ساری کائنات میٹریل ہے۔ انسان خود میٹر ہے ۔اگر انسان میٹریل تگ ودو(جوکہ اُسے ہر صورت میں کرنی پڑتی ہے) ترک کر دے تو زندگی ختم ہوکر رہ جائے ۔ زندگی کی رونقیں میٹریل ترقی کی وجہ سے ہی ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک اور جاپان میں میٹریل ترقی کی بدولت بھوک سے نجات ملی ہے اور بیماریوں میں کمی ہوئی ہے ۔ فاصلوں کا سمٹ جانا اور سہولیات کی فراوانی سب کچھ میٹریل ترقی کی وجہ سے ہے۔
میٹریلزم کے برعکس بالعموم عالم روحانیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دنیا میں ارتقا دنیا تجربات ومشاہدات کی کھائی سے گزر کر اور غلطیاں کر کر کے درست سمت کی طرف گامزن ہوتی ہے ۔ جن لوگوں نے یہ انکشافات کیے کہ زمین گول ہے ، یہ سورج کے گرد چکر لگاتی ہے ۔ زمین ، سورج اور ستاروں کے مقابلے میں نہایت حقیر اور چھوٹی سی چیز ہے ، انہوں نے کسی الہام کے ذریعے انکشافات نہیں کیے تھے بلکہ یہ ان کی برسوں کی تحقیقات کا نتیجہ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگINTUITIVE GENIUSتھے۔ سائینس دان بردنو کو جلا دیا گیا۔ گیلیلیو کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا اور کچھ دیگر سائنس دانوں کو بھی مروادیا گیا تھا۔ اس میٹریل دنیا کے نوے فی صد مسائل معاشی ومادی ہی ہیں۔
کیا اہل مغرب جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں کہ وہ میٹیریلزم پیدا کر کے اسے دوسرے ممالک کو برآمد یا سمگل کر رہے ہیں ؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ تو تاریخ کا جبر ہے ۔ میٹیریلزم تو ہمیشہ سے ہے۔ جس میٹیریلزم کو منفی انداز میں بیان کیا جاتا ہے اس نے تو سرمایہ داری دور کے ساتھ جنم لینا ہی تھا۔ اہل مغرب خود میٹیریلزم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں رہ رہے ہیں۔ ان کے اخلاق ہم سے بلند ہیں۔ وہ ہماری نسبت اچھے انسان ہیں۔ اور ہم جوان سے ہزاروں میل دور رہتے ہیں ، ان کے اخلاق سے منفی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
اکثر فاتحین نے مفتوحین سے بالعموم ظالما نہ سلوک ہی کیا ہے اگر چہ نرم اور انصاف پسند فاتحین بھی ملتے ہیں۔ لیکن ان کی مثالیں بہت کم ہیں۔ محکوموں کو دبا کر رکھنے کے لیے فاتحین کو اکثر جبر سے کام لینا پڑتا ہے ۔ کیونکہ یہ لازمی امر ہے کہ حاکم قوم محکوموں کی معشیت پر پل رہی ہوتی ہے ۔ محکوم قوم خواہ مخواہ بہتر حالات میں بھی رہ رہی ہو، اُسے احساس غلامی تنگ کر رہا ہوتا ہے اور وہ آزادی کی کوشش میں مصروف رہتی ہے جبکہ حاکم قوم ایسے حربے اختیار کرنے میں مصروف رہتی ہے کہ وہ ان پر زیادہ سے زیادہ دیر تک مسلط رہ سکے۔ چنانچہ حاکموں کی طرف سے محکوموں پر جبر، ظلم فطری امر ہوتی ہے۔
جہاں تک انفرادی اخلاق کا تعلق ہے ۔ اہل مغرب کا معیار مشرقی لوگوں سے مختلف ہے ۔ وہ شراب نوشی ، جسم کی نمائش اور جنسی اختلاط کو معیوب نہیں سمجھتے ۔ لیکن جن باتوں کو وہ بُرا سمجھتے ہیں۔ اُن سے پرہیز کرتے ہیں ۔ مثلاً وعدہ کرتے ہیں توپورا کرتے ہیں۔سودا پورا کرتے تولتے ہیں۔ ایک دوسرے سے تہذیب سے پیش آتے ہیں۔ خواتین کا احترام کرتے ہیں۔ جانوروں پر رحم کرتے ہیں۔ الیکشن میں مخالف کی فتح کو دل سے قبول کرتے ہیں ۔حکومتی پارٹی اور حذب مخالفFouly Playنہیں کرتے ۔ الیکشن میں بالعموم دھاندلی نہیں کرتے وغیرہ۔ میٹربڑی طاقت ہے ۔ انسانی تہذیب وتمدن کی کہانی میٹر کے ارتقا کی کہانی ہے ۔ زندگی کی رونقیں میٹیریل ترقی کی وجہ سے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھوک سے نجات ، بیماریوں میں کمی، فاصلوں کا سمٹنا، سہولیات کی بارش ، خواندگی کی بلند شرح ،اوسط عمر میں اضافہ پیسے اورخوراک کی فراوانی ، یہ سب کچھ میٹیریل ترقی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپ میٹیریل ترقی کی وجہ سے دنیا پر حکمران ہیں۔میٹیریل قوت ہی ہے جو اقوام کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے ۔ فرض کریں ایک لاکھ افراد پر مشتمل فوج تیر کمان اور تلواریں لیے کھڑی ہوا اور دوسری طرف میٹیریل ساز وسامان یعنی میز ائلوں او توپوں سے لیس ایک سوفوجی ہوں تو وہ ایک لاکھ شمشیر زنوں کو برباد کرتے ہوئے سبقت حاصل کرلیں گے۔ ماضی بعید میں میٹیریل سامان کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر عوامل بھی تھے جو فیصلہ کن ہوسکتے تھے لیکن آج کے مقابلے میں انگریزوں کا ایک مختصر سافوجی دستہ تھا جو مشین گنوں سے مسلح تھا۔ ایک طرف صرف 28انگریز مارے گئے اور دوسری طرف گیارہ ہزار درویش ہلاک ہوئے ۔ امریکہ کے ایک جنگی بحری بیڑے نے سمندر میں کھڑے کھڑے افغانستان کو چند ہفتوں میں فتح کر لیا ۔ پوری دنیا امریکہ سے میٹیریل طاقت کے باعث ہی خوف زدہ ہے ۔ ٹریکٹر،ہاورو یسٹر ، تھر یشر اور کیڑے مارزرعی ادویات نے زراعت میں انقلاب برپا کردیا ہے ۔ ایک صدی پہلے جتنی محنت ایک سو آدمی ایک سودن میں کر کے ایک خاص مقدار میں پیداوار حاصل کرتے تھے آج دس آدمی دس دن میں اتنی پیداوار حاصل کر لیتے ہیں۔ گویا کہ سوگنا کم وقت اور محنت سے اسی قد ر پیداوار حاصل کر لی جاتی ہے ۔ پس ثابت یہ ہوا کہ جو افراد اور قومیں میٹیریل سے منہ پھیریں گے ، نقصان میں رہیں گے ، اُن کا استحصال ہوتا رہے گا۔ جو لوگ دنیاوی ترقی سے نفرت دلاتے ہیں وہ قوم کے دشمن ہی ہوسکتے ہیں۔
صحت ، زراعت ، صنعت تعلیم اور طب کے شعبوں میں ترقی ، میٹیریل ترقی ہی ہے ۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ دولت یا میٹیریل ترقی لازمی نہیں کہ سکون قلب کا باعث بھی ہو۔ اس سے زندگی آرام سے تو گزرتی ہے لیکن سکون قلب کی ضمانت اس لیے نہیں دی جاسکتی کہ انسانی خواہشات کا سلسلہ لامتناہی ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ایک آدمی جس کے پاس سائیکل ہے وہ موٹر سائیکل کے حصول کی خواہش رکھتا ہے اور جب کسی کو موٹر سائیکل مل جائے تو وہ کار کی خواہش پال لیتا ہے یوں اُسے کسی مرحلہ پر چین نہیں ملتا۔ یہ فطری بات ہے ، اس میں میٹیریل یا دولت کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ میٹیریل اور معاشی ترقی نے تو انسان کو ایسی سہولیات دی ہیں۔ جنہوں نے اس کی زندگی کو آسان بنادیا ہے ۔ سخت گرمی اور سخت سردی سے بچاؤ کے سامان فراہم کردیئے ہیں۔ تیل، گیس اور بجلی سے چلنے والی اشیا ، چولہے ، فریج ، واشنگ مشین ، ٹیلی فون، تیز ذرائع آمدورفت ومواصلات ، ٹی وی اور دیگر بے شمار سہولیات نے اس کرہ ارض کو رہنے کے قابل بنادیا ہے ۔ اورترقی یافتہ ممالک کی سرزمین کو جنت نما بنادیا ہے۔
جو ممالک میٹیریل لحاظ سے طاقتور ہیں و ہ اخلاقی طور سے بھی مضبوط ہیں۔ پاکستان میٹیریل لحاظ سے کمزور ہے ، یہ اخلاقی طور پر بھی کمزور ہے ۔ یہاں انجکشن لگانے والی سرنجیں استعمال کے بعد دوبارہ فروخت کے لیے پیک نذر ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہر قسم کی ملاوٹ موجود ہے ۔ حتّیکہ ادویات اور خوراک جن پر زندگی انحصار ہے اُن میں ملاوٹ کی جاتی ہے ۔ یہاں کی پولیس کا معیار یورپی اور امریکی پولیس کے مقابلے میں اخلاقی لحاظ سے بہت پست ہے۔ دوسرے اداروں پر بھی یوں ہی قیاس کر لیں۔ یہاں حزب اقتدار اور حزب مخالف ایک دوسرے کو نیچادیکھانے کے لیے جو گھٹیا حربے اختیار کرتی ہیں وہ میٹریل طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اختیار نہیں کیے جاتے ۔ وہاں اگر کوئی ایسی کمینی حرکت کرے تو بذریعہ مواخذ ہ حکومت سے نکال باہر کردیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ امریکہ کا سابق صد رنکسن واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آکر صدارت سے محروم ہوا۔
اہل مغرب نے دنیا پر حکمرانی میٹیریل ترقی کے ذریعے سے ہی کی ہے ۔ انہوں نے فزکس ، کمیسٹری ، ریاضی ، کامرس اور معاشیات کے دیگر شعبوں میں ترقی کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے ۔ عمل اور ردعمل کے قوانین نیز جدلیات اور نظریہ اضافت کو پیش نظر کر ایک عالم ہی کائنات میں تبدیلیاں لاسکتا ہے ۔ اور معاشرے کے مقدر کو سنوار سکتا ہے ۔ میٹر پر علم کے اطلاق سے ہی انسانیت کا ئنات کے نئے سے نئے رازوں سے روشناس ہوتی چلی جارہی ہے۔
انسان کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ جو ستارے ٹوٹ کر روشنی کی لکیر بناتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ دراصل ستارے نہیں شہابیے ہیں اور جب وہ زمین کی کشش میں داخل ہوکر کُرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں تو اپنی تیزی اور رگڑ کے باعث آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ادھ جلے پتھر زمین پر بھی آگر تے ہیں۔ اگر زمین کسی دم دار ستارے کی دم میں سے گزرنے لگے تو سائنس دان پہلے ہی بتادیتے ہیں کہ فلاں رات کوشہابیوں کی بارش ہوگی اور اس رات آسمان پر بار بار ٹوٹتے شہابیوں کی روشن لکیریں بن رہی ہوتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دم دار ستارہ اپنی لاکھوں میل لمبی چوڑی دم میں لاکھوں شہابیے(چھوٹے بڑے پتھر) لیے ہوئے ہوتا ہے ۔ ان میں سے بعض زمین کے دائرہ کشش میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔
فلاحی ریاست کا امکان بھی ترقی نے پیدا کیا ہے ۔ بہترین انسان پیدا کرنا اور ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنا اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک میٹیریل خوشحالی نہ ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں غریب لوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں ، عورتیں تیسرے درجے کی شہری ہوں اور لونڈیاں ، غلام اور اقلتیں چوتھے درجے کے شہری ہوں وہ کیسے فلاحی معاشرہ کہلاسکتا ہے۔
سائنس ،ٹیکنالوجی اور صنعت کاری نے جمہوری فضا پیدا کی ہے ۔ معاشرے کی گھٹن کو دور کیاہے۔ جاگیرداری کا خاتمہ اور کسانوں کو آزادی بخشی ہے ۔ علاوہ ازیں خواتین اور مزدوروں کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہوا۔ جہالت کا خاتمہ ہوا۔ اس کی بدولت معیار صحت بلند ہوا۔ بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوا ۔ اور بہت سی بیماریوں پر کنٹرول کرنا ممکن ہوا۔ امراض کے اسباب جان لیے گئے ۔ شخصی حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ عوام کی حاکمیت کا رواج ہوا۔ جدید تعلیم اور میٹیریل ترقی نے ہی ذات پات کی تفریق اور قبائلیت کا خاتمہ کیا ۔ ترقی پسند سوچ پیدا کی۔ وسیع الذہنی پیدا ہوئی۔
ماضی میں شاہی یا آمرانہ نظام میں لوگوں کی صلاحیتوں سے بھر پور انداز میں کام نہ لیا جاسکتا تھا۔ لوگ پہل کاری کی صلاحیت سے محروم تھے۔ جمہوریت میں آزادی اور تعلیم کی وجہ سے ہی سبھی مردوں اور عورتوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں معاشرے کی رفتار ترقی کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ جس ملک میں عورتوں کو پردے اور چارد یواری میں رکھا جائے وہاں ترقی کی رفتار یقیناًسست ہوگی۔ جہاں عورتیں پبلک امور میں بھرپور انداز میں شریک ہوں گی، وہاں ترقی کئی گنازیادہ ہوگی۔
غلامی کاخاتمہ دولت پرست سرمایہ دارانہ نظام نے کیا۔ غلاموں کو دیگر آزاد لوگوں کے برابر کردیا۔ترقی کے فرق کی وجہ سے ہی تیسری دنیا کے بعض ممالک میں ابھی تک غلامی کا رواج موجو دہے جب کہ امریکہ اوریورپی ممالک نے اس کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے۔ میٹیریل ترقی کی برکت سے ہی ذرائع نقل وحمل ، ٹیلی فون اور ٹیلی وژن وغیرہ نے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے ۔ ایک صدی پہلے جب کوئی شخص اپنے رشتہ داروں کو پچاس میل کے فاصلے پر ملنے جاتا تھا تو اسے جاتے تین چاردن لگ جاتے تھے ۔ اس طرح واپسی پر بھی اتنے ہی دن۔ کچھ قیام کے دن ۔ یوں اُسے نہ صرف تکلیف ہوتی بلکہ وقت بھی ضائع ہوتا تھا۔ اب چند گھنٹوں میں منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بذریعہ ٹیلی فون منٹوں میں ملاقات کی جاسکتی ہے بلکہ انٹرنیٹ اور سکائپ وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقات کی جاسکتی ہے۔ اگر آئین اور قوانین ہم نے مغربی ممالک سے لیے ہیں تو کوئی برا نہیں کیا ہے کیوں کہ یہ ہماری بھی خواہش ہے کہ ہمارے ادارے ان کے اداروں کی طرح چلیں اور ہم بھی تہذیب وترقی کی طرف گامزن ہوں۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا ہے ۔ ہمارے قوانین و آئین تقریباً وہی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں لیکن ہمارے ادارے اور عوام و ہ نتائج پیدا نہیں کر رہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ادارے اور عوام پیدا کر رہے ہیں۔ یہاں ادارے آپس میں دست وگریبان ہیں۔ کوئی ادارہ قانون کے مطابق کام نہیں کر رہا۔ سیاسی پارٹیاں رواداری سے خالی ہیں۔ اخلاقی پستی کا زبردست مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ ادارے ایک دوسرے کے کام میں ناجائز مداخلت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں وہ مطلوبہ جمہوری کلچر پیدا نہیں ہوسکا جو مغرب میں موجود ہے۔ آئین وقوانین تو اچھے بیج کی طرح بہترین ہیں ۔ لیکن ان کی نشو ونما کے لیے زرخیز زمین اور ساز گار ماحول موجو د نہیں ہے۔ وہ ساز گار ماحول سائنس ، صنعت اور ٹیکنالوجی پیدا کرتی ہے ۔ ایسا ماحول محض تزکیہ نفس کی تلقینوں اور واعظوں کے پندو نصائح سے پیدا نہیں ہوسکتا۔
میٹریلزم انصاف پیدا کرتی ہے ۔ملک باوسیلہ اور خوشحال ہوگا تو ہر ایک کو حقوق سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ملے گا۔ ہر فرد پہلی کلاس سے ایم اے تک تبھی تعلیم حاصل کرسکتا ہے جب لوگوں کے پاس اپنے بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں بھیجنے کے لیے پیسے ہوں۔ روزگار کا حق تبھی میسر ہوگا اگر روز گار کے مواقع موجود ہوں گے ورنہ لوگ حقوق سے یکساں طور پر فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔
بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ دنیا میں بے چینی کی وجہ مغرب کی میٹریلزم ہے ۔ ان کے خیال میں مغربی میٹریلسٹ معاشروں کو روحانیت کی ضرورت ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشرق کے لوگ جو ابھی مادی ترقی سے دور ہیں اور جن کے پاس روحانیت بھی موجود ہے ، پرسکون ہیں؟ ۔ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان کے چہروں پر بے رونقی ، سرد مہری ، یاس اور افسردگی چھائی ہوئی صاف نظر آتی ہے ۔ اس کے برعکس میٹریل طور پر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ دکھی نہیں ہیں۔ ان کے دمکتے ہوئے شگفتہ چہرے ان کی خوشیوں کے عکاس ہیں۔ ان کی لمبی عمر اور صحت مند بدن ان کے سکھی ہونے کی نشان وہی کرتے ہیں۔ وہ ترقی پذیر اور روحانیت کی حامل قوموں کی نسبت زیادہ پرسکون ہیں۔ غریب اقوام کے افراد کو احساس محرومی اور احساس عدم تحفظ پریشان کیے رکھتا ہے۔ روحانیت یا رہبانیت کی طرف رجوع کرنا بے چینی نہیں ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملیر یا یانمونیہ کے مریض کو ڈاکٹر کی طرف لے جانے کی بجائے بغرض دم اور تعویز دھاگا کسی پنڈت پادری کے پاس لے جائیں ۔ دنیا کے دکھوں کا علاج تو صرف خوشحالی اور انسانیت نوازی میں ہے۔
دنیا کے دانش وروں کو معلوم ہے کہ نجات کا راستہ ترقی میں سے ہو کر ہی گزرتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی کو تمام انسانوں تک پھیلایا جائے ۔ تمام افراد ، اقوام اور علاقوں کا معاشی استحصال ، احساس محرومی اور احساس عدم تحفظ ختم ہونا چاہیے۔
اگر کوئی دانشور یہ خیال کرتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے میٹریلزم کی زد میں آکر اخلاقیات سے عاری ہوگئے ہیں تو یہ اُس کی خام خیالی ہے ۔مقابلہ وموزانہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک ہی دراصل تہذیب یافتہ ہیں۔ ان کا اخلاقیات کامعیار بھی ترقی پذیر اقوام کی نسبت اونچا ہے۔
لیکن دنیا میں بے چینی تو بہرحال موجودہے۔ اکیسویں صدی کے شروع میں اسی بے چینی کا اظہار دہشت گردی کی شکل میں ہوا۔ جس سے تشدد ، مادھاڑ ، قتل وغارت گری، تناؤ تصادم اور خوف وہراس کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ ان سب چیزوں کی موجودگی اپنی جگہ ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بے چینی واقعی زمانہ حال کی پیدوار ہے اور کیا یہ ترقی کی دین ہے ؟ ہر گز نہیں۔ دکھوں ، غموں پر یشانیوں اور مصیبتوں کی بے شمار شکلیں ماضی میں بھی موجود رہی ہیں۔ اگر چہ بہت سی پرانی بے چینیوں اور مصائب میں کمی آئی ہے لیکن کچھ نئے دکھ بھی ملے ہیں۔ مجموعی طور پر جمع تفریق کرنے کے بعد ہم اس نتیجے ہیں کہ ان تمام مسائل کے باوجود حال اور مستقبل ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ لیکن جس بے چینی کا ہمیں سامنا ہے اس کا علاج تو کرنا ضروری ہے ۔
برازیل کے ایک دانشورLucia C.Pinto Souzaنے اس بے چینی کا علاج بچوں کوSports اور Musicکی طرف راغب کرنے میں تلاش کیا ہے ۔ افلاطون نے بھی اپنے نظام تعلیم میں ان دونوں چیزوں کو بہت اہمیت دی ہے ۔ لیکن پسماندہ معاشرے اسے علاج کی بجائے بیماری کا نام دیتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں یہ چیزیں اخلاق سنوارنے کی بجائے اخلاق بگاڑتی ہیں۔
سرمایہ داری تمدن میں لازما کُچھ مسائل بھی ہوں گے لیکن ترقی کے مراحل طے کرنے کیلئے ہر معاشرے کو یہ قیمت تو اد اکرنی ہی پڑے گی۔ مثلاً اگر خاندانی رشتوں میں دراڑیں آرہی ہیں یانئی نسل پرانی نسل کے احکامات کے مطابق زندگی نہیں گزارتی تو یہ صورت حال تو برداشت کرنا ہی پڑے گی۔ رد عمل کے طور پر قدامت پسند لوگ پرانے ڈھانچے کو قائم رکھنے کے لیے یا پرانی اقدار کی بحالی کے لیے تحریکیں برپا کریں گے لیکن زمانہ ساتھ نہ دے گا۔ کیونکہ نئے کی جیت اور پرانے کی ہار تو تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔
ترقی کے دوران میں یہ چھوٹی چھوٹی قباحتیں تو پیدا ہوتی رہیں گی۔ انسان کا کمال یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرے ۔ لیکن اگر قباحتیں ختم نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترقی سے ہی ہاتھ کھینچ لیا جائے ۔ مثلاً اگر بجلی کا کرنٹ لگنے سے یا گیس کا سلنڈر پھٹنے سے کوئی شخص ہلاک ہوجائے تو کیا لوگ بجلی اور گیس کا استعمال ترک کردیں گے۔ ہر گز نہیں ۔ بلکہ ان خطرات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔ احتیاطی تدابیراختیار کی جائیں گے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب کی مادی ترقی بیکار اور فضول چیز ہے ؟۔ کیا ترقی یافتہ معاشرے اس سے اکتا گئے ہیں۔ جب مغرب کا کوئی آدمی ایسے خیال کا اظہار کرتا ہے کہ مادی ترقی نے نہ صرف اُنہیں کچھ نہیں دیا بلکہ ان کی انسانیت چھین لی ہے تو مشرق والے غربا بہت خوش ہوتے ہیں کہ چلو شکر ہے کہ ہم تو ان آسائشات زندگی کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں ہی لیکن جوان کو حاصل کرچکے ہیں وہ بھی ناخوش ہیں ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شادی شدہ شخص ایک غیر شادی شدہ کے سامنے زندگی کے مسائل ومصائب بیان کرنا شروع کردے اور شکوے شکایت لے کر بیٹھ جائے تو کنوارا کہے کہ خدا کا شکر ہے کہ اس کی شادی نہیں ہوئی۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ شادی شدہ ہونا عین فطری ہے اور بہر حال مجرد ہونے سے بہتر ہے ۔ اسی طرح پریشانیوں اور مسائل کے باوجود کسی ملک کا مادی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال ہونا اس غریب ملک کی نسبت اچھا ہے جس میں پریشانیاں ومصائب تو ہیں لیکن مادی خوشحالی نہیں ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے