان آپ کی یہ نظم یاد گار کا درجہ رکھتی ہے
گلستانِ بلوچستان میں تھے چہچہ زن بلبل
ابھی خاموش بلبل ہیں کہ ہیں وہ در قید زندانی
کہاں دانا کی نادانی کہاں نادان کی دانائی
عجب ہے گردشِ گردوں کی یہ تبدیلِ دورانی
ہے زلف شاہد شیریں بدستِ غیر محرم ہا
رقیب ہیں شاد شاہد کہ ہم ہیں محروم ارمانی
بکھر کر ہوگئی ہیں شیرازہ ہماری جزو کی اے رب
نماشیرازہ بندی ازکرم جز وپریشانی
زمانہ سفلہ پرور ہے اگر پوچھیں تو سچ یہ ہے
نہیں دیکھو گے شاہی خاندان میں دولت ار زانی
نہیں آتا ہے چین مجھ کو سنبھل جا اے دل مضطر
کر اپنی سیل خون سے دورگلستان کی یہ ویرانی
صبا پیامِ علیؔ جا کر بہ شش در مشتہر کردے
کہ آگِ عشق کا کب تک رہے گا شور پنہانی
’’ درس ترقی‘‘ اس عنوان کے تحت اخبار ترجمان بلوچ کراچی میں قوم سے مخاطب ہو کر انہیں وطن سے محبت اور علم حاصل کرنے کی افادیت سے یوں آگاہ کیا ہے :
مجھے اپنے وطن سے حقیقت کی محبت ہے
محبت ہے محبت ہے کہ جس کانام حقیقت ہے
ترقی علم میں مضمر ہے بے علمی جہالت ہے
بنو کہ شان علمیت خدا کی عین رحمت ہے
جہالت سے اگر جاہل کو تم کو روکناہے پھر
بلوچستان میں اک گشتی جماعت کی ضرورت ہے
وطن کے شمع پر پروانہ سا جلنے کے ہو شائق
تو جل جاو کہ جلنے کا یہی وقت اور مدت ہے
سمندر میں عزیز ؔ وکرد ؔ نے کشتی توڈالے ہیں
اب اس کو موج طوفان سے بچانا تیری ہمت ہے
اس بیت میں جس بلاغت سے قوم کو واضح اور صاف پیغام دیا ہے ،یہ انہی کا کمال ہے :
غم مخور گر منزلت ہرچند باشد خم بہ خم
درپسِ تاریک شب پنہان باشدصبح دم
ان دنوں جب ہر طرف سے زبان بندی کا تاریک دور اپنے عروج پر تھا تو کراچی سے ایک اخبار ’’بلوچستان جدید ‘‘کا اجراہوا ۔ اس پر مسرت موقع پر آپ نے خیر مقدمی کلمات اپنے ان اشعار میں کیا خوبصورتی سے بیان کئے ہیں
روزِ میمون ساعتِ خوش شدہویدا ہمچو عید
گردشِ افلاک رفت آمد بلوچستان جدید
ہاتفِ غیبی بگوش ہوش آورد این نوید
بربلوچستان رخشاں شد عجب نجمِ سعید
افتتاحِ باب آزادی بشد از حکم رب
آخرش ریحان بدست آمد پس ازمدت مدید
فضلِ مولا شاملِ حالِ بلوچستان است
شد عجب اخبار ما از چاپلوسی ہا بعید
برگلستانِ بلوچستان نسیمے ؔ آمدہ
حالت پژ مردہ مارا بدید وہم شنید
ہمت عنقائےؔ مارا باد صدہا آفرین
کرد ؔ حبِ قوم مجبورش محن از کس ندید
اے علیؔ وردِ زبان کن مصرع حافظؔ مدام
ابرآزادی بر آمد باد نوِروزی وزید
اسی نوعیت اور پالیسی کے ایک دوسرے اخبار کے اجرا پر آپ نے اپنی خوشی کا اظہار یوں کیا:
ظہور گشتہ عجب جریدہ کہ نام اواست کلمتہ الحق
دلے عزیز ان نمودہ شادان ولے قلوب حسود شد شق
بحمداللہ بیاد گارئی یوسفِ ؔ مابگشتہ اجرا
کہ بد عزیز نمہ خلائق عجب عزیز ؔ ے کہ بُود ارشق
۔28مئی 1933میں اخبار ’’البلوچ‘‘ میں شائع مندرجہ ذیل کلام پڑھیے:
نغمہ درد
از خدا خواہم کہ بخشدہمتِ صلح وقرار
تاکہ بے خوف وخطر باشدہمین ملک ودیار
اے بلوچان دور باشید از شقاق(۱) و اختلاف
اتفاق و آشتی بکنید با خویش وتبار(2)
موسمِ علم است این وقتِ ہنراے قومِ ما
زوداز خواب شبینہ خیز شد وقت نہار
بگزرد وقتِ بہار آید خزانِ نا بکار
تاکنوں مدہوش ومستی ہوشِ خود را درسرآر
یوسفِ کنعان(3) برون از چاہ وزندان آمدہ
گشتہ سرخیلِ شمایان آن عزیزِ نامدار
کن دماغِ ما معطر اے نسیم ؔ (4)صبحدم
در سحر از بوئے گل بشگفتہ دروقتِ بہار
غرق در بحر است اے خضر خجستہ(5) قومِ ما
مدتی از نصرتت ہستیم اندر انتظار
جہد سر بازی(6) کہ در آزادی وبیداری است
تا شوید از علم وفن باترک وایران ہمقطار
کرد ؔ (7)نالد ہمچو بلبل از فراقِ برگ گل
زانکہ از دستِ خزان بُستان باشدا شکبار
نکتہ رادریاب عنقا(8) از عدم آمد ظہور
نیستی راجع(9) بہ ہستی گیراز این اعتبار
بہرِ امدادِ شما آمد علیؔ شہوار
تارہاندجانِ دشمن رابضربِ ذوالفقار
۔1۔دشمنی
۔2۔خاندان و اولاد
۔3۔ نواب محمد یوسف علی خان عزیز مگسی
۔4۔ پیربخش تخلص نسیمؔ تلوی
۔5۔ میر مٹھا خان مری تخلص خضرؔ
۔6۔ مولوی عبدالصمد سربازی
۔7۔ میر عبدالعزیز خان کُرد
۔8۔ محمد حسین عنقاؔ
۔9۔بمعنی رجوع کنندہ۔
آخر میں اس مضمون کا اختتام میر صاحب مرحوم کے ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں جو انہوں نے محمد یوسف علی خان عزیز مگسی کی ناگہانی رحلت کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار رکیا ہے ۔
رہتی ہیں آنکھیں اشکبار
دل سے نکلتے ہیں شرار
ہے جان وتن بھی بے قرار
تجھ بن کہاں دل کو قرار
اے یوسفِ علی مقام
منظور جملہ خاص و عام
بلبل میانِ مرغزار
کرتا ہے گریہ زار زار
کوکوکناں قمری فگار
کیسا خزان کیسی بہار
اب تھا بہار اور اب خزاں
ایسے ہیں کامِ یہ جہاں
گلشن سے گلچینِ اجل
چن کر گلابِ باعمل
کرلی ہے دنیا مضمحل
پتھر بھی گریاں درجبل
یوسفؔ تیری اس موت سے
افسوس تیری موت سے
میں کیا کروں رب سے دعا
تیرے جو کام ہیں برملا
بخشا ہے تجھ کو خود خدا
جنت میں ماوائے ہے ترا
جانِ بلوچستانیاں
اے یوسفِ جنت مکان
دل کا لہو بہتا ہے دیکھ
تنِ زار غم سہتا ہے دیکھ
غمگین جہاں رہتا ہے دیکھ
بندہ علیؔ کہتا ہے دیکھ
افسوس وحسرت یوسفا
تیر جدائی سے سدا
آپ 19جنوری 1982کی شب کو مختصر علالت کے بعد اس دارِ فانی سے دارالبقا تشریف لے گئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے