سْکھ کے موسم کی نظموں سے، لفظوں کے مْردوں کی بْو
پھیلتی جارہی ہے یہاں
جبکہ سازِ بقا کی صداؤں میں محرومیوں،
بے بسیوں کی آہیں گْھٹی جاتی ہیں
آپ اپنے جگر نوچ ڈالے ہیں عْشّاق نے
پر بھلائی کے وقتوں کی تصویر روشن نہیں

بِحر و بَر کے خزانوں سے ہٹ کر،
بقا کی تمنا کے مارے ہوؤں کے وسائل فقط
جْستْجو کے یہی پھول ہیں

جن کی جانب ترقی کے خواہاں اداروں کی
انسانیت کے بڑے ٹھیکہ داروں کی، نظریں نہیں

اُن کے آقاؤں کو سْود کے کھیل سے
کیونکہ فرصت نہیں
عالمی طاقتوں کی بڑی منڈیوں میں ابھی
خیر کے خواب کی کوئی وْقعت نہیں۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے